بنگلہ دیش میں ملّا عبد القادر شہیدؒ کی پھانسی اور مصر میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ بظاہر دو الگ الگ ملکوں کے واقعات ہیں لیکن ان کے پیچھے ایک ہی روح کار فرما ہے اور وہ ایسی جانی پہچانی قوت ہے جو اپنے اظہار کے لیے موقع و محل کے مطابق روپ بدلتی رہتی ہے۔ لادینیت بلکہ مذہبی دشمنی نے سوسائٹی سے مذہب کو بے دخل کرنے اور آسمانی تعلیمات پر مبنی اقدار و روایات کی بجائے انسانی خواہشات کی بالادستی کو فروغ دینے کے لیے گزشتہ دو صدیوں میں کتنے پینترے بدلے ہیں اور کون کون سے روپ دھارے ہیں؟ اس کی الگ تفصیلات ہیں جو تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں لیکن اب اس نے عدالتی فیصلوں کی صورت میں اپنی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اور عدالتی تاریخ کے ایک مخصوص باب کے مواد میں اچھا خاصا اضافہ کر دیا ہے۔
ملاّ عبد القادر شہیدؒ کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنے ملک میں جس کا وہ شہری تھا بیرونی مداخلت اور پڑوسی ملک کی عسکری یلغار کے خلاف اپنے وطن کی فوج کا ساتھ دیا تھا اور اس وقت کی قومی سرحدوں اور ملکی دستور کے تحفظ میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس میں تنہا نہیں تھا بلکہ اس کے بہت سے ہم وطن اس میں اس کے ساتھ شریک تھے جو اپنے اس جائز مقصد اور مشن میں ناکام ہو گئے تھے۔ مگر انہوں نے نئی صورت حال کو قبول کر لیا تھا اور خود کو تبدیلیوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرتے ہوئے نئے قائم ہونے والے ملک کو تسلیم کر کے اس کے وفادار شہری کے طور پر نئی زندگی کا آغاز کر دیا تھا۔ اس سب کچھ کو چار عشرے گزر جانے کے بعد اب اگر وہاں کی حکمران پارٹی کو ماضی کے گڑھے مردے اکھاڑنے کا شوق چرایا ہے تو اس کی وجہ وہ نظر نہیں آتی جو پھانسی کے عدالتی فیصلے میں بتائی جا رہی ہے۔ بلکہ اس کی اصل وجہ کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد چار عشروں کے دوران ہونے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے پس منظر میں تلاش کرنا زیادہ قرین قیاس ہوگا۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر بنیادوں پر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس ملک کے دستور میں اسلام کو سرکاری مذہب تسلیم کیے جانے کا معاملہ اس سارے قصے کا اصل باعث ہے جو اگرچہ دستور کے صفحات سے پارلیمنٹ کے ایک اور فیصلے کے ذریعہ حذف کیا جا چکا ہے لیکن بنگلہ دیش کے عوام کے دلوں سے اسے کھرچ ڈالنے کو ناممکن سمجھتے ہوئے قوت و طاقت کے بل بوتے پر اس کے اظہار کو روکنے میں عافیت سمجھ لی گئی ہے۔ اور پروفیسر غلام اعظم، ملا عبد القادر شہیدؒ اور ان کے چند ساتھیوں کو سزائیں دے کر ملک کے عوام کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انہیں ریاستی معاملات میں مذہب کے کردار سے بہرحال دست برداری اختیار کرنا ہوگی اور وہ اگر جمہوری اور سیاسی ذرائع سے بھی اسلام کے معاشرتی کردار کی بات کریں گے تو انہیں ملّا عبد القادر شہیدؒ اور پروفیسر غلام اعظم کے ساتھ اسی لائن میں کھڑا کر دیا جائے گا۔ لیکن کیا بنگلہ دیش کے عوام کو اسلام کے ریاستی کردار سے دست برداری پر اس طرح مجبور کیا جا سکے گا؟ بنگلہ دیش کے پر جوش مسلمانوں اور دینی حمیت رکھنے والے عوام سے اس کی توقع رکھنا ان کی روایات و نفسیات سے بے خبری اور ناواقفیت پر ہی محمول کیا جائے گا۔
