۱۵ فروی کو لاہور کے ایک ہوٹل میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے امیر مولانا سمیع الحق کی دعوت پر ان کی زیر صدارت منعقد ہونے والے کل جماعتی اجتماع نے حکومت اور طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر جنگ بند کر دیں اور مذاکرات کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔ کانفرنس میں تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی جن میں جناب سید منور حسن، مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا محمد اویس نورانی، مولانا عبد الرؤوف فاروقی، مولانا عبد القیوم حقانی، مولانا مفتی حمید اللہ جان، پروفیسر محمد ابراہیم، جناب لیاقت بلوچ، سردار احمد خان لغاری، مولانا قاری زوار بہادر، مولانا عبد المالک خان، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، پیر عبد الرحیم نقشبندی اور مولانا عبد الحنان بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اجتماع میں تیس سے زائد دینی تنظیموں کے دو سو سے زائد نمائندگان نے شرکت کی اور پاکستان شریعت کونسل کے دیگر رفقاء کے ہمراہ راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں۔ کانفرنس کے کم و بیش سبھی شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے لیے دونوں فریقوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ ملک میں امن کے قیام کے لیے یہ مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور وطن عزیز کے امن اور سلامتی کے ساتھ ساتھ بیرونی سازشوں کی روک تھام کے لیے بھی ان مذاکرات کی کامیابی ضروری ہے۔
کانفرنس میں بیشتر مقررین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ مذاکرات کے حوالہ سے میڈیا کے بہت سے حلقوں کا کردار مثبت اور ذمہ دارانہ نہیں ہے اور وہ سیکولر لابیوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے مذاکرات کے بارے میں منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ کانفرنس میں بعض مقررین نے کہا کہ ملک میں اصل مسئلہ دستور کا نہیں بلکہ دستور پر عملدرآمد کا ہے، اگر حکومت نے دستوری وعدوں کے مطابق ملک میں اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ کی طرف مثبت پیشرفت کی ہوتی تو جس صورتحال کا ہمیں آج سامنا ہے وہ سرے سے پیش ہی نہ آتی۔
بعض مقررین نے کہا کہ نفاذِ شریعت صرف طالبان کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مطالبہ ہے اور خود دستور پاکستان کا تقاضہ ہے، اس لیے اسے صرف طالبان کے کھاتے میں ڈال کر قیام پاکستان کے اس بنیادی مقصد کو نہ پس پشت ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت کم کی جا سکتی ہے۔
کانفرنس میں طالبان کی طرف سے مذاکرات میں شریک ٹیم کے ارکان مولانا سمیع الحق، مولانا سید محمد یوسف شاہ اور پروفیسر محمد ابراہیم نے شرکاء کو صورتحال سے آگاہ کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ اگر انہیں موقع دیا گیا تو وہ مذاکرات کو مثبت پیشرفت کی جانب لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ملک کے مختلف مکاتبِ فکر کے راہنماؤں کے اس مشترکہ اجلاس میں مذاکرات میں پیشرفت اور ان کی کامیابی کے لیے جس امید کا اظہار کیا ہے ہم بھی اس میں ان کے ساتھ شریک ہیں۔ اور اگرچہ اس کے بعد کے بعض افسوسناک واقعات نے امید کے اس پہلو کو مجروح کیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم توقع رکھتے ہیں کہ دونوں ٹیمیں ان رکاوٹوں پر قابو پانے اور مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ملک و قوم کو امن و سلامتی کی نوید دینے میں کامیاب ہو جائیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