برادرِ مکرم حضرت مولانا سید محمد شمس الدین صاحب امیر جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان و ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی میرے ساتھی اور دوست ہیں۔ دورۂ حدیث میں ہم اکٹھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عزم و استقامت کے میدان میں جو سبقت عطا فرمائی ہے وہ موصوف کے میرے جیسے ساتھیوں کے لیے قابل فخر بھی ہے اور قابل رشک بھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزم و ہمت میں برکت دیں۔ مولانا گزشتہ دنوں گوجرانوالہ تشریف لائے تو ایک مختصر محفل میں تعارف و خیالات کی رپورٹ قلمبند ہوگئی۔ تو لیجئے یہ ہیں مولانا شمس الدین۔
تعارف
مولانا شمس الدین صاحب کے دادا حضرت حاجی محمد رفیقؒ علاقہ فورٹ سنڈیمن (ژوب) کے معروف دینی و روحانی پیشوا اور خاندان سادات کے نامور چشم و چراغ تھے۔ اصل علاقہ فورٹ سنڈیمن سے ۲۵ میل دور صحت افزا مقام شین غر ہے جہاں سے نقل مکانی کر کے آپ فورٹ سنڈیمن چلے آئے اور تعلیم و تدریس اور روحانی تربیت کا سلسلہ جاری فرمایا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کئی بار حج بیت اللہ شریف کی سعادت سے نوازا۔ ہر بار اپنے ایک بیٹے کو ساتھ لے جاتے، آخری بار سب سے چھوٹے فرزند حضرت مولانا محمد زاہد صاحب مدظلہ العالی کو حج کے لیے لے گئے اور مسجد نبویؐ میں روضۂ اطہر کے سامنے انہیں دستارِ فضیلت باندھ کر اپنا جانشین مقرر فرما دیا۔ جہاں سے واپس آکر حضرت مولانا محمد زاہد صاحب مدظلہ نے اپنے والد محترم کی جگہ درس و تدریس اور رشد و ہدایت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
مولانا سید محمد شمس الدین حضرت مولانا محمد زاہد مدظلہ کے فرزند ہیں۔ ولادت آج سے تقریباً ۲۸ برس قبل ۱۹۴۵ء میں ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر پر والد صاحب سے حاصل کی، صرف و نحو کی کچھ کتابیں پڑھیں اور ساتھ ہی سکول کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ۱۹۶۰ء میں گورنمنٹ ہائی سکول فورٹ سنڈیمن سے میٹرک کیا، اس کے بعد حضرت مولانا محمد زاہد کے ہم سبق ساتھی اور جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد کے نائب امیر حضرت مولانا قاضی عبد الکریم صاحب آف کلاچی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے اس ہونہار بیٹھے کو کالج بھیجنے کی بجائے دینی تعلیم دلوائیں۔ چنانچہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیا اور دو سال وہاں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ عربیہ نیوٹاؤن کراچی میں داخل ہوئے اور دو سال وہاں رہے۔ پھر ایک سال گھر پر گزارا اور اس کے بعد مدرسہ مخزن العلوم والفیوض خان پور میں دو سال تک تعلیم حاصل کی۔ پھر مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں داخل ہوئے اور دورۂ حدیث شریف مکمل کر کے سند فراغت حاصل کی۔ مولانا شمس الدین کے اساتذہ میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم، حضرت مولانا محمد یوسف بنوری دامت برکاتہم، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم، حضرت مولانا عبد الحق صاحب دامت برکاتہم اور دیگر اکابر خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
