جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگیں بھی کی ہیں اور صلحات بھی۔ حضورؐ نے جو جنگیں کیں ان کا مقصد کیا تھا اور وہ کن اصولوں کے تحت لڑی گئیں؟ اور آپؐ نے جو صلحیں کیں وہ کن مصلحتوں کے تحت کی گئیں اور حضورؐ نے ان صلحوں کو کیسے نبھایا؟ اس حوالے سے مختصراً چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ جناب نبی کریمؐ نے جو دین پیش کیا وہ صرف اخلاقیات اور عبادات پر ہی مشتمل نہیں بلکہ یہ دین پوری زندگی کا انسانی ضابطہ حیات ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ یہ دین زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے۔ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب محمد رسول اللہؐ تک جتنے پیغمبر بھی آئے سب کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط رہی ہیں۔
یہ انسانوں کی بدقسمتی ہے کہ آج انسانی سوسائٹی کے ایک بڑے حصے نے آسمانی تعلیمات سے قطع تعلقی اختیار کرلی ہے، اس کے اسباب کچھ بھی ہوں ان پر بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ بدبختی کی بات ہے کہ انسانی سوسائٹی کا ایک بڑا حصہ اپنی عملی زندگی میں آسمانی تعلیمات سے لا تعلق ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ ایک مستقل موضوعِ بحث اور پریشان کن مسئلہ ہے کہ آج انسانوں کا ایک بڑا طبقہ عقیدتاً یہ بات کہتا ہے کہ آسمانی تعلیمات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور دنیا بھر میں مسلمان جن اعتراضات اور تنقیدات کا نشانہ ہیں ان میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ مسلمان آسمانی تعلیمات سے لا تعلقی کے موقف کو قبول نہیں کر رہا۔ یہ بات کہ عملی زندگیوں میں آسمانی تعلیمات سے لا تعلقی اختیار کر لی جائے مسلمان کسی طور قبول نہیں کر پا رہے جبکہ دنیا کی باقی قومیں مجموعی طور پر یہ بات ہضم کر چکی ہیں۔ یہ مسئلہ الگ ہے کہ ان قوموں کے پاس آسمانی تعلیمات اصلی ہیں یا تحریف شدہ ہیں، ان کے پاس آسمانی تعلیمات جس شکل میں بھی ہیں وہ انہیں تاریخی یادگار ، تبرک اور آثار قدیمہ سے زیادہ کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آج کی موجودہ بائبل دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہے لیکن اس میں جو کچھ لکھا ہے اس پر کوئی بھی عمل کے لیے تیار نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ قرآن کریم سے پہلے کی آسمانی کتابوں کے صرف تراجم ہی موجود ہیں اور وہ بھی تحریف شدہ ہیں لیکن بنیادی تعلیمات ان میں آج بھی موجود ہیں۔ میں بائبل بھی پڑھتا ہوں اور تالمود بھی جو کہ اردو میں آگئی ہے۔ تحریفات کے باوجود آج بھی بائبل اور تالمود کی بنیادی تعلیمات قرآن کی بنیادی تعلیمات سے ملتی جلتی ہیں۔ چنانچہ دنیا کی باقی قوموں اور مسلمانوں کے درمیان ایک بڑا فرق یہ ہے کہ دنیا کی قومیں اپنی آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہوگئی ہیں کہ گویا آسمانی تعلیمات ان کے نزدیک اب میوزیم کی چیزیں ہیں۔ جبکہ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم آسمانی تعلیمات سے راہنمائی لیتے ہیں اور اپنی عملی زندگیوں میں قرآن و سنت کے پابند ہیں۔ یہ ایک مستقل تنازعہ اور جھگڑا ہے۔
