جامعہ مظاہر علوم سہارنپور (انڈیا) کے ناظمِ اعلٰی مولانا مفتی سید شاہد الحسنی سہارنپوری کا تحریر کردہ ایک کتابچہ گزشتہ روز نظر سے گزرا جس میں انہوں نے اب سے ایک صدی قبل بپا ہونے والی تحریکِ خلافت میں جامعہ مظاہر علوم کی سرگرمیوں اور کردار کا تعارف کرتے ہوئے اس دور کے کچھ فقہی مسائل اور مباحث کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ ہماری مِلی تحریک اور جدوجہد آزادی کا ایک اہم ریکارڈ ہے جس کا مطالعہ ہر دینی کارکن کو کرنا چاہیے، البتہ اس میں سے چند باتیں قارئین کے علم میں لانے کے لیے اس کالم میں نقل کی جا رہی ہیں تاکہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے حوالہ سے اس وقت کے عمومی ماحول سے کچھ شناسائی ہو جائے۔
مفتی صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ:
- ۳ مارچ ۱۹۲۴ء کو جب خلافتِ اسلامیہ (عثمانیہ) کے خاتمہ کا اعلان کر دیا گیا اور اس کے صرف چار ماہ بعد جولائی ۱۹۲۴ء میں لندن معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے (برطانوی وزیراعظم) لارڈ کرزن نے پارلیمنٹ میں کبر و نخوت سے بھرپور ایک اعلان ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ:
’’آج پوزیشن یہ ہے کہ ترکی مٹ چکا ہے اور اب کبھی کھڑا نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم نے خلافت کو مٹا دیا ہے، وہ خلافت جو مسلمانوں کی کامیابی کا راز تھی۔ اس طرح ہم نے خلافت کو مٹا کر دراصل اسلام کو مٹا دیا ہے۔‘‘
اور برطانوی وزیرخارجہ نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا کہ:
’’ہمیں ہر حال میں وہ چیز مٹا دینا ہے جس سے مسلمانوں میں اتحاد بنتا ہو، جس طرح ہم نے خلافت کو مٹا دیا ہے جو مسلمانوں کو متحد رکھتی تھی۔ ہمیں کسی ایسی چیز کو سر نہیں اٹھانے دینا جو انہیں پھر سے متحد کرے خواہ وہ اتحاد فکری ہو یا تہذیبی۔‘‘
- خلیفہ ترکی کے تعلق سے مسلمانانِ ہند کے اس جذبۂ عقیدت و محبت کا مظہر وہ تجویز بھی ہے جو ۳۱ دسمبر ۱۹۱۹ء کو جمعیۃ علماء ہند نے اپنے اجلاس میں کامل اتفاق کے ساتھ بایں الفاظ منظور کی تھی:
’’جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس کامل ارادت مندی اور خلوص کے ساتھ اظہار کرتا ہے کہ حضرت سلطان المعظم مسلمانوں کے مسلّم خلیفہ اور امیر المومنین ہیں اس لیے آپ کے نام کا خطبہ پڑھا جائے۔‘‘
- دیوبند کے اکابر علماء کرام کے نام ایک خط میں حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’مذہبی تعلیم جس کا بیڑا میرے اکابر نے اٹھایا ہے اور جس میں وہ تمام عمر منہمک رہے ہیں اس کو نہایت ضروری اور مہتم بالشان سمجھتا ہوں اور ہر اس تحریک کا سختی سے مخالف ہوں جو اس میں نقصان پہنچانے والی ہو۔ میں نے سنا ہے کہ بعض علماء اسلام جوش کے ساتھ فرماتے ہیں کہ مدارسِ دینیہ بند کر دو اور سب کے سب خلافت کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ میرے نزدیک یہ نہایت غلط راستہ ہے۔ دونوں امر فرضِ کفایہ ہیں، علماء اور ہادیانِ ملت کا دونوں کی طرف توجہ فرمانا اور دونوں کو یکساں سمجھنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ اور نیز ہر ایسے امر کو جو مسلمانوں میں تفریق و اختلاف کا باعث ہو یا حدودِ شرع سے متجاوز ہو، مثلاً کسی جزوی اختلاف پر یا محض گمان مخالفت پر کسی زندہ یا مردہ مسلمان کی تذلیل و توہین، یا تقلیدِ یورپ میں ایسے اصولوں پر عمل جو اسلام کی تعلیم کے مطابق نہیں، ان سب کو نہایت مکروہ اور غیر مستحسن خیال کرتا ہوں۔‘‘
- حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کی نگاہ میں تحریکِ خلافت کی کتنی اہمیت تھی اور خلافتِ عثمانیہ کے بقا اور تحفظ کے لیے وہ کتنی گہرائی سے سوچتے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ / نومبر ۱۹۲۰ء میں امروہہ شہر کے شیعوں اور سنیوں کے درمیان اس حد تک اختلاف اور انتشار پیدا ہوا (بلکہ پیدا کر دیا گیا) کہ دونوں میدانِ مناظرہ میں آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔ صورتحال کی اس سنگینی کو محسوس فرما کر مولانا خلیل احمد امروہہ تشریف لے گئے، وہاں پہنچ کر آپ نے بڑے سخت اور مضبوط لب و لہجہ میں اپنے تمام اہلِ تعلق کو مشورہ دیا کہ یہ زمانہ شیعہ اور سنی کے درمیان خلیج پیدا کرنے اور ٹکراؤ کا ہرگز نہیں ہے کہ اس سے آزادی کے پروگرام خاص طور پر تحریکِ خلافت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ مولانا خلیل احمد کے مشورہ اور ایما سے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ امروہہ تشریف لائے اور فریقین کو ایک مجلس میں بٹھا کر بہت مؤثر اور دلوں کو جھنجھوڑنے والی تقریر فرمائی جس کے نتیجے میں ٹکراؤ کا ماحول اتفاق و اتحاد کے ماحول میں بدل گیا۔ چنانچہ شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ اس مناظرہ کا ذکر کرتے ہوئے واقعہ کی وضاحت میں خود تحریر فرماتے ہیں:
’’چونکہ خلافت کی تحریک اس وقت بہت زوروں پر تھی، عام فضا مسلمانوں میں خصوصاً ہندوستان میں عموماً اتفاق و اتحاد قائم کرنے کی تھی اس لیے عام اہلِ شہر مناظرہ کے خلاف تھے اور سخت اعتراض کرتے تھے۔ اسی لیے سنجیدہ حضرات چاہتے تھے کہ مناظرہ نہ ہو، مگر کوئی کھل کر روکنے پر آمادہ نہیں تھا اس لیے کہ اس میں اس کی اور اس کی پارٹی کی بدنامی ہوتی تھی، اس لیے چاہتے تھے کہ کوئی قومی تحریک کا حامی شخص بیچ میں پڑ کر مناظرہ رکوا دے۔ میں حضرت مولانا خلیل احمد کا مخلص خادم اور تلمیذ بھی تھا اس لیے حضرت موصوف اور دیگر احباب نے ضروری سمجھا کہ مجھے درمیان میں ڈالا جائے تاکہ پھر کسی کو حرف گیری اور اعتراض کا موقع ہاتھ میں نہ آئے۔ چنانچہ میں نے حاضر ہو کر وہاں بڑے مجمع میں تقریر کی جس کی وجہ سے اشتعال ٹھنڈا ہوا، میں نے ہر دو فریق سنیوں اور شیعوں کو سمجھایا اور وقت کی نزاکتوں کو دکھلا کر زوردار اپیل کی کہ کوئی اس قسم کی کاروائی اس زمانہ میں مناسب نہیں ہے جس سے افتراق کی خلیج وسیع ہو۔ میں نے کربلا شریف، بغداد اور عراق کے انگریزی مظالم دکھائے نیز مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور دیگر مقامات مقدسہ کے قیامت خیز واقعات بھی سنائے اور شیعوں اور سنیوں دونوں کو ملامت کی، بہرحال اس طویل تقریر کا فریقین کے عوام پر اچھا اثر ہوا اور فریقین سمجھ گئے اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔‘‘