مولانا نے دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد فورٹ سنڈیمن میں اپنے قدیمی تعلیمی مرکز مکی مسجد میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور ساتھ ہی بلوچستان میں جمعیۃ طلباء اسلام کی تنظیم کے سلسلہ میں جدوجہد کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ جمعیۃ طلباء اسلام بلوچستان کے صدر رہے۔ اسی دوران عام انتخابات کا مرحلہ پیش آیا تو حضرت مولانا مفتی محمود صاحب دامت برکاتہم کے ارشاد پر جمعیۃ علماء اسلام کے اسٹیج پر کام کرنا شروع کر دیا اور جمعیۃ کے ٹکٹ پر فورٹ سنڈیمن کے حلقہ سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور علاقہ کے بہت بڑے سردار نواب تیمورشاہ جوگیزئی کو بھاری اکثریت سے شکست دے کر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ ۱۹۷۱ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور ۱۹۷۲ء میں صوبائی اسمبلی کے انعقاد پر بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے۔ چونکہ بلوچستان میں حضرت مولانا عرض محمد صاحبؒ کی شہادت کے بعد اور حضرت مولانا محمد عمر صاحب مدظلہ کی ضعیف العمری اور مصروفیات کے باعث جمعیۃ علماء اسلام کا تنظیمی کام کمزور پڑ گیا تھا اس لیے مولانا شمس الدین صاحب نے یہ کام از خود آگے بڑھ کر ذمہ لے لیا اور پورے صوبے میں جمعیۃ کی تنظیم نو کا کٹھن فریضہ پوری خوش اسلوبی کے ساتھ سر انجام دیا۔ چنانچہ صوبائی مجلس عمومی کے بھرپور اجلاس میں انہیں صوبائی جمعیۃ علماء اسلام کا متفقہ طور پر امیر منتخب کر لیا گیا۔
آپ نے صوبائی اسمبلی میں جمعیۃ علماء اسلام کے منشور کی روشنی میں اعلاء کلمۃ الحق کا فریضہ سر انجام دیا اور فورٹ سنڈیمن میں ناموس رسالتؐ اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے زبردست تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کو فورٹ سنڈیمن کے ضلع سے نکال دیا گیا اور صوبائی حکومت کو قادیانی لٹریچر کی ضبطی اور قادیانی افسروں کی بلوچستان سے واپسی کے لیے مجبو رہونا پڑا۔ انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں اور دولت و اقتدار کی لالچ بھی دی گئی مگر اس مردِ قلندر نے ہر ظلم اور ہر لالچ کو پائے استحقار سے ٹھکرا کر عظیم اکابر کی روایات کو زندہ کر دیا۔
انٹرویو
ملکی سیاست اور بلوچستان کے حالات کے بارے میں راقم الحروف کے سوالات پر مولانا شمس الدین نے تفصیلی تبصرہ کیا، مولانا کے جوابات کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
نیپ سے معاہدہ
نیشنل عوامی پارٹی سے معاہدہ کے بارے میں میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا شمس الدین نے بتایا کہ صوبائی جمعیۃ ابتداء میں نیپ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے حق میں نہیں تھی لیکن جب اکابر نے مرکزی سطح پر پالیسی طے کر لی اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی نے بلوچستان کے جماعتی احباب پر اس معاہدہ کو قبول کرنے کے لیے زور دیا تو ان کی کافی جدوجہد کے بعد ہم لوگ اس بات پر رضامند ہوئے جس کے بعد بلوچستان میں نیپ کے ساتھ مخلوط وزارت کا معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ انہی شرائط پر تھا جو صوبہ سرحد میں مخلوط وزارت کے لیے طے کی گئی تھیں۔ حکومت کے قیام کے بعد ہم نے ایک لاء کمیشن قائم کیا تاکہ صوبہ کے عوام کی رائے معلوم کر کے قوانین کو اسلامی سانچہ میں ڈھالا جا سکے۔ اس کمیشن کے سربراہ جناب جسٹس فضل غنی تھے اور اس میں حضرت مولانا محمد عمر صاحب (جمعیۃ)، حضرت مولانا عبد الغفور صاحب (جمعیۃ) اور حضرت مولانا قاضی سعد اللہ صاحب (جمعیۃ) کے علاوہ نیپ کے امیر الملک مینگل صاحب اور دوسرے حضرات بھی تھے۔ اس کمیشن نے بلوچستان کا تفصیلی دورہ کیا اور سوالنامہ بھی شائع کیا نیز عام اجتماعات اور ملاقاتوں میں لوگوں کے تاثرات معلوم کیے۔ چنانچہ ۹۵ فیصد عوام نے یہ فیصلہ دیا کہ بلوچستان میں قضا کا شرعی نظام قائم کیا جائے۔ ان تاثرات کی روشنی میں کمیشن نے رپورٹ ترتیب دی جس میں نیپ کے راہنا بھی اس بات پر پوری طرح متفق تھے کہ دیوانی عدالتوں میں شرعی قوانین کا نفاذ کر دیا جائے۔ مگر فوجداری عدالتوں کا معاملہ چونکہ صوبہ کے کنٹرول سے باہر ہے اس لیے اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن ابھی یہ تکمیل کے آخری مراحل طے کر رہی تھی کہ مرکزی حکومت نے بے بنیاد الزامات عائد کر کے صوبہ بلوچستان کی آئینی و جمہوری حکومت کو بلاجواز برطرف کر دیا اور اس طرح شرعی قوانین کے نفاذ کا یہ منصوبہ مرکزی حکومت کی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
نیپ کا کردار
نیپ کے بارے میں مولانا نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ممکن ہے ماضی میں نیپ راہنماؤں کے خیالات اس سے مختلف رہے ہوں مگر جمعیۃ سے پانچ شرائط پر سمجھوتے اور لاء کمیشن کی رپورٹ پر دستخط کر دینے کے بعد ان کے بارے میں یہ کہنا غلط ہوگا کہ وہ اسلامی نظام کے حامی نہیں ہیں۔ صوبہ سرحد میں مفتی صاحب نے جو اصلاحات کیں نیپ نے کوئی اعتراض نہیں کیا، مرکز میں آئینی کمیٹی میں مفتی صاحب کو نیپ کا تعاون حاصل رہا، متحدہ جمہوری محاذ نے آخری وقت جو ترامیم پیش کیں ان میں اسلامی ترامیم بھی تھیں ان پر نیپ نے دستخط کیے، اور سب سے بڑھ کر ملک کے آئین پر جس میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے نیپ کے لیڈروں کے دستخط موجود ہیں۔ اس لیے اب ان حالات میں ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا قطعاً غلط ہے۔
یہی حال ان کی حب الوطنی کے بارے میں پھیلائے گئے شکوک و شبہات کا ہے جو بالکل بے بنیاد ہے۔ اگر نیپ علیحدگی پسند ہوتی تو جس وقت بنگلہ دیش ملک سے الگ ہوگیا تھا وہ بھی اس وقت سے فائدہ اٹھا سکتی تھی اور پھر جب اس کے ہاتھ میں اقتدار تھا وہ اس قوت کو علیحدگی کے حق میں استعمال کر سکتی تھی مگر اس نے اس کا خیال بھی ظاہر نہیں کیا جو ان کے وطن دوست ہونے کی دلیل ہے۔ ان کے خلاف سب سے بڑا الزام یہ لگایا گیا کہ انہوں نے روسی ساخت کا اسلحہ منگوایا ہے مگر بلوچستان میں ایک بندوق بھی نہیں پکڑی جا سکی۔
پٹ فیڈر اور لس بیلہ
آپ کو یاد ہوگا کہ مرکزی حکومت نے پٹ فیڈر اور لس بیلہ میں ’’بد امنی‘‘ کے بہانے صوبائی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا شمس الدین نے بتایا کہ پٹ فیڈر میں غوث بخش رئیسانی نے سازش کر کے مقامی لوگوں اور آبادکاروں کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی تاکہ اسے صوبائی حکومت کے خلاف حربہ کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ وہاں صرف ایک آباد کار (پنجابی) تاج الدین قتل ہوا۔ اصل قصہ یہ ہوا کہ رئیسانی کے آدمیوں نے موضع بگہ بیدار میں پنجابی آباد کاروں کی ملکیتی زمین کو اپنی ملکیت ظاہر کر کے اس کی فصل اور گھاس مری قبائل کے لوگوں پر فروخت کر دیا۔ جب وہ فصل کاٹنے آئے تو آبادکاروں نے اسے اپنی زمینوں پر حملہ سمجھا اور اس طرح رئیسانی نے مری قبائل کو آبادکاروں سے بھڑا دیا۔ اسی طرح لس بیلہ میں نبی بخش زہری کی دولت کے سہارے کچھ افراد کو قانون شکنی پر ابھارا گیا جنہوں نے صوبہ کی قانونی حکومت کے انتظامی معاملات میں دخل اندازی کی کوشش کی جس کے جواب میں حکومت نے قانونی اختیارات استعمال کیے اور سات تخریب کار نبی بخش زہری اور جام غلام قادر کی سازش کی نذر ہوگئے۔