ایک انسان کی بحیثیت انسان کسی کے ساتھ دوستی ہوگی اور کسی کے ساتھ دشمنی ہوگی، یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی کو اچھا سمجھتا ہے اور کسی کو برا سمجھتا ہے۔ چونکہ سوسائٹی انسانوں سے بنتی ہے اس لیے یہی نیچر سوسائٹی کی بھی ہے۔ جب مختلف قوموں کے فلسفہ و فکر سامنے آتے ہیں تو ان میں ٹکراؤ بھی پیدا ہوتا ہے، اس طرح اجتماعیات میں جنگوں کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں اور صلح کے مواقع بھی۔ قوموں کی آپس میں جنگیں بھی ہوتی ہیں اور مصالحتیں بھی، دشمنیاں بھی ہوتی ہیں اور دوستیاں بھی۔ یہ فرد کی فطرت بھی ہے اور سوسائٹی کی فطرت بھی ہے۔ اسلام نے صلح اور جنگ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بڑی تفصیل سے اصول و ضوابط دیے ہیں، قرآن کریم میں اور سنت رسول میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں اور اس کا ایک پورا نظام سامنے آتا ہے کہ کس سے جنگ کرنی ہے کب کرنی ہے کیوں کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے۔ یہی معاملہ صلح کے حوالے سے بھی ہے۔
اسلام میں جنگ کا تصور
آج کے دور میں عام طور پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے دنیا میں پھیلا ہے، طاقت کے زور پر لوگوں سے تسلیم کرایا گیا ہے اور یہ کہ اسلام میں تبلیغ کا ذریعہ جنگ ہے۔ یہ آج کی دنیا کا مسلمانوں پر اعتراض ہے کہ اسلام میں ہتھیار اٹھانا اس لیے ہے تاکہ اس سے لوگوں کو مسلمان کیا جائے- یہ اعتراض بالکل خلافِ واقعہ ہے اس لیے کہ امت مسلمہ کے مجاز حکام نے کبھی کسی قوم کو مسلمان کرنے کے لیے طاقت استعمال نہیں کی۔ خلافت راشدہ کا دور ہو یا خلافت بنو امیہ کا، خلافت بنو عباس کا زمانہ ہو یا خلافت بنو عثمان کا، کبھی کسی اسلامی حکومت نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ انفرادی طور پر شاید ایسے کچھ واقعات مل جائیں لیکن بحیثیت امت اور بحیثیت خلافت ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وہ مجاز اتھارٹیز جو تیرہ سو سال سے چلی آرہی تھیں جن میں سخت حکومتیں بھی تھیں اور ڈھیلی بھی، خلافت کا نظام مسلمانوں میں جیسا کیسا بھی رہا لیکن ہر دور میں یہ گارنٹی دی گئی کہ کسی قوم پر اسلام قبول کرنے کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا۔ اور اس پر مثالیں موجود ہیں کہ کچھ لوگوں نے اپنے طور پر جبر کرنا چاہا لیکن خلفاء نے اور مجاز حکام نے انہیں روک دیا کہ بھئی ایسا نہیں ہوگا۔
بنو تغلب عیسائیوں کا عرب قبیلہ تھا اور اسلامی حکومت کے زیر اثر تھا، حضرت عمرؓ کے زمانے میں ان کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا۔ بنو امیہ کے دور میں وہاں کے مقامی مسلمان حاکم نے قبیلے والوں سے کہا کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ میں تمہارے خلاف جنگ کروں گا۔ اس پر قبیلے والوں نے خلیفۂ وقت سے شکایت کی تو ان کی شکایت پر اس مقامی حاکم کو معزول کر دیا گیا کہ تمہارا اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں ہے، یہ ان کی مرضی پر ہے کہ وہ مسلمان ہوتے ہیں یا نہیں۔ چنانچہ یہ بات تو قطعی طور پر خلاف واقعہ ہے کہ مسلمانوں نے تلوار کے زور پر کسی کو مسلمان کیا ہو۔ البتہ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ مسلمانوں کو تلوار کے زور پر عیسائی بنایا گیا ہے، جب اسپین پر عیسائیوں کا دوبارہ قبضہ ہو اتو انہوں نے اجتماعی طور پر مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنایا لیکن مسلمانوں نے کسی قوم کو جبراً مسلمان کیا ہو اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، میں مجاز حکام کی بات کر رہا ہوں انفرادی اور شخصی واقعات کا ذکر نہیں کر رہا۔
جہاد کس لیے؟
جہاد کیا ہے اور اسلام میں جنگ کس لیے ہے؟ جہاد آج کی دنیا کے اہم ترین موضوعات میں سے ہے۔ میں مختصراً عرض کرتا ہوں کہ جہاد کا اصولی مفہوم وہی ہے جو آج کی برتر قوتیں اپنے فکر و ثقافت کی بالادستی کے لیے کر رہی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ سی بات ہے لیکن ذرا غور کریں کہ آج کی برتر قوتیں کیا کر رہی ہیں؟ وہ یہ کہتی ہیں کہ ہمارا ایک فلسفہ و تہذیب ہے جسے ہم ہر طرح کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے دنیا تک پہنچائیں گے اور جو بھی ہمارے فلسفہ و تہذیب کی اشاعت میں رکاوٹ بنے گا ہم اس کے ساتھ جنگ کریں گے۔ یہ وہی بات ہے جو ایک دور میں مسلمانوں نے کہی تھی۔ جب پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اس کے بعد یہ کہا گیا کہ اسلام وہ فلسفۂ حیات ہے جو تمام انسانیت کے لیے یکساں مفید ہے اور یہ کہ مسلمان اس تہذیب کو لے کر دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے۔ البتہ ہر کسی کی مرضی ہوگی کہ وہ اسلام قبول کرے یا نہ کرے لیکن جو بھی تبلیغ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے گا اس کے ساتھ جنگ کی جائے گی۔ چنانچہ جہاد کے فلسفے کو آج کی قوتیں تسلیم کیے ہوئے ہیں اور اس پر عمل کر رہی ہیں۔
یہ بات الگ ہے کہ کونسا فلسفہ اور تہذیب ٹھیک ہے اور کونسی غلط۔ لیکن جو قوت اپنے فلسفے کو، اپنی ثقافت کو ، اپنی تہذیب کو صحیح سمجھتی ہے وہ طاقت کے ساتھ پوری دنیا میں اسے پھیلانے کی کوشش کرتی ہے۔ آج جس فلسفے کو دنیا کے لیے بہتر سمجھاجارہا ہے یہ ہیومن رائٹس کا فلسفہ ہے لبرٹی کا فلسفہ ہےعورتوں کے حقوق کا فلسفہ ہے اور مرد و عورت کے مابین مساوات کا فلسفہ ہے۔ آج مغربی تہذیب کو بڑے خوش نما عنوانات کے ساتھ پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے طاقت کا استعمال ہو رہا ہے اور جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ اس فلسفے کی راہ میں لوگ رکاوٹ بن رہے ہیں تو وہاں انہیں طاقت کے ساتھ دبایا اور ختم کیا جا رہا ہے۔یہ فلسفہ کہ نسل انسانی کے لیے جو تہذیب بہتر ہے اس سے نسل انسانی کو روشناس کرانے کے لیے کسی رکاوٹ کو برداشت نہ کیا جائے، اسی کا نام جہاد ہے۔ یعنی اس بات میں زبردستی نہیں ہے کہ کوئی اس تہذیب کو قبول کرتا ہے یا نہیں لیکن یہ تہذیب دوسروں تک پہنچانے میں کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ یہ الگ بحث ہے کہ فلسفہ ان کا ٹھیک ہے یا ہمارا، نسل انسانی کے لیے ان کی تہذیب بہتر ہے یا ہماری۔
اشاعتِ اسلام کے لیے جبر
