سودی نظام، وفاقی شرعی عدالت اور حکومتِ پاکستان

   
مارچ ۱۹۹۹ء

حکومتِ پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت میں ایک نئی درخواست دائر کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے چند سال قبل سودی نظام کو غیر شرعی قرار دینے کا جو فیصلہ دیا تھا اس پر نظرثانی کی جائے۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے اس درخواست کی جو تفصیلات ۱۴ فروری ۱۹۹۹ء کی اشاعت میں پیش کی ہیں ان کے مطابق درخواست میں کہا گیا ہے کہ سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا کوئی بھی فیصلہ سودی نظامِ معیشت کے مشکل اور پیچیدہ مسائل کا حل پیش نہیں کرتا۔

وفاقی شرعی عدالت نے جب سودی نظام کو غیر شرعی قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت بھی سرکاری حلقوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ بلاسود بینکاری کا کوئی متبادل نظام موجود نہیں ہے اور نہ ہی علماء کرام اس کے بارے میں کوئی راہنمائی کر رہے ہیں، اس لیے سودی نظام کو ختم کرنا عملاً ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ حکومتِ پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر کے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا تھا جس کے باعث ملک میں اب تک سودی نظام کا تسلسل باقی ہے، ورنہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں سودی نظام کے خاتمے کا وقت متعین کر دیا تھا، اور اگر اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کی جاتی تو سودی سسٹم کئی سال پہلے ملک کے بینکوں اور دیگر اداروں سے ختم ہو چکا ہوتا۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کے دینی حلقوں کی طرف سے ایک عرصہ سے حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اگر وہ اسلامی نظام کے دعویٰ میں مخلص ہے تو سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپیل واپس لے کر سود کے خاتمے کی راہ ہموار کرے۔ اور اسی مسلسل دباؤ کی وجہ سے حکومت نے سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لینے کی درخواست دائر کر دی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وفاقی شرعی عدالت میں بھی یہ درخواست دے دی ہے کہ وہ سود کے خلاف اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

ہم اس موقع پر اپنے قارئین کو اس درخواست کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ بلا سود بینکاری کا متبادل نظام موجود نہ ہونے کے بارے میں حکومتی دعویٰ قطعی طور پر خلافِ واقعہ اور بے بنیاد ہے، اس لیے کہ

  • اب سے پندرہ سال قبل ۱۹۸۴ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ جناب غلام اسحاق خان، جو بعد میں صدر مملکت بھی ہوئے، اپنی بجٹ تقریر میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ

    ’’بینکاری نظام سے ربا کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اور جامع پروگرام اسٹیٹ بینک اور قومی کمرشل بینکوں کے مشورہ سے وضع کر لیا گیا اور اس پروگرام کا اطلاق تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں بشمول غیر ملکی بینکوں، مالیاتی اداروں کے ہو گا۔‘‘ (روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۵ جون ۱۹۸۴ء)

    اس بجٹ تقریر میں وفاقی وزیر خزانہ نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اس ’’ٹھوس اور جامع پروگرام‘‘ کے تحت ملک کا اگلے سال (یعنی ۱۹۸۵ء۔۱۹۸۶ء) کا بجٹ قطعی طور پر غیر سودی ہو گا۔

  • پھر اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے بلا سود بینکاری کے بارے میں ایک جامع رپورٹ حکومت کو پیش کر رکھی ہے جس کی پیشانی پر ’’صرف سرکاری استعمال کیلئے‘‘ کا لیبل چسپاں کر کے اس کی عام اشاعت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
  • اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر جناب آئی ایم حنفی کی مفصل رپورٹ اس سلسلہ میں موجود ہے جس میں بلا سود بینکاری کا جامع خاکہ پیش کیا گیا ہے۔
  • اور حالیہ برسوں میں وفاقی وزیر مذہبی امور راجہ محمد ظفر الحق کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹی نے اس سارے کام کو جمع کر کے معیشت کے ملکی و بین الاقوامی ماہرین کی مشاورت کے ساتھ بلاسود بینکاری کے متبادل نظام کو حتمی شکل دے دی ہے، جس کا اظہار راجہ صاحب موصوف کئی بار قومی اخبارات میں کر چکے ہیں۔ اور راقم الحروف سے ایک ملاقات میں انہوں نے پورے اعتماد اور عزم کے ساتھ کہا تھا کہ اب اس سلسلہ میں کوئی اشکال باقی نہیں رہا اور ملک سے سودی نظام کا خاتمہ یقینی ہو چکا ہے۔

لیکن اس سب کچھ کے بعد وفاقی شرعی عدالت میں حکومت کی طرف سے فیصلے پر نظرثانی کی نئی درخواست سامنے آ گئی ہے جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ حکومت ملک سے سودی نظام کے خاتمے میں قطعی طور پر سنجیدہ نہیں ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter