اسلام زندہ باد کانفرنس ۲۰۱۳ء کا احوال

   
۲ اپریل ۲۰۱۳ء

اندازہ تھا کہ ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ میں مولانا فضل الرحمن کا خطاب مغرب کے بعد ہوگا اس لیے میں نے مغرب سے عشاء تک کا وقت کانفرنس میں شرکت کے لیے مخصوص کر لیا اور جامعہ نصرۃ العلوم میں صبح ایک سبق پڑھا کر رینالہ خورد چلا گیا جہاں ظہر کے بعد ایک دینی مدرسہ میں قرآن کریم حفظ کرنے والے طلبہ کی دستار بندی کی تقریب تھی، وہاں سے فارغ ہو کر مغرب تک مولانا عبد الوحید کے ہمراہ لاہور پہنچا، ہم نے مغرب کی نماز مینار پاکستان گراؤنڈ کے قریب ایک مسجد میں ادا کی اور جب گراؤنڈ کے ایک انٹری گیٹ تک پہنچے تو میں نے مولانا عبد الوحید سے کہا کہ وہ میرا یہاں کسی سے تعارف نہیں کرائیں گے، میں کسی کونے میں خاموشی کے ساتھ آدھ پون گھنٹہ بیٹھ کر کانفرنس کی کاروائی سننا چاہتا ہوں۔

مگر گراؤنڈ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جواد قاسمی سے ملاقات ہوگئی جو ہمارے عزیز شاگرد ہیں اور جامعہ قاسمیہ گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا قاری گلزار احمد قاسمی کے فرزند ہیں، جس سے خاموشی کے ساتھ کسی کونے میں بیٹھنے کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گیا، وہ ہمیں اپنے کیمپ میں لے گئے اور پلاؤ سے تواضع کی جو وہ گوجرانوالہ سے اپنے ساتھیوں کے لیے پکوا کر ساتھ لے گئے تھے، ہمیں بھی بھوک لگی ہوئی تھی اس لیے مزے سے کھایا، جواد قاسمی نے پوچھا کہ اسٹیج پر چلیں گے؟ میں نے کہا ارادہ نہیں ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی جس کے لیے میں حاضر ہوگیا تھا، اسٹیج پر آنے کی دعوت نہیں تھی اس لیے وہاں جانا پروگرام میں شامل نہیں تھا، ویسے بھی اسٹیج کے ماحول میں پاکستان شریعت کونسل کی نمائندگی کے لیے صوبائی امیر مولانا عبد الحق خان بشیر اور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی نمائندگی کے لیے مولانا محمد ریاض خان سواتی موجود تھے اس لیے اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی، چنانچہ جواد قاسمی کو ساتھ لے کر گراؤنڈ کا ایک چکر لگایا۔

لوگ مقررین کی تقریریں سن رہے تھے اور میں ذہن میں نصف صدی قبل کی یادیں تازہ کر رہا تھا جب اسی لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام کی کانفرنسیں ’’آئین شریعت کانفرنس‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوا کرتی تھیں۔ یہ ۶۷ء، ۶۸ء، ۶۹ء کے دور کی بات ہے اور ہماری کانفرنسیں اس زمانے میں دہلی دروازہ، موچی دروازہ اور مستی گیٹ کے باہر باغات میں ہوتی تھیں۔ ان کانفرنسوں سے وقتاً فوقتاً آغا شورش کاشمیریؒ ، سردار محمد عبد القیوم خان اور مولانا کوثر نیازی مرحوم نے بھی خطاب کیا تھا۔ آغا شورش کاشمیریؒ قادیانیت کے خلاف شمشیر بے نیام تھے اور اسی جرم میں ایوبی حکومت کے عتاب کا نشانہ تھے۔ ان کے پرچے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کا ڈیکلیریشن منسوخ ہوگیا تھا، چٹان پریس ضبط کر لیا گیا تھا اور بعد میں آغا صاحب مرحوم گرفتار بھی ہوگئے تھے، اس پس منظر میں جمعیۃ علماء اسلام کی آئین شریعت کانفرنس سے ان کے معرکۃ الآراء خطاب کی گونج پورے ملک میں سنی گئی۔

’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ میں مولانا محمد امجد خان کو اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ادا کرتے ہوئے دیکھ کر ان کے والد گرامی حضرت مولانا محمد اجمل خان رحمہ اللہ تعالیٰ کی خطابت کا وہ منظر نگاہوں کے سامنے گھوم گیا جب موچی دروازہ میں منعقد ہونے والی ’’آئین شریعت کانفرنس‘‘ میں وہ اسٹیج سیکرٹری تھے، جماعت اسلامی اور جمعیۃ علماء اسلام کے درمیان کشمکش عروج پر تھی اور ملک بھر سے آنے والے شرکاء حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے خطاب کے منتظر تھے۔ حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ نے حضرت ہزارویؒ کی تقریر سے پہلے سردار محمد عبد القیوم خان کو خطاب کی دعوت دی اور سامعین سے خطیبانہ لہجے میں کہا کہ آپ اب سردار صاحب کی تقریر سنیں پھر ’’اس کے بعد آندھی آرہی ہے طوفان آرہا ہے‘‘۔ یہ جملہ انہوں نے کچھ اس انداز سے کہا کہ اس کی گھن گرج آج تک کانوں میں گونج رہی ہے۔

انہی اجتماعات میں سے ایک اجتماع کے موقع پر ہمارے شیخ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ پولیس کے لاٹھی چارج سے شدید زخمی ہوگئے تھے، ان کی ریڑھ کی ہڈی کو ضرب لگی تھی جس کے اثرات آخر زندگی تک ان پر رہے، وہ کافی عرصہ میو ہسپتال میں صاحب فراش رہے، البتہ ان کی یہ قربانی ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا نقطہ آغاز بن گئی۔ صدر محمد ایوب خان مرحوم نے اپنی ماہانہ نشری تقریر کے دوران اس واقعہ پر معذرت بھی کی لیکن وہ معذرت بھی کسی کام نہ آئی اور جمعیۃ علماء اسلام قومی سیاست میں پہلی صف کی سیاسی جماعتوں میں شمار ہونے لگی۔

کانفرنس کے پنڈال کے مختلف حلقوں میں گھومنے پھرنے کے بعد جب اردگرد سے عشاء کی اذانوں کی آواز سنائی دینے لگیں، جبکہ اس وقت تک مولانا فضل الرحمن کی تقریر کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے تو چپکے سے لاری اڈے کا رخ کیا اور گوجرانوالہ جانے والی فلائنگ کوچ پر سوار ہوگیا۔ اس حوالہ سے جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت کو ایک بات کی طرف توجہ دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ جمعیۃ علماء ہند کے دور میں کانفرنسوں کی کاروائی کتابی شکل میں بھی شائع ہوا کرتی تھی مگر ہمارے ہاں یہ روایت قائم نہ ہونے کی وجہ سے اس قسم کے تاریخی اجتماعات اخبارات و جرائد کے چند صفحات میں ہی گم ہو کر رہ جاتے ہیں، اگر کتابی شکل میں مکمل کاروائی شائع ہو جائے تو وہ تاریخ کے ریکارڈ میں ضرور محفوظ ہو جاتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter