آج دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے۔ دنیا کی تمام اقوام کے ذرائع ابلاغ میں اصحابِ علم و دانش اس موضوع پر سب سے زیادہ گفتگو کر رہے ہیں کہ دنیا میں انسانوں کو کیا حقوق حاصل ہونے چاہئیں ، کونسے حقوق انہیں حاصل ہیں اور کن حقوق سے وہ محروم ہیں۔ میں آج کی گفتگو میں تاریخی حقائق کی بنیاد پر یہ بات واضح کرنا چاہوں گا کہ انسانی حقوق کا تصور سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا تھا جس کی عملی شکل جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں ملتی ہے۔ معاشرے میں انسانی حقوق کے احترام اور تحفظ کا جو عملی نمونہ جناب رسول اللہؐ اور حضراتِ خلفائے راشدینؓ نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، دنیا کا کوئی اور نظام اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اسلام میں حقوق کا تصور
اسلام میں حقوق کا تصور کیا ہے؟ حضرت سلمان فارسیؓ نے ایک موقع پر اپنے میزبان سے فرمایا ’’ان لربک علیک حقًا ولنفسک علیک حقًا ولأھلک علیک حقًا (وفی روایۃ: ولزورک علیک حقًا) ، فأعط کل ذی حق حقہ‘‘ (بخاری، رقم ۱۹۶۸) کہ تیرے رب کے تجھ پر حق ہیں، تمہارے نفس کا تجھ پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تجھ پر حق ہے، آنے جانے والے مہمانوں کا بھی تجھ پر حق ہے، پس ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب حضرت سلمان فارسیؓ کی اس بات کا تذکرہ کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا ’’صدق سلمان‘‘ کہ سلمان نے جو کہا، سچ کہا۔ چنانچہ اسلام میں حقوق کا بنیادی تصور حضرت سلمان فارسیؓ کا یہ جملہ ہے ’’أعط کل ذی حق حقہ‘‘ کہ ہر حقدار کو اس کا حق ادا کرو۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو سر زمین عرب میں اس حوالے سے دو انتہائیں تھیں۔ ایک طرف رہبانیت تھی کہ اللہ کی رضا کے لیے دنیا کے تمام معاملات چھوڑ دیے جائیں،رہبانیت سے مراد یہ ہے کہ دنیا سے قطع تعلق کر کے جنگلوں اور پہاڑوں میں اکیلے زندگی بسر کی جائے، یہ حقوق اللہ کا غلبہ تھا کہ صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور دنیاوی معاملات مثلاً بیوی بچوں اور معاشرت وغیرہ کو ضروری نہ سمجھا جائے، نبی کریمؐ نے اپنے متعدد ارشادات میں واضح طور پر رہبانیت کے تصور کی نفی فرمائی ہے۔ دوسری طرف خدا فراموشی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے وجود سے ہی انکار تھا، یا پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور آسمانی تعلیمات کی نافرمانی اس قدر عروج پر تھی کہ وہ زمانہ اسلامی تعلیمات کی رو سے دورِ جاہلیت قرار پایا۔
اسلام نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن قائم کیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے ’’واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئًا وبالوالدین احسانًا وبذی القربٰی والیتامٰی والمساکین والجار ذی القربٰی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم‘‘ (سورۃ النساء ۳۶) اور تم اللہ کی عبادت اختیار کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور اہلِ قرابت کے ساتھ بھی اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غریب غرباء کے ساتھ بھی اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور راہ گیر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضے میں ہیں۔
اسلامی تعلیمات کا اصول یہ ہے کہ فرائض میں حقوق اللہ مقدم ہیں جبکہ فرائض کے علاوہ نوافل، مستحبات اور مباحات میں حقوق العباد مقدم ہیں۔ اور اگر حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ٹکراؤ کی نوبت آجائے تو بھی بعض صورتوں میں حقوق العباد مقدم ہیں۔
رنگ و نسل، زبان، برادری اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز
آج یہ کہا جاتا ہے کہ رنگ، نسل، برادری، زبان اور علاقہ کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف معاشرت رکھنے والے اور مختلف رنگ و نسل کے لوگ یکساں سلوک کے مستحق ہیں اور بحیثیت انسان برابر ہیں۔ اسلام نے یہی بات تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل کہی تھی۔ عرب قبائل کے اس معاشرے میں رسول اللہؐ کی بعثت کے وقت صورت حال یہ تھی کہ قریش اور غیر قریش کے لوگ برابر نہیں سمجھے جاتے تھے۔ اگر قریش کے کسی فرد کے ہاتھوں کسی دوسرے قبیلے کا آدمی قتل ہو جاتا تھا تو قصاص میں قریش کا آدمی قتل نہیں ہوتا تھا، قریش اور غیر قریش کا خون برابر نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن اگر کسی دوسرے قبیلے کے ہاتھوں قریش کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو قصاص میں دو آدمی قتل کیے جاتے۔ یہ ایسا معاشرہ تھا جہاں عرب والے عجمیوں کو اپنا ہم پلہ نہیں سمجھتے تھے۔ ’’عرب‘‘ اور ’’عجم‘‘ کے الفاظ ہی اس معاشرے کی کیفیت پر دلالت کرتے ہیں، ’’عرب‘‘ کا معنٰی ہے بولنے والا جبکہ ’’عجم‘‘ کا معنٰی ہے گونگا۔عرب کے لوگ کہتے تھے کہ زبان تو ہم لوگ بولتے ہیں باقی سب گونگے ہیں۔ جناب رسول اللہؐ نے اس فرق کے خاتمے کا اعلان کیا، حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا ’’ان اللّٰہ عز و جل یقول یا ایھا الناس انا خلقنٰکم من ذکر وانثٰی وجعلنٰکم شعوباً وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقٰکم، فلیس لعربی علیٰ عجمی فضل ولا لعجمی علیٰ عربی فضل ولا لاسود علیٰ ابیض ولا لابیض علیٰ اسود فضل الا بالتقوٰی‘‘ (المعجم الکبیر، ۱۸/۱۲، رقم ۱۶) کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے لوگو! میں نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت (آدم و حوا) سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ یہ باہم تمہاری پہچان کا ذریعہ ہو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔ اس لیے کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر اور کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔
رسول اللہؐ نے اس میں ایک تقسیم فرمائی ہے، حضورؐ نے لوگوں کو حقوق میں یکساں قرار دیا ہے لیکن تکریم میں برابر قرار نہیں دیا۔ ’’الّا بالتقوٰی‘‘ میں حضورؐ نے یہی بات فرمائی ہے کہ رنگ و نسل اور ذات پات کے اعتبار سے سب انسانوں کے حقوق برابر ہیں لیکن عزت و تکریم میں سارے یکساں نہیں ہیں اس لیے کہ عزت و تکریم کا مدار کردار، اعمال اور تقویٰ پر ہے۔
رسول اللہؐ نے رنگ و نسل کے امتیاز کو صرف زبان سے ہی نہیں ختم کیا بلکہ عمل سے بھی ختم کیا اور مساوات کا ایک جامع اور مکمل نمونہ پیش کیا۔ جب مکہ فتح ہوا تو دس ہزار صحابہؓ کا لشکر آپ کے ساتھ تھا، ان میں بڑے بڑے اکابر صحابہ موجود تھے، السابقون الاولون بھی تھے، مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی۔ لیکن خانہ کعبہ سے بتوں کی صفائی کے بعد آپؐ نے سب سے پہلی اذان کے لیے کس کا انتخاب کیا؟ حضورؐ نے حضرت بلال حبشیؓ سے فرمایاکہ بلال آؤ اور خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اللہ کا نام بلند کرو، آج مسلمانوں کے اِس اقتدار کا افتتاح تمہاری اذان سے ہوگا۔ حضرت بلالؓ کعبہ کی چھت پر چڑھے، اللہ اکبر کہا، اذان کے ساتھ کلمہ حق بلند کیا اور مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے اقتدارِ اعلیٰ کا اعلان کیا۔ حضورؐ کے حکم سے حضرت بلالؓ کے اس عمل نے مسلمانوں کی تاریخ میں کالے اور گورے کے اس فرق کو ہمیشہ کے لیے پاؤں کے نیچے روند ڈالا، رسول اللہؐ نے اپنے قول و عمل کے ساتھ دنیا کو کالے اور گورے کا امتیاز مٹا کر دکھایا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضورؐ کے وصال کے بعد جب حضرت بلالؓ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس آیا کرتے تھے تو حضرت عمرؓ ان کا استقبال ان الفاظ سے کیا کرتے تھے ’’انت اخونا و مولانا‘‘ کہ بلالؓ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے سردار بھی ہو۔ ’’مولا‘‘ کا معنٰی ہے سردار، آقا، بڑا، بزرگ۔
جان، مال اور آبرو کی حفاظت