بات صرف بنگلہ دیش کی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی صورت حال اسی طرح کی ہے کہ عام مسلمان اسلام پر عمل اور اسلامی احکامات و قوانین کی پابندی کے لحاظ سے کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو مگر اسلام سے دست برداری کے لیے وہ کبھی تیار نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ اس بات کو کسی بھی صورت قبول کرے گا کہ معاشرتی اور ریاستی معاملات میں اسلام کا نعوذ باللہ کوئی کردار نہیں ہے۔ مغربی قوتوں کو گزشتہ دو صدیوں سے اسی مغالطے کا سامنا ہے اور وہ غلط طور پر یہ سمجھے بیٹھی ہیں کہ مغربی سوسائٹی کی طرح مسلم سوسائٹی کو بھی مذہب اور دین سے بے گانہ اور دست بردار کرایا جا سکتا ہے۔ وہ مسلمان کی بے عملی کو اسلام سے دست برداری کا پیش خیمہ سمجھ رہی ہیں اور یہی ان کی بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے انہیں مسلم معاشرہ میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں بار بار پینترے بدلنا پڑ رہے ہیں اور ہر حربے میں انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔ یہ پینترے بدلنا نہیں تو کیا ہے کہ مغربی ممالک گزشتہ دو صدیوں سے مسلمانوں کو جمہوریت کا سبق پڑھانے میں مصروف تھے اور سول سوسائٹی کے جذبات کا احترام کرنے کی تلقین کر رہے تھے لیکن جب مسلم ممالک میں جمہوری رائے عامہ اور سول سوسائٹی خود اسلام کے ریاستی کردار کی بات کرنے لگی ہے تب سے مغربی قوتوں کو جمہوریت اور سول سوسائٹی کے سارے فارمولے بھول گئے ہیں اور اسلام کا راستہ روکنے کے لیے فوجی آمریت، مارشل لاء اور جبر و تشدد کے تمام حربے ان کے نزدیک جائز قرار پاتے جا رہے ہیں۔
الجزائر میں ربع صدی قبل یہی کچھ ہوا تھا اور اب مصر میں اسی الجزائر والے ڈرامے کو دہرایا جا رہا ہے۔ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے جمہوریت اور ووٹ کے ذریعہ اسلام کی بات کی تھی اور عوام کی اکثریت نے اسلام کے ریاستی کردار کے حق میں ووٹ دیا تھا مگر فوجی قوت کے ذریعہ اس کا راستہ روکا گیا اور خانہ جنگی کی راہ ہموار کر کے ہزاروں بے گناہ الجزائریوں کو اس کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
مصر میں اخوان المسلمون نے تشدد کے ذریعہ حکومت پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ جمہوریت اور ووٹ کے ذریعہ ایوان اقتدار میں داخل ہوئے تھے، لیکن عالمی سیکولر قوتوں کی شہہ پر وہاں فوجی آمریت نے جو صورت حال پیدا کر رکھی ہے اس نے الجزائر کی یاد پھر سے تازہ کر دی ہے۔ مصر کی منتخب اور عوامی حکومت کو فوجی طاقت کے ذریعہ ختم کر کے اور عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آنے والی جماعت کو عدالتی فیصلے کے ذریعے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر در اصل دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ان کے لیے پر امن اور سیاسی و جمہوری جدوجہد کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ وہ اگر ووٹ اور سول سوسائٹی کے ذریعہ کسی مسلم ملک میں اسلام کے ریاستی کردار کی بحالی کی بات کریں گے تو انہیں اس کے لیے کوئی راستہ کھلا نہیں ملے گا۔ اس لیے انہیں یا تو بہر صورت اسلام کے ریاستی کردار سے دست برداری اختیار کرنا ہوگی اور اگر اس کے لیے وہ تیار نہیں ہیں تو انہیں جنگ اور عسکری مزاحمت کے راستے پر چلنا ہوگا۔ اس کے سوا ان کے لیے کسی اور آپشن کی گنجائش باقی رہنے نہیں دی گئی۔
آج کے عالم اسلام کے لیے عالمی سیکولر قوتوں کا پیغام یہی ہے جو دن بدن واضح تر ہوتا جا رہا ہے، لیکن سیکولر قوتوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس سب کچھ کے باوجود مسلمان کو وہ اسلام کے معاشرتی اور ریاستی کردار سے دست برداری کے لیے تیار نہیں کر پائیں گے۔ اسلام زندہ مذہب ہے اور صرف فرد کا نہیں بلکہ خاندان، سوسائٹی اور ریاست کا بھی مذہب ہے۔ اس لیے سیکولر قوتوں کو بہرحال اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ خود اپنی آزمائشوں میں بھی اضافہ کرتے چلے جانے کی بجائے ایک نہ ایک دن زمینی حقائق کے سامنے سپر انداز ہونا ہی پڑے گا۔