دراصل یہ سب بہانہ تھا جس کا انتظام بھی وفاق میں حکمران پارٹی نے خود کیا تھا تاکہ صوبہ کی آئینی و قانونی حکومت کو توڑنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ حالانکہ معمولی باتیں تھیں جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں لسانی فسادات کے دوران اور مزدور ایجی ٹیشن کے موقع پر سینکڑوں بے گناہ مارے گئے مگر حکومت کا ’’امن‘‘ خطرے میں نہ پڑا۔
بلوچستان کے معدنی وسائل
مولانا سید شمس الدین نے بتایا کہ قدرت نے بلوچستان کو بے پناہ معدنی دولت سے نوازا ہے۔ سوئی گیس کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جس سے سارا ملک استفادہ کر رہا ہے لیکن بلوچستان کی بدقسمتی دیکھئے کہ وہاں سے سوئی گیس نکال کر پورے ملک میں پہنچا دیا گیا ہے مگر بلوچستان حتیٰ کہ اس کا دارالخلافہ اس نعمت سے محروم ہے اور ہم خود اپنے استعمال کے لیے سوئی گیس کے سلینڈر کراچی سے منگواتے ہیں۔
اس کے علاوہ کرومائیٹ جس سے فولاد بنتا ہے اس کے بے پناہ ذخائر بلوچستان میں ہیں، اس سلسلہ میں عوام نے مطالبہ کیا کہ اگر فولاد کا کارخانہ نہیں تو کم از کم کرومائیٹ (Chromite) کو صاف کرنے کا پلانٹ بلوچستان میں نصب کیا جائے تاکہ وہاں کے عوام کو روزی کے کچھ مواقع فراہم ہو سکیں۔ مگر یہ مطالبہ بھی صدا بصحرا ثابت ہوا اور کراچی میں فولاد کا کارخانہ لگایا جا رہا ہے جبکہ وہاں نقل و حمل ایک مستقل مسئلہ ہے، زمین بے حد قیمتی ہے اور سب سے بڑھ کر وہاں کے عوام کے لیے روزی کے اور بھی وسائل موجود ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فولاد کا یہ کارخانہ پہلی اسکیم کے مطابق ضلع ژوب بلوچستان کے صدر مقام پر لگایا جائے۔
علاوہ ازیں گندھک (Sulphur)، سنگ مرمر (Marble) اور فلورائیٹ (Fluorite) بھی کافی مقدار میں موجود ہے۔ نوشکی کے ریگستان میں سونا ملا ہے جو ٹیسٹ کرنے کے لیے ماہرین کے پاس بھیجا گیا ہے۔ ایک خاص قسم کی سفید مٹی جو صنعتی دنیا میں گراں قیمت ہے، بلوچستان میں موجود ہے۔ جاپان کی حکومت نے پیشکش کی کہ ہم یہ مٹی آپ سے خریدنا چاہتے ہیں مگر حکومت پاکستان وہاں تک ریل کی پٹڑی نہ لے جا سکی اور نہ ہی ٹرکوں کا خاطر خواہ انتظام ہو سکا جس کے نتیجہ میں یہ سودا نہ ہو سکا۔
ضلع ژوب کے پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان میں ایک فرم نے کنواں کھودا، کئی ہزار فٹ پر تیل نکلا مگر بعد میں اس کنویں کو بند کر دیا گیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اسے کیوں بند کیا گیا مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ اسی طرح جنوب مغربی حصہ مکران اور خاران میں بھی تیل کے ذخائر موجود ہیں مگر ہماری معلومات کے مطابق کچھ ہمسایہ طاقتیں اس کے حق میں نہیں کہ بلوچستان میں تیل نکالا جائے اس لیے کہ اس سے ان کے تیل کے ذخائر میں کمی آنے کا خدشہ ہے کیونکہ ان کے ہاں تیل کے جو چشمے ہیں وہ بلوچستان سے بہہ کر آگے جاتے ہیں۔ اور بلوچستان میں ایران کی دلچسپی کا باعث بھی یہی ہے۔ ایوب خان کے دور میں بلوچستان کی مغربی سرحد میں معدنی نقطۂ نظر سے ایک انتہائی پیش قیمت خطہ ایران کو دے دیا گیا۔ مگر چونکہ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیۃ علماء اسلام کی حکومت ان بیرونی مفادات کی پاسداری کے لیے تیار نہیں تھی، اسے برطرف کر دیا گیا۔
