نیویارک سے شائع ہونے والے عربی جریدہ ’’غربۃ‘‘ (ghorbanews.com) نے ۱۱ نومبر ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ ایرانی حکومت نے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے زواج مؤقت (متعہ) کو قانونی حیثیت دینے کا اعلان کیا ہے اور عام شاہراہوں پر اس مقصد کے لیے مراکز قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ خبر کے مطابق ان مراکز کو ’’بیوت العفاف‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور ایک سرکاری اعلان میں کہا گیا ہے کہ غیر رسمی جنسی تعلقات کو کنٹرول کرنے کی غرض سے ’’زواج مؤقت‘‘ کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قم، مشہد اور طہران کے مذہبی مراکز نے اس سے اتفاق کر لیا ہے جبکہ ان جنسی مراکز میں ۵۰ ڈالر سے ۱۱۰ ڈالر فی شب تک نرخ بھی متعارف کر لیا گیا ہے اور اس کا نصف منافع دینی مدارس و مراکز کے لیے مخصوص کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شاہ ایران کے دور میں اس قسم کے مراکز موجود تھے جنہیں مذہبی انقلاب کے بعد خمینی نے بند کرا دیا تھا اور زواج متعہ پر قانوناً پابندی لگا دی تھی۔ مگر ۱۹۹۱ء میں ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی نے یہ پابندی ختم کرکے متعہ کی پھر سے اجازت دے دی تھی اور اب موجودہ حکومت نے اسے قانونی شکل دینے کے لیے مذکورہ بالا پیشرفت کا اعلان کیا ہے۔
’’متعہ‘‘ کا ذکر نکاح کے حوالہ سے بیسیوں احادیث میں موجود ہے اور ان میں اس بات کا تذکرہ بھی ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں متعہ کے نکاح کو تسلیم شدہ نکاح کی حیثیت حاصل تھی اور ابتدائے اسلام میں غزوۂ خیبر تک یہی پوزیشن رہی ہے۔ مگر اس کے بعد جناب نبی اکرم ؐنے اس کی ممانعت کا اعلان فرما دیا تھا اور قرآن کریم نے سورۃ المؤمنون کی آیت ۶ و ۷ میں باقاعدہ بیوی اور شرعی لونڈی کے سوا کسی بھی عورت کے ساتھ جنسی تعلق کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے، مگر اہل تشیع کے نزدیک نکاح متعہ منسوخ نہیں ہوا اور اب بھی ان کے نزدیک اس کی شرعی اجازت موجود ہے۔
راقم الحروف کو ۱۹۸۷ء میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، حافظ حسین احمد اور دیگر علماء کرام کے ہمراہ ایران کے گیارہ روزہ دورہ کے دوران ایران کے سب سے بڑے مذہبی شہر قم کے بعض مذہبی مدارس میں جانے اور مختلف اساتذہ کے اسباق سننے کا موقع ملا تھا۔ اسی دوران مدرسہ فیضیہ کے ایک عمر رسیدہ مدرس کا، جو آیت اللہ کے درجہ کے عالم تھے، لیکچر بھی سنا جس میں انہوں نے متعہ کے جواز پر دلائل دیے تھے اور برطانوی مفکر برٹرینڈ رسل کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ برائی کو پورے معاشرے میں پھیلنے کا موقع دینے کی بجائے چند مقامات تک محدود کر دینا چاہیے۔ اس سے برٹرینڈ رسل نے تو شاید قحبہ خانوں کے قانونی جواز پر استدلال کیا ہو گا مگر مذکورہ مذہبی راہنما کا کہنا تھا کہ برائی کو محدود قانونی جواز دینے سے معاشرے میں برائی کا پھیلاؤ رک جاتا ہے اس لیے ہم متعہ کے تسلسل کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔
یہ فلسفہ مغربی دانشوروں کا ہے کہ برائی کو اگر پھیلنے سے روکا نہ جا سکے تو اسے محدود دائرہ میں قبول کر لیا جائے جیسا کہ امریکہ میں اب سے پون صدی قبل شراب بنانے، بیچنے اور پینے پلانے پر قانونی پابندی تھی اور اس کی باقاعدہ سزا مقرر تھی۔ لیکن جب پولیس کی طرف سے پے درپے رپورٹیں آنے لگیں کہ اس قانون پر عمل کرانا اس کے بس میں نہیں ہے تو اس بے بسی کو قانونی جواز کی شکل میں تبدیل کر دیا گیا اور کچھ شرائط عائد کر کے شراب کی فروخت اور پینے پلانے کی اجازت دے دی گئی۔ جبکہ اسی لہجے میں اب بعض مغربی حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہیروئن پر سخت ترین پابندیوں کے باوجود اسے روکا نہیں جا سکا اس لیے اس کے محدود اور مشروط قانونی جواز کی صورتیں تلاش کی جانی چاہئیں۔
مگر اسلام اس فلسفہ کا قائل نہیں ہے اور اس کے نزدیک شر اور برائی پر قابو پانا اور اس کو پھیلنے سے روکنا بہرحال ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے، اسلام خیر اور شر کے فیصلوں اور نیکی یا بدی کے معاملات کو سوسائٹی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا بلکہ سوسائٹی کو خیر و شر کے دائرے میں لانے اور پابند رکھنے کو ریاست و حکومت کا فریضہ قرار دیتا ہے۔ ’’زواج مؤقت‘‘ کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایرانی حکومت جتنے جواز بھی پیش کرے ان سب کے باوجود یہ فیصلہ بہرحال برائی کو ختم کرنے کی بجائے اسے قبول کر لینے کا فیصلہ ہے اور برائی کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کا طرز عمل ہے جس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