انسانی حقوق کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ معاشرے میں جان، مال اور آبرو کا تحفظ انسان کا بنیادی حق ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ان دماء کم وأموالکم واعراضکم علیکم حرام کحرمت یومکم ھذا فی شھرکم ھذا وفی بلدکم ھذا او کما قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ (بخاری، رقم ۴۰۵۴، ۶۵۵۱) کہ تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں، تم پر (آپس میں) اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن اور اس مہینے میں تمہارے اس شہر کی حرمت ہے۔ بخاری کی ایک اور روایت میں ’’وابشارکم‘‘ کا لفظ بھی ہے کہ تمہارے چمڑے بھی ایک دوسرے پر حرام ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے پر ہاتھ نہ اٹھائے۔
اسی طرح ایک موقع پر ارشاد فرمایا ’’ألا، انما ھن أربع: أن لا تشرکوا باللّٰہ شیئاً، ولا تقتلوا النفس التی حرم اللّٰہ الاّ بالحق، ولا تزنوا، ولا تسرقوا‘‘ (مسند احمد، ۱۸۲۲۰) کہ آگاہ رہو! ان چار باتوں سے بچنا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، خدا کی حرام کردہ کسی جان کو نا حق قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔
نبی کریمؐ نے فرمایا ’’الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، انہ لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ‘‘ (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) کہ سنو، ظلم نہ کرنا۔ سنو، ظلم نہ کرنا۔سنو، ظلم نہ کرنا۔ کسی شخص کا مال اس کے دل کی خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کی بکریوں کا ریوڑ دکھائی دے اور میں ان میں سے ایک بکری لے کر اس کو ذبح کر لوں تو کیا مجھے اس کا گناہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا، اگر تمہیں کوئی بکری وادی میں اس حال میں ملے کہ اس نے چھری اور (آگ جلانے کے لیے) پتھر بھی اٹھا رکھے ہوں، تب بھی تم اس کو ہاتھ مت لگانا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۵)
نبی کرمؐ نے فرمایا ’’العاریۃ موداۃ‘‘ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کی جائے ’’والمنحۃ مردودۃ‘‘ دودھ پینے کے لیے جو جانور کسی نے دیا ہو اسے لوٹایا جائے ’’والدین مقضی‘‘ لیا ہوا قرض ادا کیا جائے ’’والزعیم غارم‘‘ اور قرض کا ضامن (قرض ادا نہ ہونے کی صورت میں) ذمہ دار ہوگا۔ (ترمذی، ۲۰۴۶)
رسول اللہؐ نے ایسی گفتگو کو گناہِ عظیم بتایا ہے جس سے کسی کی بے عزتی کا پہلو سامنے آتا ہو۔ جو شخص کسی پر بدکاری کی تہمت لگائے وہ سزا کا مستحق ہے کہ اس نے کسی دوسرے کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے- اسی طرح قرآن نے غیبت سے منع فرمایا ’’ولا یغتب بعضکم بعضًا ایحب احدکم ان یأکل لحم اخیہ میتًا فکرھتموہ‘‘ (سورۃ الحجرات ۱۲) اور کوئی کسی کی غیبت نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس کو ناپسند کرتے ہو۔
ایک صحابیؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! جس شخص کے عیب کا ذکر کیا جائے اگر اس شخص میں وہ عیب ہو کیا تب بھی ذکر کرنا منع ہے؟ صحابیؓ کے ذہن میں شاید یہ تھا کہ کسی کا ایسا عیب ذکر کیا جائے جو اس میں نہ ہو، تب غیبت ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اسی کا نام تو غیبت ہے۔ ایک آدمی میں کوئی عیب موجود ہے اور اس عیب کو کسی جگہ خواہ مخواہ مجلس آرائی کے لیے بلا ضرورت ذکر کرنا، اسی کا نام غیبت ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اگر اس شخص میں وہ عیب نہیں ہے تب تو یہ بہتان ہوگا۔ جان و مال اور آبرو کا تحفظ اسلام سے زیادہ کس نے کیا ہے؟ اسلام کے احکام سے زیادہ جامع احکام کس کے ہیں کہ کسی کو نا حق قتل کرنا، کسی کی عزت کو مجروح کرنا، کسی کی غیبت کرنا اور کسی پر بہتان لگانا، یہ سب قابل سزا جرم قرار پائے ہیں۔
اپنا حق طلب کرنے کا شعور