بلوچستان کا گرم سمندر
آج کے دور میں گرم سمندر کی بے حد اہمیت ہے۔ سرد سمندر چونکہ صرف چھ ماہ تک جہاز رانی کے کام آتا ہے، باقی چھ ماہ منجمد رہتا ہے اس لیے ساری دنیا کو تجارتی نقل و حمل کے لیے گرم سمندر کی ضرورت رہتی ہے۔ قدرت نے بلوچستان کو گرم سمندر کا تین چار سو میل کا ساحل مرحمت فرمایا ہے جو ایک بیش بہا نعمت ہے اور اس کی وجہ سے بین الاقوامی طاقتیں اس خطہ کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں۔
بلوچستان میں فوج
مولانا شمس الدین نے بتایا کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں فوج تعمیری مقاصد کے لیے بھیجی گئی ہے اور وہ سڑکیں بنا رہی ہے اور کنویں نکالے جا رہے ہیں۔ حالانکہ اس کام کے لیے بی آر بی سے کام لیا جا سکتا تھا، فوج کی ضرورت نہیں تھی۔ مولانا نے بتایا کہ میں نے کراچی کی پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے ایسی کوئی سڑک نہیں دیکھی جو توپ اور گولہ بارود سے تعمیر کی جاتی ہو، یہ عجیب سڑکیں ہیں جن کی تعمیر کے لیے دھڑا دھڑ فوج اور اسلحہ بلوچستان بھجوایا جا رہا ہے۔ دراصل فوج کو وہاں عوام کی جائز جدوجہد کو کچلنے اور بگٹی گورنمنٹ کو تحفظ دینے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ہم فوج کے مخالف نہیں، یہ ہماری اپنی فوج ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ فوج وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرے، سیاسی معاملات میں اسے استعمال نہ کیا جائے۔ بلوچستان کے عوام کی جدوجہد جائز مقاصد کے لیے ہے وہ ہرگز علیحدگی نہیں چاہتے۔ وہ اپنا جمہوری حق مانگتے ہیں، ان کا مطالبہ یہ ہے کہ جن نمائندوں کو انہوں نے ووٹ دے کر منتخب کیا تھا، اقتدار ان کے حوالے کیا جائے۔ لیکن ان کے جائز مطالبہ کے جواب میں ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں، ان لوگوں کا راشن بند کر دیا گیا، آب نوشی کے مراکز پر فوج نے قبضہ کر لیا ہے، لوگوں کے گھروں کی تلاشی لے کر غلہ اور دیگر سامان چھین لیا جاتا ہے، پانی تک پینے کو نہیں ملتا۔ صرف ایک گاؤں میں پیاس سے ۱۴ بے گناہ افراد جاں بحق ہوئے۔ لوگ ان مظالم سے تنگ آکر بستیاں خالی کر کے پہاڑوں میں روپوش ہو رہے ہیں۔ بعض مقامات پر خصوصاً مستونگ کے علاقہ میں شام کے بعد ٹریفک معطل ہو جاتی ہے اور لوگ مریضوں کو بھی علاج کے لیے کہیں نہیں لے جا سکتے۔ ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے لیویز اور پولیس کے دستوں کو وارنٹ کاپیوں کے بنڈل دستخط کر کے دے دیے ہیں وہ جب بھی جسے چاہیں نام لکھ کر گرفتار کر لیتے ہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام تحصیل مستونگ کے امیر حاجی قطب خان کو ایک ایسے ٹربیونل نے ۸ سال قید کی سزا دی ہے جس کے سارے رکن خود قاتل ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ورکروں کے اشارہ پر بڑے سے بڑے کارکن کو جیل میں دھکیل دیا جاتا ہے اور بلوچستان میں ہر طرف افراتفری او رخوف و ہراس کا تسلط ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے جیل میں ہیں، اسمبلی کو تالا لگا دیا گیا ہے، اسمبلی کے ارکان گرفتار کر کے اور رکنیت ختم کر کے اکثریتی پارٹی کو اقلیتی پارٹی میں تبدیل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ لیکن ان تمام تر حربوں کے باوجود بلوچستان اسمبلی میں آج بھی ہماری اکثریت ہے، بلوچستان کے عوام کے حوصلے بلند ہیں اور سیاسی کارکن تمام تر مظالم کے باوجود اپنی جدوجہد کی کامیابی کا یقین رکھتے ہیں۔