اشاعت اسلام کے پہلے مرحلے کے متعلق آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اسلام کی دعوت دو اگر مان جائیں تو ٹھیک ورنہ ان سے کہو کہ ہمارے راستے میں رکاوٹ مت بنو۔ یعنی مسلمان نہیں بنتے نہ بنو لیکن ہمیں دوسروں تک اسلام کی دعوت پہنچانے دو۔ اگر تم بطور کافر ہماری رعیت میں رہنا چاہتے ہو تو ہم تمہاری ذمہ داری اٹھائیں گے اور تمہاری حفاظت کریں گے لیکن اگر تم اسلام کی دعوت دینے میں رکاوٹ بنو گے تو ہم تم سے لڑیں گے۔ جناب نبی کریمؐ کو جہاں کہیں بھی شبہ ہوا کہ کسی نے دوسروں کو مسلمان بنانے کے لیے زبردستی کی وہاں نبی کریمؐ نے سختی سے منع فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں اس کے متعلق واضح طور پر فرمایا ’’لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی‘‘ (سورۃ البقرۃ ۲۵۶) کہ دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے بے شک ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے۔ کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کافر کو زبردستی مسلمان کرے، لوگوں کو اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ’’وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر‘‘ (سورۃ الکہف ۲۹) اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے۔ اسلام کی بات پہنچانا اور اسلام کی دعوت دینا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، اس دعوت کو قبول کرنا یا نہ کرنا لوگوں کے اختیار میں ہے۔
قرآن کریم نے یہ بھی کہا کہ جو قوتیں تمہاری دعوت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں ان کے ساتھ دوستی، معاملات اور تعلقات رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ’’لا ینھٰکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین‘‘ (سورۃ الممتحنہ ۸) کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔ اللہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں لیکن جو برتر قوت کی مخالفت میں آئے، جھگڑا کرے اور رکاوٹ بنے تو اس کے متعلق دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ لڑائی کی جاتی ہے اور انہیں راستے سے ہٹایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا منشور جو آج کی دنیا کا مروجہ فلسفہ ہے اس میں بھی یہی بات مذکور ہے کہ اگر کوئی ملک یا قوم اس فلسفے اور اس نظام کی راہ میں رکاوٹ بنے گا تو اس کے خلاف اقوام متحدہ کی اجازت کے ساتھ طاقت استعمال کی جا سکے گی۔ اسلام میں طاقت کے استعمال کا تصور موجود ہے لیکن اسلام کی تبلیغ کے لیے نہیں کیونکہ اسلام میں مسلمان بنانے کے لیے طاقت کے استعمال کا حق کسی کو نہیں ہے۔ البتہ جہاں لوگ دعوت اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں اور مسلمانوں کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے متعلق حضورؐ نے واضح احکامات جاری کیے کہ دورانِ جنگ کسی بوڑھے کو قتل نہیں کرو گے، کسی بچے کو نہیں مارو گے، مخالف لشکر کے ایسے لوگ جو تمہارے خلاف ہتھیارنہیں اٹھائے ہوئے اور ویسے ہی لشکر کی خدمت کر رہے ہیں انہیں بھی نہیں مارو گے اور جو ہتھیار پھینک کر بھاگ جائے گا اسے نہیں مارو گے۔ سچی بات یہ ہے کہ آج کے مہذب دور میں ان باتوں پر عمل نہیں ہوتا۔ آج کے اس دور میں کوئی یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ جنگ میں غیر متعلقہ آدمی نہیں مارا جائے گا بلکہ آج تو غیر متعلقہ لوگ ہی زیادہ مارے جاتے ہیں۔ لیکن جناب نبی کریمؐ نے اس دور میں اس کی ہدایات دیں اور پھر ان ہدایات کی پابندی بھی کروائی۔ ایک جنگ میں حضورؐ نے ایک عورت کی لاش دیکھی تو آپؐ نے پوچھا کہ اس عورت کو کس نے مارا ہے؟ حضورؐ نے اس کی باقاعدہ بازپرس کی کہ جنگ میں ایک عورت کیسے قتل ہوگئی۔