ایک مرتبہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کی مجلس میں تشریف فرما تھے ایک صحابیؓ نے جسم پر صرف ایک چادر باندھ رکھی تھی اور کرتا نہیں پہن رکھا تھا، رسول اللہؐ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک چھڑی تھی جو گھڑی ہوئی نہیں تھی، باتوں باتوں میں محبت سے حضورؐ نے اس کی کمر پر چھڑی مار دی، ٹہنی اس طرح لگی کہ صحابیؓ کے جسم پر خراش آگئی۔ وہ صحابیؓ کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ نے مجھے چھڑی ماری ہے میں آپؐ سے اس کا بدلہ لوں گا۔ اِس پر جناب نبی کریمؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں حاکم ہوں اور بڑا ہوں تم کس خیال میں ہو؟ رسول اللہؐ نے چھڑی اس کے ہاتھ میں دی اور کمر آگے کر دی۔ اس نے چھڑی پکڑ لی اور کہا کہ یارسول اللہ! بدلہ برابر نہیں ہے میری کمر ننگی تھی جبکہ آپ نے کرتا پہن رکھا ہے پہلے کرتا اتارئیے۔ جناب نبی کریمؐ نے کرتا اتار کر ننگی کمر اس کے سامنے کر دی کہ تمہارا یہ حق ہے کہ تم پورا بدلہ لو۔ صحابیؓ نے حضورؐ کو بانہوں میں جکڑ لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میں تو بدن سے بدن ملانے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا میرا ارادہ آپ سے بدلہ لینے کا تو نہیں تھا۔ لیکن جناب نبی کریمؐ نے دنیا کو بتایا کہ اپنے حق کا مطالبہ کرنا بھی انسان کا حق ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، حضرت عمرؓ جن کے رعب و دبدبے کے بارے میں رسول اللہؐ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ عمرؓ جس راستے سے جاتا ہو شیطان کو اس راستے پر آنے کی ہمت نہیں ہوتی اور وہ اپنا راستہ تبدیل کر لیتا ہے۔ حضرت عمرؓ جن کے رعب و دبدبے کی کیفیت یہ تھی کہ زلزلہ آیا تو کوڑا زمین پر مارا اور کہا کیوں کانپتی ہو کیا عمرؓ نے تم پر انصاف نہیں کیا؟ ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ منبرِ رسول پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ہزاروں صحابہؓ بیٹھے سن رہے تھے۔ فرمایا ’’اسمعوا واطیعوا‘‘ میری بات سنو اور میری اطاعت کرو۔ ایک صحابیؓ نے کھڑا ہو کر کہا ’’لا سمع و لا طاع‘‘ کہ جناب نہ سنتے ہیں اور نہ مانتے ہیں۔ پوچھا کیا معاملہ ہے؟ صحابیؓ نے کہا کہ پہلے میرے ایک سوال کا جواب دیں پھر آپ کی بات سنیں گے اور مانیں گے، وہ یہ کہ بیت المال سے آپ نے چند دن قبل لوگوں میں کپڑے تقسیم کیے تھے ہم سب کو ایک ایک چادر ملی تھی۔ مجھے بھی اور آپ کو بھی وہی کپڑا ملا تھا، وہ چادر اتنی بڑی نہیں تھی کہ اس سے میرا کرتا بن سکتالیکن آپ اسی کپڑے کا کرتا پہنے کھڑے ہیں، آپ کا کرتا اس کپڑے سے کیسے بن گیا جبکہ آپ کا قد بھی نسبتاً لمبا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تمہارا سوال ٹھیک ہے اس کا جواب میرا بیٹا عبد اللہؓ دے گا۔ پھر بیٹے سے کہا کہ عبد اللہ! اٹھو اور جواب دو۔ حضرت عبد اللہؓ نے اٹھ کر وضاحت کی کہ بھئی میں نے اپنے حصے کی چادر والد محترم کو دے دی تھی کہ دو چادریں ملا کر ان کا کرتا بن جائے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ اب میں اپنا خطبہ کہوں؟ اس صحابیؓ نے کہا کہ ’’قل! نسمع و نطیع‘‘ ارشاد فرمائیے ہم سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے۔
رشتہ داروں کے حقوق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلہ رحمی کی تلقین بھی کی اور اپنی حیات مبارکہ میں بے شمار مقامات پر عملی مثالوں کے ذریعے اس کی تعلیم بھی دی۔ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حضورؐ کے طرزِ عمل کو دیکھا جائے تو خاندانی نظام کا ایک ایسا مربوط نمونہ سامنے آتا ہے کہ جس کی مثال دنیا کی کوئی دوسری شخصیت یا کوئی اور نظام پیش کرنے سے عاجز ہے۔ حضورؐ نے ایک شخص کی زندگی میں والدین کے مقام اور ان کی حیثیت کی اہمیت اس انداز سے بیان فرمائی کہ والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ قرار دیا اور والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو جنت کا راستہ بتلایا۔ ایک موقع پر نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ان اللّٰہ عز و جل یوصیکم بأمھاتکم‘‘ (المعجم الکبیر، ۷۶۴۷) کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ماؤں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کرتے ہیں۔