ایرانی فوج
ایران کی فوج بھی بلوچستان میں موجود ہے۔ ایرانی ہیلی کاپٹروں کو ایرانی پائلٹ خود چلا رہے ہیں، مجھے گرفتاری کے دوران ایرانی ہیلی کاپٹر میں لے جایا گیا جس کا پائلٹ بھی ایرانی تھا۔ اس کے علاوہ ’’شہباز ایران‘‘ مارکہ فوجی گاڑیاں کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں کھلے بندوں گھومتی ہیں اور یہ ایرانی فوج بلوچستان کے عوام کی جائز جدوجہد کے خلاف آپریشن کرنے والی پاک فوج کو کمک اور اسلحہ فراہم کرتی ہے۔
اقلیتی حکومت
بلوچستان کی موجودہ حکومت اقلیتی گروپ کی حکومت ہے جو عملاً گورنر راج ہے کیونکہ عملاً صرف بگٹی کا حکم چلتا ہے۔ کابینہ کے ارکان بالکل بے اختیار ہیں حتیٰ کہ وزیراعلیٰ جسے نئے آئین میں سب سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں وہ بے چارہ تین تین گھنٹے گورنر صاحب کی ملاقات کے انتظار میں دروازہ پر کھڑا رہتا ہے۔ دراصل بگٹی کا خیال ہے کہ ہم لالچ اور دباؤ سے نیپ جمعیۃ اکثریت کو توڑ لیں گے، کچھ ساتھی انہوں نے توڑ بھی لیے مگر اس کے باوجود ہماری اکثریت قائم ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ نیپ کے اسپیکر عبد الرحمان باروزئی اور خود میرے خلاف وہ عدم اعتماد کی تحریک نہیں لا سکے اور ہم بدستور اسپیکرا ور ڈپٹی اسپیکر ہیں۔ دوسرا واضح ثبوت بھٹو صاحب کا اعتراف ہے جو انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے دوران کیا کہ میں نیپ اور جمعیۃ کی اکثریت کو نہیں توڑ سکا۔ تیسرا ثبوت یہ ہے کہ بگٹی صاحب نے اسمبلی بلائی اور حکومتی حلقوں نے اعلان کیا کہ جام غلام قادر وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیں گے مگر وہ اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے اور اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ ہماری اکثریت کو توڑنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا گیا، خود مجھے چیف منسٹر کا عہدہ پیش کیا گیا مگر الحمد للہ میں نے جماعتی منشور، جمہوری اقدارا ور اکابر کے ناموس کے پیش نظر اس کرسی کو لات مار دی۔ ایک ملاقات میں بھٹو صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ لوگ بڑے اچھے ہیں، بااصول اور دیانت دار ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ جیسے لوگ میرے ساتھ آئیں اس لیے آپ نیپ کو چھوڑ کر میرے ساتھ تعاون کریں۔ میں نے جواب دیا کہ بھٹو صاحب کیا ہم اقتدار کی خاطر نیپ سے معاہدہ توڑ کر بھی با اصول اور دیانت دار رہیں گے؟ اس پر بھٹو صاحب خاموش ہوگئے۔
مولانا ہزاروی کا اخراج
(مولانا نے بتایا کہ) حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی کی خدمت میں ان کے جمعیۃ سے اخراج سے قبل میں راولپنڈی میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت آپ ہمارے پاس تشریف لائیں اور ہماری راہنمائی اور سرپرستی فرمائیں مگر انہوں نے فرمایا کہ میں اب کمزور ہوگیا ہوں سفر نہیں کر سکتا۔ پھر اس کے کچھ دنوں بعد مجھے کوئٹہ میں ان کا پیغام ملا کہ میں کوئٹہ میں آیا ہوں مجھ سے ملو۔ میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ جب میں نے عرض کیا تو آپ نے کمزوری کا عذر کیا اور اب آپ خود تشریف لائے ہیں۔ فرمایا کہ ایک کام تھا اس کے لیے آنا پڑا۔ پھر مجھے انہوں نے جمعیۃ کے ساتھ اپنے اختلاف کی وجوہات تفصیل سے بتائیں اور فرمایا کہ میں ان سے تعاون کروں اور یہ کہا کہ مجھے وزارت اعلیٰ قبول کر لینی چاہیے۔ میں نے گزارش کی کہ حضرت سب باتوں سے قطع نظر مجھے آپ یہ بتائیں کہ آپ نے جو یہ اعلان کیا کہ میں نے جمعیۃ کی سربراہی خود سنبھال لی ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا خاکم بدہن امیر جمعیۃ حضرت درخواستی مدظلہ، اللہ ان کی عمر دراز فرمائیں، خدانخواستہ انتقال فرماگئے ہیں یا انہوں نے استعفٰی دے دیا ہے یا مجلس عمومی نے ان کی جگہ آپ کو امیر منتخب کر لیا ہے۔ آخر وہ کونسا آئینی ذریعہ ہے جس سے آپ جمعیۃ کے سربراہ بن گئے ہیں؟ اس کا مولانا ہزاروی نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے صاف طور پر یہ واضح کر دیا کہ بلوچستان میں جمعیۃ علماء اسلام کے تمام ارکان امیر مرکزیہ حضرت درخواستی دامت برکاتہم، قائد جمعیۃ حضرت مفتی صاحب اور حضرت مولانا عبید اللہ انور صاحب دامت برکاتہم پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں اور جماعتی فیصلوں سے انحراف کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس موقع پر مولانا ہزاروی کو میں نے یاد دلایا کہ حضرت آپ ہی نے کراچی کے ایک جلسہ میں الیکشن کے بعد لوگوں کو اس طرح ڈانٹ پلائی تھی کہ تم نے قرآن اور اسلام کے مقابلہ میں بھٹو کو ووٹ دیا ہے اب اسے برداشت کرو۔ اب ہم قرآن کے مقابلہ میں بھٹو صاحب کی حمایت کس طرح کریں؟
جمعیۃ کی تنظیمی صورت حال
بلوچستان میں جمعیۃ کی تنظیم نو کا کام شروع ہونے کے بعد بحمد اللہ جمعیۃ کا پلیٹ فارم کافی مضبوط حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ کارکنوں کا نظم و نسق اور خلوص ہی تھا کہ ایک ایم این اے مولانا عبد الحق اور دو ایم پی اے مولوی صالح محمد اور میاں حسن شاہ جمعیۃ سے علیحدگی کے بعد اپنے ساتھ کوئی ایک رکن بھی نہیں لے جا سکے۔ اور آج ان کی حالت یہ ہے کہ وہ مجرموں کی طرح چھپتے پھرتے ہیں۔ میں نے کوئٹہ میں ان کو چیلنج دیا کہ تم کہتے ہو بلوچستان کی جمعیۃ ہمارے ساتھ ہے، تم کسی جامع مسجد میں کھلے بندوں ایک نماز پڑھنے کی ہمت کرو پھر دیکھو کہ لوگ تمہارا کیا حشر کرتے ہیں۔ میاں حسن شاہ تو پہلے ہی وزارت میں شامل ہوگئے تھے مگر مولوی صالح محمد صاحب اور مولانا عبد الحق صاحب کو حضرت مولانا ہزاروی نے ورغلایا اور وہ اس وعدہ پر کہ دو ماہ میں شریعت نافذ ہوگی، حکومت میں شامل ہوگئے۔ اور دو ماہ بعد صوبائی مجلس شورٰی کے اجلاس کے موقع پر پیغام بھیجا کہ ہمیں دو ماہ کی مہلت دی جائے مگر شورٰی نے کہہ دیا کہ کیا تم ہماری اجازت سے حکومت میں گئے ہو جو ہم سےمہلت مانگتے ہو؟
جمعیۃ کی تنظیم نو کے لیے میرے ساتھ جناب محمد زمان خان اچکزئی سینیٹر و جنرل سیکرٹری صوبائی جمعیۃ، حاجی نصیر الدین صاحب، سید عبد الولی آغا، جناب حاجی سید سیف اللہ، مولوی عبد المنان صاحب، مولوی محمد سرور صاحب، مولانا عبد الواحد صاحب، سید عبید اللہ صاحب، سید فریادی محمد رسول شاعر بلوچستان، حاجی شاہ محمد صاحب، حاجی شاہجہان صاحب، جناب منظور احمد مغل، اور جمعیۃ طلباء اسلام کے جناب شیر محمد قاسمی نے بھرپور تعاون کیا۔ میں ان حضرات کے بے حد شکرگزار ہوں، مجھے امید ہے کہ یہ حضرات جمعیۃ کے پرچم کی سربلندی اور اکابر کے احکام کی تعمیل کے لیے مجھ سےتعاون فرماتے رہیں گے اور ہم سب مل کر بلوچستان میں جمعیۃ کو طاقتور ترین جماعت بنائیں گے، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین۔