اشاعتِ اسلام کا سبب
آج یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے طاقت کے ذریعے لوگوں کو مسلمان کیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ مکہ کی تیرہ سالہ زندگی جو حضورؐ نے صبر آزما حالات میں گزاری اس دور میں جو لوگ مسلمان ہوئے انہیں کس طاقت نے مسلمان کیا؟ بڑے بڑے مسلمان تو اسی دور میں ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو کس طاقت نے مسلمان کیا تلوار تو ان کے ہاتھ میں تھی اور وہ حضورؐ کے قتل کے ارادے سے حضورؐ کے پاس آئے تھے جبکہ حضورؐ نہتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوذر غفاریؓ بنوغفار سے جب مکہ آئے تو یہ جناب رسول اللہؐ کا شعب ابی طالب میں محصورہونے کا دور تھا۔ ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اس زمانے میں ہی بت پرستی سے نفرت تھی میں خدا کو مانتا تھا اور اپنے ذوق سے اس کی عبادت کیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے قبیلے میں پتہ چلا کہ مکہ میں کوئی صاحب ہیں جو میرے جیسی باتیں کرتے ہیں، میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ جا کرپتہ کر کے آؤ۔ بھائی گیا اور جا کر سرسری معلومات لے کر آیا لیکن مجھے اس سے تسلی نہ ہوئی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود جا کر پتہ کرتا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ میں مکہ میں جب پہنچا تو وہاں سہما سہما سا ماحول تھا مجھے کسی سے یہ بات پوچھنے کا حوصلہ نہ ہوا کہ محمدؐ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں تاکہ میں ان سے مل سکوں۔ میں حرم میں آکر بیٹھ گیا۔ شام کو ایک صاحب آئے اور پوچھا کہ مسافر ہو؟ میں نے بتایا کہ ہاں مسافر ہوں۔ کہنے لگے کہ آؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ میں ان کے ساتھ گیا اور کھانا کھا کر واپس آکر پھر حرم میں بیٹھ گیا۔ دوسرے دن وہی صاحب آئے تو میں پھر حرم میں تھا اور زم زم پی رہا تھا۔ ان صاحب نے پوچھا اے مسافر! تمہیں ابھی تک تمہاری منزل نہیں ملی۔ میں نے کہانہیں۔ انہوں نے پھر مجھے ساتھ لے جا کر کھانا کھلایا۔ تیسرے دن پھر یہی ہوا۔
حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ تین دن یہی ہوتا رہا کہ وہ صاحب مجھے کھانا کھلانے کے لیے لے جاتے اور میں کھانا کھا کر واپس آجاتا۔ نہ مجھ میں ان صاحب سے پوچھنے کا حوصلہ ہوا اور نہ ہی وہ صاحب مجھ سے میرا مقصد پوچھ رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ تیسرے دن میں نے دل سخت کر کے پوچھ ہی لیا کہ بھئی میں یہاں اس مقصد سے آیا ہوں کہ ان صاحب سے ملنا چاہتا ہوں جو توحید کی بات کرتے ہیں اور بتوں کی مخالفت کرتے ہیں، اگر تم میرے ساتھ جھگڑانہ کرو تو میں تم سے یہ بات پوچھ لوں؟ یہ میزبان حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔ حضرت علیؓ ہنس پڑے اور فرمایا کہ تم صحیح آدمی سے ملے ہو کسی اور سے یہ بات کہتے تو نہ جانے کیا معاملہ ہوتا۔ رات آرام کرو میں تمہیں صبح ملاقات کے لیے لے جاؤں گا۔ حضورؐ زید بن ارقمؓ کے مکان میں تھے جو انہوں نے ایک خفیہ ٹھکانہ بنایا ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت ابوذر غفاریؓ حضورؐ کی خدمت میں پیش ہوئے اور آپؐ کی دعوت کے متعلق دریافت کیا۔ آپؐ نے انہیں اپنی دعوت کے متعلق بتایا کہ میں توحید کی بات کرتا ہوں اور بت پرستی کی مخالفت کرتا ہوں اور یوں حضرت ابو ذر غفاریؓ مسلمان ہوگئے۔ نبی کریمؐ نے انہیں ہدایت دی کہ سیدھے اپنے قبیلے چلے جاؤ اور یہاں کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا، اپنے قبیلے میں جا کر کام کرو۔ جب تمہیں یہ خبر ملے کہ میں نے مکہ چھوڑ کر کہیں اور اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے تو تم میرے پاس آجانا۔ جبکہ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے میں تو یہاں اعلان کر کے جاؤں گا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ چنانچہ وہ بیت اللہ کے قریب گئے جہاں سب قریشی اکٹھے تھے وہاں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں ابوذر ہوں بنو غفار سے آیا ہوں اور میں نے کلمہ پڑھ لیا ہے ’’اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ‘‘۔ اس ماحول میں یہ بم پھٹنے والی بات تھی۔ فرماتے ہیں کہ لوگ آگئے کسی کے ہاتھ میں جوتا ہے کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کوئی مکہ مار رہا ہے کوئی تھپڑ مار رہا ہے حتیٰ کہ میں زمین پر گر گیا اور لوگ مجھ پر پل پڑے۔ حضرت عباسؓ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے یہ منظر دیکھ رہے تھے انہوں نے آکر مجھے درمیان سے نکالا اور لوگوں کو مارپیٹ سے روکا اور کہا کہ لوگو کیا کر رہے ہو یہ بنو غفار کا آدمی ہے، شام کی طرف تمہارے تجارت کے قافلے جاتے ہیں تو ان کا قبیلہ راستے میں ہے، تم لوگوں نے اسے مار دیا تو تمہاری تجارت کا راستہ بند ہو جائے گا۔ حضرت عباسؓ نے یہ کہہ کر ان کی جان چھڑوائی۔ ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں رات وہیں رہا اگلے دن جب چاشت کا وقت آیا اور بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے تو میں نے پھر کھڑے ہو کر اعلان کر دیا ’’اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشہد ان محمدًا عبدہ ورسولہ‘‘۔ فرماتے ہیں کہ میری ایک بار پھر پٹائی ہوئی۔
میں جو بات عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ابو ذر غفاریؓ کو کس طاقت نے مسلمان کیا کہ طاقت والے لوگ تو دوسری طرف تھے۔ یہ دین کی ایمان کی اخلاق کی اور کردار کی قوت تھی جس نے اس جماعت کی بنیاد بنائی۔ اسلام کی پہلی جماعت تو ماریں کھا کر بھوک برداشت کر کے طعن و تشنیع کا سامنا کر کے اور ظلم و ستم سہہ کر تیار ہوئی تھی۔ حضرت خباب بن ارتؓ کہتے ہیں کہ میں جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ مہربانی کا معاملہ فرمائیں ہماری حالت تو بہت خراب ہے۔ وہ غلام تھے انہوں نے بتایا کہ میرا مالک کوئلے جلاتا ہے اور مجھے کوئلوں پر سیدھا لٹا کر اوپر میرے سینے پر بیٹھ جاتا ہے۔ چربی پگھلتی ہے خون نکلتا ہے جس سے کوئلے بجھتے ہیں۔ یارسول اللہ کب تک یہ معاملہ رہے گا؟ آپؐ نے فرمایا صبر کرو۔ خبابؓ نے کمر سے چادر اٹھائی اور کہا کہ یا رسول اللہ میری کمر کی حالت دیکھیں۔ پیپ رستی ہے گڑھے پڑے ہوئے ہیں بوٹیاں سامنے نظر آرہی ہیں۔ آپؐ نے پھر فرمایا حوصلہ کرو صبر کرو۔ فرمایا کہ تم سے پہلے ایمان قبول کرنے پر لوگوں پر یہ وقت بھی آیا کہ ایک انسان کو سر پر آری رکھ کر پاؤں تک دو ٹکڑے کر دیا گیا۔ اور ایسا بھی ہوا ہے کہ لوہے کی کنگھیاں بنا کر جسم سے گوشت کی آخری بوٹی تک نوچ لی گئی۔
میں نے یہ عرض کیا کہ جنگ اور جہاد لوگوں کو مسلمان کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ اسلام کی راہ سے رکاوٹ دور کرنے کے لیے تھا چنانچہ اسی بنا پر اسلامی تاریخ میں جہاد ہوا ہے۔ اسلام کی دعوت تو جناب رسول اللہؐ نے مظلومیت کی حالت میں دی اور ظلم کے اس دور میں جانثاروں کی ایک جماعت تیار کی۔ اور یہ اسلام کی تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں پر جتنے زیادہ ظلم ڈھائے گئے ہیں اسلام کی دعوت اتنی زیادہ دنیا میں پھیلی ہے۔ آج بھی دیکھ لیں کہ جتنا مسلمانوں کی مظلومیت میں اضافہ ہوا ہے اتنا زیادہ اسلام کی تعلیمات سے لوگ روشناس ہوئے ہیں۔ اسلام کی ابتدائی جنگیں تو سراسر دفاعی جنگیں تھیں، اور بعد کی جنگیں بھی بظاہر اقدامی نظر آتی ہیں لیکن وہ دفاعی ہی تھیں کہ جن قوتوں سے مسلمانوں نے خطرہ محسوس کیا اور جن طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف عزائم کا اظہار کیا ان کے خلاف مسلمانوں نے بروقت اقدامات کیے۔ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا ’’انا نبی الملاحم‘‘ میں جنگوں کا نبی ہوں۔ حضورؐ کے وصال کے وقت بھی آپؐ کے ترکے میں ہتھیار ہی تھے، تلواریں اور زِرّیں تھیں۔ لیکن حضورؐ کی اور بعد میں آنے والوں کی جنگیں لوگوں کو مسلمان کرنے کے لیے نہیں تھیں بلکہ مسلمانوں اور دعوتِ اسلام کو تحفظ دینے کے لیے تھیں۔
اسلام میں صلح کا تصور
نبی کریمؐ نے بوقت ضرورت صلح بھی کی اور صلح کے معاہدوں کی پاسداری بھی کی۔ جب قریش مکہ کے ساتھ صلح ہوئی کہ دس سال جنگ نہیں کریں گے، یہ صلح بظاہر بہت کمزور شرطوں پر تھی، اس معاہدے کے وقت آپؐ اپنی جماعت کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کی غرض سے مکہ کے باہر موجود تھے لیکن کفارِ مکہ نے یہ شرط بھی رکھ دی کہ مسلمان اس سال عمرہ نہیں ادا کر سکیں گے اس کے لیے انہیں اگلے سال کا انتظار کرنا ہوگا۔ ایک شرط انہوں نے یہ بھی رکھی کہ معاہدے کے دس سالوں کے دوران مسلمانوں کا کوئی ساتھی انہیں چھوڑ کر مکہ مکرمہ گیا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا لیکن اگر کفار مکہ کا کوئی ساتھی انہیں چھوڑ کر مسلمانوں کے پاس گیا تو وہ اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا یارسول اللہ کن شرطوں پر صلح کر رہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں نبی ہوں اور اللہ کے حکم سے ایسا کر رہا ہوں اور ایک وقت آئے گا کہ یہی صلح فتح میں تبدیل ہوگی۔ صلح نامہ کا معاہدہ کرنے کے لیے قریش کا نمائندہ سہیل بن عمرو تھا جبکہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے یہ معاہدہ لکھوایا۔ قریش کی رعونت کا عالم دیکھیں کہ حضورؐ نے جب یہ لکھوایا ’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘ تو سہیل بن عمرو نے کہا کہ ’’ما الرحمٰن‘‘ یہ رحمان کیا ہے اسے مٹاؤ۔ ہم جس طرح ’’باسمک اللّٰھم‘‘ لکھا کرتے ہیں ویسے ہی لکھو۔ اور جب حضرت علیؓ نے معاہدہ لکھا کہ ’’ھذا ما قاضٰی علیہ محمد رسول اللّٰہ و سہیل بن عمرو‘‘ تو اس پر سہیل بن عمرو نے اعتراض کر دیا کہ اگر معاہدے میں ہم انہیں رسول اللہؐ مان لیں تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے اس لیے محمد رسول اللّٰہ کی جگہ محمد بن عبد اللّٰہ لکھو۔ اس پر وہاں بڑی جذباتی فضا بن گئی، کون مسلمان ہے جو اپنے ہاتھ سے محمد رسول اللّٰہ کا جملہ لکھ کر اسے کاٹے؟ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے کہا ’’امح‘‘ کاٹو۔ حضرت علیؓ نے کہا یا رسول اللہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ آپؐ نے پھر فرمایا ’’امح یاعلی‘‘ علی اسے کاٹو۔ حضرت علیؓ نے کہا ’’واللّٰہ لا أمحوہ‘‘ اللہ کی قسم نہیں کاٹوں گا۔ حتٰی کہ حضور نے خود وہ جملہ کاٹا۔
اسی طرح جب یہ معاہدہ لکھا جا رہا تھا تو سہیل بن عمرو کا اپنا بیٹا ابو جندلؓ جو مسلمان ہوگیا تھا اسے گھر میں زنجیروں میں باندھ کر رکھا گیا تھا وہ کسی طرح زنجیر توڑ کر آگیا کہ جناب میں آپؐ کا ساتھی ہوں اور آپؐ کے ساتھ جاؤں گا۔ سہیل نے کہا کہ جناب آپ نے معاہدے میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ ہمارا کوئی آدمی آپ کے پاس آئے گا تو آپ اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ ابھی معاہدہ مکمل نہیں ہوا۔ سہیل نے کہا کہ پھر ہمیں یہ معاہدہ منظور نہیں ہے، میرا بیٹا واپس مکہ واپس جائے گا تو یہ معاہدہ ہوگا ورنہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ آپ نے معاہدہ تسلیم کر لیا۔ ابوجندل نے کہا کہ یا رسول اللہ مجھے کن لوگوں کے حوالے کر رہے ہیں کیا آپ میرا حال نہیں دیکھ رہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہم معاہدے کی رو سے پابند ہیں اس لیے تمہیں واپس جانا ہوگا۔ یہ ایسی صورتحال تھی کہ صحابہؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں منظر کو دیکھ نہیں پا رہا تھا اور میں نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا۔ لیکن حضورؐ نے حالات کی ضرورت کے پیش نظر صلح کا یہ معاہدہ کیا اور اسے نبھایا۔ اس معاہدے کے بعد انہی مکہ کے مجبور و بے بس مسلمانوں میں سے ابو بصیرؓ مدینہ منورہ گئے تو قریش کا نمائندہ بھی وہاں پہنچ گیا کہ جناب ہمارا ساتھی آپ کے پاس آیا ہے اسے واپس کریں۔ حضورؐ نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ابو بصیرؓ کو واپس کر دیا۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ جناب نبی کریمؐ نے جنگ بھی کی ہے اور صلح بھی اور دونوں کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی پاسداری بھی کی۔ تاریخ آج بھی جنگ اور صلح دونوں حوالوں سے اگر کوئی آئیڈیل شخصیت پیش کر سکتی ہے تو وہ جناب رسول اکرمؐ کی ذات گرامی ہے۔ جبکہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جناب رسول اللہؐ کی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسری طرف چل پڑے ہیں۔ آج بھی اگر ہم جناب نبی کریمؐ کی صلح و جنگ کے اصولوں کو اپنائیں تو اسلام ہی آئیڈیل قانون اور ضابطہ ہے۔