نبی کریمؐ نے اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ’’ید المعطی العلیا، أمک و أباک وأختک وأخاک، ثم أدناک فأدناک‘‘ (مسند احمد، ۱۶۰۱۸) کہ دینے والے کا ہاتھ اوپر (برتر) ہوتا ہے، پہلے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرو پھر درجہ بدرجہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی اہلیہ حضرت زینبؓ نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا شوہر ضرورت مند ہے کیا میرے لیے اس کو صدقہ دینا جائز ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’نعم ولک أجران‘‘ ہاں تمہیں اس صدقے کا دوہرا اَجر ملے گا۔
عورتوں کے حقوق
دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے عورتوں کے حقوق کی بات بھی ہو رہی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں عورت کی جبری شادی کی جاتی ہے، اس کا مہر مختلف حیلوں سے ہضم کر لیا جاتا ہے اور اسے جائیداد اور وراثت میں سے حصہ نہیں ملتا۔ جناب نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں ارشاد فرمایا تھا کہ یاد رکھو ’’ألا، واستوصوا بالنساء خیرا، ۔۔۔ ان لکم علیٰ نساء حقاً ولھنّ علیکم حقاً‘‘ (ترمذی، ۳۰۱۲) کہ سنو، عورتوں کے ساتھ بھلائی کے بارے میں میری وصیت قبول کرو ۔۔۔ تمہارے حقوق عورتوں پر ہیں اور عورتوں کے حقوق تم پر ہیں۔ یعنی مرد و عورت، دونوں کی طرف سے حقوق ادا ہوں گے تو بات آگے چلے گی۔پھر ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں عورتوں کے بارے میں سب سے زیادہ نصیحت کرتا ہوں کہ یہ عورتیں فطرتاً (اپنی ساخت کے اعتبار سے مرد سے) کمزور ہیں، طاقتور کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمزور کے حقوق ادا کرے۔ اسی طرح ایک موقع پر ارشاد فرمایا ’’فاتقوا اللّٰہ فی النساء فانکم أخذتموھن بأمان اللّٰہ واستحللتم فروجھن بکلمۃ اللّٰہ‘‘ (مسلم، ۲۱۳۷) کہ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے تحت اپنے نکاح میں لیا ہے اور خدا کی اجازت کے تحت ان کی شرم گاہوں سے فائدہ اٹھانا تمہارے لیے حلال ہوا ہے۔
پڑوسیوں کے حقوق
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں جو خود تو رات کو پیٹ بھر کر سوئے لیکن اس کا پڑوسی بھوکا سوئے۔ حضرت ابو امامۃ باہلیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر پڑوسیوں کا خیال رکھنے کی اس قدر تاکید فرمائی کہ مجھے خیال ہوا کہ آپ پڑوسی کو وراثت میں بھی حق دار قرار دے دیں گے۔ حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ پڑوسی تین قسم کے ہیں:
رشتہ دار مسلمان پڑوسی: اس کے تم پر تین حق ہیں: پڑوسی کا، مسلمان کا اور صلہ رحمی کا۔
مسلمان پڑوسی : اس کے تم پر دو حق ہیں: پڑوسی کا اور مسلمان کا۔
غیر مسلم پڑوسی: اس کا تم پر ایک یعنی پڑوسی ہونے کا حق ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے گوشت پکا کر محلے میں تقسیم کیا لیکن ایک یہودی پڑوسی کے ہاں بھیجنا بھول گئیں اور اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ جناب نبی کریمؐ نے پڑوسیوں کے بارے میں کیا حقوق بیان فرمائے ہیں۔
نادار لوگوں کی مدد
حضرت عمر فاروقؓ رات کی تاریکی میں گشت کیا کرتے تھے، ایک دفعہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی، حضرت عمرؓ گزر گئے اور دوبارہ اس گلی میں آئے تو بچے ابھی تک رو رہے تھے، اسی طرح تیسرا چکر لگایا تو بچوں کے رونے کی آواز ابھی بھی آرہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے دروازے پر دستک دی، دروازہ کھلا اور ایک بڑھیا نکلی ، پوچھا اماں کیا بات ہے بچے مسلسل رو رہے ہیں۔ بڑھیا نے بتایا کہ بچے بھوکے بیٹھے ہیں کھانے کو کچھ نہیں ہے روئیں گے نہیں تو کیا کریں گے؟ ان کا باپ اِن کے سر پر نہیں ہے اور میں ان کی کفیل ہوں۔ گھر میں ایک ہنڈیا پک رہی تھی، حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ اس ہنڈیا میں کیا ہے؟ بڑھیا نے بتایا کہ بچوں کو دلاسہ دینے کے لیے خالی پانی کی ہنڈیا چڑھا رکھی ہے کہ روتے روتے بہل جائیں گے اور سو جائیں گے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ایک خادم تھا اسے ساتھ لے کر بیت المال گئے اور آٹے کی بوری اٹھوا کر خود اپنے کندھے پر رکھوائی، اب خادم ساتھ چل رہا ہے اور امیر المؤمنین نے کندھے پر بوری اٹھائی ہوئی ہے۔ حضرت عمرؓ نے جا کر بڑھیا کو آٹا دیا اور آگ جلا کر دی اور اس نے آٹا لے کر کھانے پکانے کا سلسلہ شروع کردیا۔
