افغانستان کے سابق فرمانروا ظاہر شاہ کم و بیش تیس سال کی جلاوطنی کے بعد گزشتہ روز وطن واپس پہنچے ہیں۔ انہیں تقریباً تیس برس قبل عین اس وقت جبکہ وہ بیرون ملک دورے پر تھے، داؤد خان نے معزول کر کے ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد سے ظاہر شاہ روم میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔
اس دوران ان کے ملک پر روسی افواج نے قبضہ کر لیا اور افغانستان کے علماء کرام اور غیور دیندار عوام نے روسی جارحیت کے خلاف علمِ جہاد بلند کر کے لاکھوں جانوں کی قربانی دی اور روسی فوجوں کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ مگر افغانستان پر ایک عرصہ تک حکومت کرنے والے ظاہر شاہ کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے نجات دلانے کی جدوجہد میں کوئی حصہ ڈال سکیں۔ البتہ افغانستان میں مجاہدین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور سابقہ لبرل ماحول کو بحال کرنے کے لیے ان کا نام وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہا، اور مجاہدین کے اقتدار کا راستہ روکنے کے لیے ان کی وطن واپسی کوششیں ہوتی رہیں۔
اس کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی اور طالبان نے افغانستان کے بڑے علاقہ کو خانہ جنگی سے نجات دلا کر ایک مستحکم حکومت کے ذریعے امن بحال کیا تو افغانستان کے اس سابق فرمانروا کو ان کے حق میں کلمۂ خیر کہنے کی توفیق نہ ہوئی۔ البتہ جب طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف امریکہ کی قیادت میں عالمی اتحاد قائم ہوا، اور قوت و طاقت کے زور پر ایک نوزائیدہ اسلامی ریاست کو بہرحال کچل دینے کی کاروائی منظم کی گئی، تو اس کاروائی کو ظاہر شاہ کی مکمل حمایت و تائید حاصل تھی۔ اور افغانستان کے نہتے اور غریب عوام پر جو قیامتِ صغرٰی بپا ہوئی اس میں ظاہر شاہ کا پورا پورا ہاتھ کارفرما تھا۔
اور آج اسی کاروائی کو استحکام دینے اور افغانستان کے قبائل کو نئے امریکی نظام کی حمایت پر آمادہ کرنے کے لیے ظاہر شاہ کو افغانستان لایا گیا تاکہ ان کے بڑھاپے کو افغانستان میں امریکی پروگرام کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ مگر افغانستان کے اس ۸۷ سالہ سابق فرمانروا کو شاید اس بات کا پوری طرح اندازہ نہیں ہے کہ وقت بہت آگے بڑھ چکا ہے، حالات نے تبدیلی کے کئی مراحل طے کر لیے ہیں، اور افغانستان کے عوام نے دین اور جہاد کے عنوان سے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنی دینی روایات اور افغان کلچر کی اقدار کو اور زیادہ مستحکم کر لیا ہے، جنہیں بمباری اور بربریت کے زور سے وقتی طور پر دبایا تو جا سکتا ہے لیکن افغان عوام کو ان دینی اقدار اور افغان ثقافت سے محروم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
ظاہر شاہ کی واپسی پر کابل میں قندھار کے گورنر گل آغا نے ان کے اعزاز میں جس دعوت کا اہتمام کیا، اس میں روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ اپریل ۲۰۰۲ء کی خبر کے مطابق ۸۷ سالہ ظاہر شاہ نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کر کے اپنی آمد کے مقاصد کو واضح کیا ہے، اور افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کے لیے گزشتہ تیس برس کے دوران آگ اور خون کا دریا عبور کرنے والے مجاہدین اور لاکھوں شہداء کے بارے میں ان کی خاموشی نے ان کے دل کی کیفیت کو ظاہر کر دیا ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ مجاہدین اور شہداء کی عظیم قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہ بالآخر روسی استعمار اور اس کے حواریوں کی طرح امریکی استعمار اور اس کے حواریوں کے تسلط سے بھی افغانستان کو نجات دلانے میں کامیاب ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