حضرت عمرؓ اس دوران وہاں موجود رہے اور بڑھیا سے بات چیت کرتے رہے۔ فرمایا کہ اماں عمر اِسی شہر میں رہتا ہے اگر کھانے کو کچھ نہیں تھا تو عمر کو جا کر بتایا ہوتا۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں جا کر عمرؓ کو بتاتی پھروں کہ میرے بچے بھوکے ہیں، یہ عمر کا کام ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھے کہ شہر میں کون کون سے گھر بھوکے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے دوسرا سوال کیا، اماں! عمر ایک آدمی ہے کس کس کا پتہ چلائے گا۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ بیٹا! اگر عمر اپنی رعیت کے بھوکوں کا پتہ نہیں چلا سکتا تو اسے یہ مسند خالی کر دینی چاہیے۔ آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل جناب نبی کریمؐ نے اور ان کے بعد خلفائے راشدین نے لوگوں کو یہ شعور دیا کہ اپنا حق کس طرح اور کس حوصلے کے ساتھ طلب کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ’’لومات الکلب جوعًا علٰی شط الفرات لکان عمر مسؤلاً عنہ یوم القیامۃ‘‘ کہ اگر دریائے فرات کے کنارے میں ایک کتا بھی بھوک سے مر جائے گا تو قیامت کے دن عمرؓ سے اس کے بارے میں سوال ہوگا کہ عمرؓ تیری سلطنت میں ایک جاندار دریائے فرات کے کنارے پر بھوکا کیوں مرا۔
نجی زندگی کا تحفظ
نجی زندگی کا تحفظ بھی انسانی حقوق میں سے ہے۔ ایک شخص کو اپنی نجی زندگی، شخصی زندگی اور گھر کی چار دیواری کے اندر کی زندگی کا تحفظ حاصل ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ’’ولا تجسسوا‘‘ کہ ایک دوسرے کے ذاتی حالات و معاملات میں مت پڑو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے گھر میں جاؤ تو اجازت لیے بغیر گھر میں مت داخل ہو۔ رسول اللہؐ ایک صحابیؓ کے گھر تشریف لے گئے، آپؐ کا معمول مبارک یہ تھا کہ آپؐ باہر سے بلند آواز میں السلام علیکم کہتے تھے، یہ اجازت مانگنے کا ایک طریقہ ہوتا تھا۔ اگر اندر سے جواب آتا تو ٹھیک ورنہ آپ وہیں سے لوٹ جاتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تین دفعہ اجازت مانگو، اجازت مانگنے کا طریقہ عرف کے مطابق ہے، آج کل دروازے کے باہر بیل لگی ہوتی ہے، موقع محل کے مطابق اگر تین دفعہ السلام علیکم کہنے یا تین دفعہ بیل بجانے کے بعد بھی اندر سے جواب نہ آئے تو آدمی خواہ مخواہ وہاں کھڑا نہ رہے۔ آپؐ نے تین دفعہ السلام علیکم کہا لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو حضورؐ واپسی کے لیے پلٹے ہی تھے کہ اندر سے وہی صحابیؓ دوڑتے دوڑتے آئے۔ رسول اللہؐ نے پوچھا کہ بھئی آپ نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا، صحابیؓ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! میں نے تینوں دفعہ جواب دیا لیکن آہستہ دیا اس لیے کہ آپ کی زبانِ مبارک سے بار بار سلام سننے کو جی چاہتا تھا۔ یہ اجازت مانگنا دوسروں کے گھر کی نجی زندگی کا تحفظ ہے۔
ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمت میں آیا اور پوچھا، یا رسول اللہ! میں اپنی ماں کے گھر جاؤں تو اس سے بھی اجازت مانگوں؟ فرمایا، ہاں اس سے بھی اجازت مانگو۔ پوچھا، یا رسول اللہ! میری ماں الگ گھر میں رہتی ہے کیا میں اس سے بھی اجازت مانگو؟ آپ نے پھر فرمایا، ہاں اس سے بھی اجازت مانگ کر اندر جاؤ۔ اس نے پھر تیسری بار پوچھا، یا رسول اللہ! مجھے بار بار جانا پڑتا ہے۔ حضورؐ نے اس پر کہا کہ اگر تمہاری ماں کسی نا مناسب حالت میں بیٹھی ہو تو کیا تم دیکھنا پسند کرو گے؟ اس نے کہا، نہیں۔ فرمایا، پھر اجازت لے کر جاؤ۔ یہ ایک گھر کی نجی زندگی کا تحفظ ہے۔
رسول اللہؐ نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر کسی کے گھر جا کر اجازت مانگ رہے ہو تو دروازے کے سامنے مت کھڑے ہو اور فرمایا ’’جعل الإستیذان لأجل البصر‘‘ کہ اجازت مانگنے کے حکم کی وجہ یہی ہے کہ اچانک نظر نہ پڑ جائے۔ ایسی جگہ مت کھڑے ہو کہ دروازہ کھلتے ہی گھر کے اندر تک نظر پڑ جائے بلکہ دروازے کے سامنے سے ہٹ کر ایک طرف ہو کر کھڑے ہو، ممکن ہے کوئی بچہ اچانک دروازہ کھول دے اور آپ کی نظر گھر کے اندر پڑ جائے، گھر والے نہ جانے کس ماحول میں بیٹھے ہوں اور ان کی پردہ دری ہو جائے۔ آپؐ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کسی کے گھر کے دروازے کے ایک سوراخ میں سے اندر جھانک رہا تھا۔ آپؐ نے منع فرماتے ہوئے کہا کہ اگر وہ شخص تمہیں ایسا کرتے دیکھ کر تمہاری آنکھ میں سلاخ گھسیڑ دیتا تو اسے اِس کا حق حاصل تھا۔
قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا
امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ایک زِرہ گم ہوگئی تھی جو کسی طرح ایک یہودی کے ہاتھ میں چلی گئی، حضرت علیؓ نے کسی جگہ وہ زِرہ دیکھی تو پہچان لی کہ یہ تو میری زِرہ ہے جبکہ یہودی کا کہنا تھا کہ اس نے وہ زِرہ کہیں سے خریدی ہے۔ یعنی ایک یہودی سے اسلامی حکومت کے سربراہ کا جھگڑا ہوگیا۔ حضرت علیؓ نے قاضی شریحؓ کی عدالت میں دعویٰ کر دیاکہ یہ میری زِرہ ہے اور اس یہودی کے پاس ہے۔ قاضی شریحؓ حضرت علیؓ کی حکومت میں چیف جسٹس تھے۔ دعویٰ چونکہ حضرت علیؓ نے دائر کیا تھا اس لیے مدعی یہ تھے، عدالت نے حضرت علیؓ سے مطالبہ کیا کہ گواہ لائیں۔ اب عدالت میں قاضی کے سامنے یہودی بھی کھڑا ہے اور حضرت علیؓ بھی۔ حضرت علیؓ کو کوئی عدالتی تحفظ حاصل نہیں تھا کہ سربراہِ مملکت کو عدالت میں طلب نہیں کیا جا سکتا، پھر کوئی پروٹوکول بھی نہیں تھا کہ حضرت علیؓ کو بیٹھنے کے لیے کرسی وغیرہ مہیا کی گئی ہو، دونوں ساتھ ساتھ قاضی کے سامنے کھڑے تھے۔ حضرت علیؓ نے گواہ پیش کیے جن میں ایک ان کا بیٹا حضرت حسنؓ تھے اور دوسرا کوئی اور شخص تھا۔ قاضیؓ نے کہا کہ جناب بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں ہے، اگر حسنؓ کے علاوہ کوئی اور گواہ ہے تو لائیے ورنہ میں آپ کے خلاف فیصلہ کرتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میرے پاس اور کوئی گواہ نہیں ہے۔ قاضی شریحؓ نے امیر المؤمنین کے سامنے کھڑے کھڑے یہ فیصلہ سنا دیا کہ جناب یہ زِرہ اس یہودی کی ہے میں آپ کا دعویٰ خارج کرتا ہوں۔ قانون کی نظر میں برابری کا جو تصور اسلام نے دیا ہے تمام تر تہذیب و تمدن کے دعوؤں کے باوجود دنیا آج بھی اس مقام تک نہیں پہنچی۔
اسلام میں غلامی کا تصور
آج غلامی کے مسئلہ کے حوالے سے اسلام کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلامی ایسا رواج تھا جسے اسلام نے بڑی حکمت کے ساتھ بتدریج ختم کیا ۔ جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اس زمانے میں کسی شخص کو غلام بنانے کے تین طریقے رائج تھے۔
ایک طریقہ تو وہ تھا جسے آج کل کی اصطلاح میں بردہ فروشی کہتے ہیں یعنی کوئی طاقتور آدمی کسی کمزور آدمی کو پکڑتا تھا اور غلام بنا کر بیچ دیتا تھا۔ حضرت زید بن حارثہؓ بھی ایسے ہی غلام بنے تھے، وہ کسی غلام خاندان کے نہیں تھے، راہ چلتے کچھ طاقتور لوگوں نے پکڑا اور بیچ دیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ بھی ایسے ہی غلام بنے تھے، علم کی تلاش میں سفر کر رہے تھے کہ کچھ طاقتور لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے غلام بنا کر بیچ دیا۔ آج بھی کچھ لوگ ایسے کرتے ہیں کہ کسی بچے یا بچی کواغوا کر کے آگے بیچ دیا۔ چنانچہ ایک طریقہ غلام بنانے کا یہ رائج تھا۔
دوسرا طریقہ غلام بننے کا یہ تھا جس کا کہ بائبل میں بھی ذکر ہے اور پرانی قوموں میں بھی یہ طریقہ رائج رہا ہے کہ کسی مجرم کے ذمے کوئی تاوان ہوتا تو عدالت، پنچایت، تحکیم یا قضا اس شخص کو سزا کے طور پر غلام بنادیتی بلکہ بعض اوقات کوئی مجبور آدمی خود کو کسی کی غلامی میں دے دیتا تھا، مثلاً کسی پر کوئی قرض ہوتا جسے وہ چکا نہیں سکتا تو وہ لاچار ہو کر کہہ دیتا تھا کہ ٹھیک ہے میں تمہارا غلام ہوں مجھے بیچ کر اپنا قرضہ پورا کر لو یا خود مجھ سے کام لے لو۔
تیسرا طریقہ یہ تھا کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا، جنگ کے دوران جو لوگ قید میں آجاتے تھے ان کے بارے میں مختلف صورتیں ہوتی تھیں، مثلاً یہ کہ انہیں
- ویسے ہی چھوڑ دیا جائے،
- قیدیوں کے تبادلے میں چھوڑ دیا جائے،
- فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے،
- قتل کر دیا جائے،
- یا قیدی بنا لیا جائے۔
اگر جنگی مجرموں کو قید کرنے کا فیصلہ ہو جاتا تو اس کی پھر دو صورتیں ہوتی تھیں کہ انہیں قید خانے میں ڈال دیا جائے، یا پھر غلام بنا کر مختلف خاندانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یعنی جیل میں قید کر لیا جائے یا پھر نیم آزادی دے دی جائے، حضورؐ کے زمانے میں عرب میں اجتماعی قید خانے نہیں ہوا کرتے تھے، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قید میں رکھنا مشکل ہوتا تھا اس لیے یہ قیدی خادم کے طور پر مختلف خاندانوں میں تقسیم کر دیے جاتے تھے۔
چنانچہ یہ تین طریقے اس وقت غلام بنانے کے رائج تھے۔ جناب نبی کریمؐ نے غلامی کی تمام صورتوں کو ناجائز قرار دیتے ہوئے انتظامی ضروریات کے پیش نظر صرف آخری صورت کی گنجائش برقرار رکھی کہ جنگی قیدیوں کو مختلف خاندانوں میں بطور خادم تقسیم کر دیا جائے۔ حضورؐ نے فرمایا ’’بیع الحر حرام‘‘ کہ بردہ فروشی حرام ہے ’’ثمن الحر حرام‘‘ جرمانے یا تاوان میں بھی غلام بنانا حرام ہے۔ آنحضرتؐ نے اپنی جنگوں کے زیادہ تر قیدی یا تو ایسے ہی چھوڑ دیے یا تبادلے میں چھوڑے یا پھر فدیہ لے کر چھوڑے۔ غزوۂ حنین میں سب قیدی بلا معاوضہ رہا کر دیے گئے۔ ایک دو جنگوں میں جب یہ دیکھا کہ قیدی بنانا ضروری ہے وہاں قیدی بنائے گئے لیکن ساتھ ان کے حقوق بھی بیان کیے گئے۔
رسول اللہؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ’’خولکم إخوانکم‘‘ یہ تمہارے بھائی ہیں ’’اطعموھم مما اطعمتم‘‘ جو خود کھاتے ہو انہیں بھی وہی کھلاؤ ’’البسوھم مما تلبسون‘‘ جو خود پہنتے ہو انہیں بھی اسی معیار کا پہناؤ ’’ولا تکلفوہم مالا یطیقون‘‘ اور جس کام کی ان میں طاقت نہیں وہ بوجھ ان پر مت ڈالو، ’’إن کلفتموھم فاعینوھم‘‘ اگر کوئی کام ان کی طاقت سے زیادہ ہے تو ان کی مدد کرو۔
ایک صحابی حضرت ابو مسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ایک غلام کو تھپڑ مارا تو پیچھے سے آواز آئی ابو مسعود! جتنی قدرت تم اس پر رکھتے ہو اس سے کہیں زیادہ قدرت والا تمہارے اوپر ہے، تم نے اپنے آپ کو مالک سمجھ کر تھپڑ مارا ہے تمہارا بھی کوئی مالک ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جناب رسول اللہؐ تھے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! میں نے اللہ کی خاطر اسے آزاد کر دیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں لے لیتی۔
جناب نبی کریمؐ نے جو آخری وصیت فرمائی اس میں دو باتیں فرمائیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے اپنی زندگی کا یہ آخری جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’الصلٰوۃ وما ملکت ایمانکم‘‘ اپنی نماز کا خیال کرنا اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے اپنی ترغیبات کے ذریعے غلاموں کا مسئلہ اتنا حساس بنا دیا کہ صحابہ کرامؓ نے معمولی سے معمولی بات پر غلاموں کو آزاد کرنا شروع کر دیا اور یوں عملی طور پر مسلمانوں کے معاشرے میں ایک وقت غلامی عملاً ختم ہو کر رہ گئی تھی۔
میں نے آج کی گفتگو میں اصولاً یہ بات عرض کی ہے کہ انسانی حقوق کا تصور سب سے پہلے اسلام نے دیا ہے جبکہ آج کی ویسٹرن سولائزیشن اس کے بارہ سو سال بعد انسانی حقوق سے آشنا ہوئی ہے۔ رائے کی آزادی ہو، جان کا تحفظ ہو، مال کا تحفظ ہو، آبرو کا تحفظ ہو، گھریلو زندگی کا تحفظ ہو، عورتوں کے حقوق ہوں، غلاموں کے حقوق ہوں، رشتہ داروں کے حقوق ہوں، اپنا حق مانگنے کا شعور ہو، یہ معاملات جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے ہیں اور آج کی نسل انسانی اپنے تمام تر دعوؤں اور ترقی کے باوجود اس مقام تک نہیں پہنچ سکی جس کا عملی نقشہ حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں صحابہ کرامؓ نے پیش کیا تھا۔ اسلام کو اگر سمجھنا ہے تو وہ خلفائے راشدین کے دور کو سامنے رکھ کر سمجھنا ہوگا کہ وہی آئیڈیل دور ہے اور وہی مثالی اجتماعی سوسائٹی ہے جس کی بنیاد حقوق اللہ اور حقوق العباد پر قائم کی گئی، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