نظریۂ ضرورت اور ایڈہاک ازم

   
تاریخ : 
۲۶ مارچ ۲۰۰۷ء

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کے معاملہ نے اس قدر حیران و ششدر کر رکھا ہے کہ کئی بار قلم اٹھانے کے باوجود اس کالم کے لیے کچھ نہ لکھ سکا اور یہ زندگی کا پہلا تجربہ ہے۔ روزنامہ پاکستان لاہور میں اپنے ہفتہ وار کالم ”نوائے قلم“ کے لیے ایک مختصر سا مضمون لکھنے کے بعد قلم کو بریک سی لگ گئی اور بمشکل آج ذہن کو آمادہ کر پا رہا ہوں کہ اس کے بارے میں پھر قلم اٹھاؤں اور جو کچھ سامنے آ چکا ہے اس کے بارے میں کچھ معروضات قارئین کی خدمت میں پیش کر دوں۔

جسٹس افتخار محمد چودھری نے جس انداز سے عدالت عظمیٰ کی سربراہی کے منصب پر اپنی کارکردگی کو آگے بڑھایا اس کے بارے میں کئی بار دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ انہیں کسی آزمائش سے بچا لیں مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے اور بہتری بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں ہوتی ہے کہ جس بات میں بظاہر شر ہی شر نظر دکھائی دے رہا ہوتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو نکل آتا ہے۔

جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بہت سے فیصلوں سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ ہر فیصلہ اپنی آزادانہ مرضی اور رائے سے کرتے ہیں اور عوامی تاثر یہ بن چکا ہے کہ ان کے کسی فیصلے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن کسی طرح بھی نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کسی دباؤ یا وقتی مصلحت کی خاطر کیا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں ہر محب وطن پاکستانی کی یہ آرزو چلی آرہی کہ وہ اس مقام پر فائز ہو کہ اس کے فیصلوں کی آزادانہ حیثیت کے بارے میں کسی شک و شبہ کا اظہار نہ کیا جا سکے۔ ہمارے بہت سے جج صاحبان نے اس سلسلہ میں شاندار روایات قائم کی ہیں جو عدلیہ کی تاریخ میں ہمیشہ سنگ میل رہیں گی اور بہت سے جسٹس صاحبان نے یہ کہا کہ جب انہوں نے محسوس کیا کہ وہ عدلیہ کے لیے باہر سے درآمد کیے گئے سسٹم کے ساتھ نہیں چل سکیں گئے تو انہوں نے خاموشی کے ساتھ کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس کام کے لیے خود کو پیش نہیں کیا لیکن اس کے باوجود یہ صورتحال بھی قوم کے سامنے ہے کہ جب بھی کوئی طالع آزما جبر اور قوت کے بل پر آگے بڑھا ہے اور اس نے دستور و جمہوریت کی بساط لپیٹ کو قوم کے وسیع تر مفاد کو اپنے اختیار و جبر کے ساتھ وابستہ کر لیا تو اسے ہماری محترم عدلیہ سے اس جواز کا سرٹیفیکیٹ لینے میں کوئی زیادہ دقت پیش نہیں آئی اور ”نظریہ ضرورت“ کے تقاضے اس قدر وسعت اختیار کرتے گئے ہیں کہ دستور و جمہوریت کا معیار و تصور بھی اسی کے سانچے میں ڈھلتا چلا گیا ہے اور آج قومی زندگی کا ہر شعبہ

ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا

کا منظر پیش کر رہا ہے جس کا اردو میں ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ جب آپ انگور کی بیلوں کو پھیلانے کے لیے کیکر کے درخت پر چڑھا دیں گئے تو کوئی گچھا بھی زخمی ہونے سے محفوظ نہیں رہے گا، آج ہماری پوری کی پوری قومی زندگی نظریہ ضرورت اور ایڈہاک ازم کے کیکر پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کا ہر گچھا زخموں سے چور کراہ رہا ہے۔

پاکستان کے بیوروکریٹ آمر غلام محمد کو دستور ساز اسمبلی توڑ دینے پر ہماری فیڈرل کورٹ نے سند جواز فراہم کی تو یہ سند جواز ہمیشہ کے لیے روایت بن گئی اور اس کے بعد اب تک جس آمر نے بھی دستوری عمل اور دستوری اداروں کو کراس کرنے کے لیے یہ سند مانگی ہے اسے نظریۂ ضرورت کے تحت کسی وقت کے بغیر ملتی چلی گئی ہے۔ اگر آج کے عدالتی بحران کے اسباب و عوامل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو اس کا شجرۂ نسب جسٹس محمد منیر کے اس فیصلے سے جا ملے گا جس نے نہ صرف عدلیہ اور مقننہ جیسے دو بڑے قومی اداروں کی دیواروں کے نیچے ڈائنامائٹ فٹ کر دیا بلکہ ایک اور ادارے کو درمیان میں گھس آنے کا راستہ بھی دکھایا جس کا ان اداروں کے ساتھ کوئی عملی واسطہ نہ تھا، لیکن اگر کسی کو راستہ نظر آتا ہو بلکہ خود گھر میں گھس آنے کا راستہ دکھانے والے موجود ہوں اور آنے والے کے پاس طاقت و قوت بھی ہو تو آنے والے کو کون روک سکتا ہے؟ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے اور ہم اس کے زخم چاٹنے اور مزید زخموں کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔

پاکستان کا قیام اسلام اور جمہوریت کے عنوان سے وجود میں آیا تھا جس کے لیے یہ اصول پیش کیا گیا کہ پاکستان میں حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کی ہو گی جو قرآن و سنت کے دائرہ میں رہتے ہوئے نظام حکومت چلائیں گے۔ اس اصول پر ملک کے تمام طبقوں نے اتفاق کیا اور سیاسی و دینی جماعتیں بھی اس کے لیے شانہ بشانہ ہو گئیں، لیکن جب بھی ملک میں اسلام یا جمہوریت کی بالادستی کے تعین کے لیے فیصلہ کن وقت آیا، ایڈہاک ازم اور نظریۂ ضرورت کی ریڈلائن نے راستہ روک دیا۔ ہمارے نزدیک غلام محمد کو دستور ساز اسمبلی توڑنے کے لیے نظریۂ ضرورت کے تحت جسٹس محمد منیر کی طرف سے سند جواز فراہم کیا جانا اور دستور پاکستان کی باقی دفعات پر ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی برتری کو تسلیم کرنے سے جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا انکار دونوں ایک ہی طرح کے فیصلے ہیں۔ ایک نے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتار دیا اور دوسرے فیصلے نے ملک کے دستوری و قانونی معاملات پر اسلامی اصولوں کی عملی بالادستی کو بریک لگا دی اور ہم کولہو کے بیل کی طرح ایک آمر سے نجات حاصل کرنے اور دوسرے کے انتظار کرنے کے ایک ہی دائرے میں چکر کاٹتے چلے جا رہے ہیں۔

اس پس منظر میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فیصلوں نے کچھ ڈھارس بندھائی اور امید کی ایک کرن نظر آنے لگی کہ قومی زندگی کے گرد ایڈہاک ازم اور نظریۂ ضرورت کی ریڈ لائنوں کا حصار شاید مدھم پڑنے لگا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے بارے میں ان کے فیصلے نے مستقبل کے بارے میں امید کے کئی چراغ روشن کر دیے اور ملک کے عام شہریوں کی مشکلات اور حقوق کے حوالہ سے ان کے از خود نوٹس لینے کی پالیسی نے عوام کے اس احساس کو زندہ کیا کہ ہمارے عدالتی سسٹم میں ان کی دادرسی کے امکانات بھی موجود ہیں۔

جہاں تک جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس اور اس میں الزامات کی فہرست کا تعلق ہے، یہ معاملہ سپریم جوڈیشیل کونسل کے سپرد ہے اور وہی اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ حکومت کے پاس اگر اپنے چیف جسٹس کے خلاف شکایات اور الزامات موجود ہیں تو انہیں سپریم جوڈیشیل کونسل تک لے جانا حکومت کا حق ہے، اور جسٹس افتخار محمد چوہدری خود کو ان الزامات سے بری الذمہ سمجھتے ہیں تو کونسل میں اپنا دفاع کرنا اور اس بات کو غلط ثابت کرنا ان کا حق ہے۔ یہ بات اگر اسی دائرے میں آگے بڑھتی تو کسی شخص کو شکایت کا کوئی حق حاصل نہیں تھا لیکن انتظامی اور حکومتی سطح پر اس کے لیے جو طریق کار اختیار کیا گیا ہے اور ملک کے عوام نے اس کے جو مناظر میڈیا کے ذریعے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ اس قدر مکروہ اور بھونڈے ہیں کہ ہر شریف شہری چیخ اٹھا ہے۔ اس نے ملک بھر کی وکلاء برادری کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے اور ملک کی دینی و سیاسی جماعتیں بھی اس میں ان کی ہم آواز ہیں۔

ہمارے خیال میں اس معاملہ کا سب سے زیادہ روشن پہلو یہی ہے کہ عدلیہ کی آزادی، بالادستی اور وقار و احترام کے احساس نے دلوں میں کروٹ لی ہے اور یہ جذبہ بیدار ہو رہا ہے کہ قومی اداروں میں سے کسی ایک ادارے کو تو اس کے جائز مقام پر رکھا جائے، امید کی کسی ایک کرن کو تو باقی رہنے دیا جائے اور عدل و انصاف کے کسی ایک معیار کو تو مزید نیچے گرنے سے روک دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ ہمیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ہر بات سے اتفاق ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم وکلاء برادری کے تمام مطالبات سے متفق ہوں لیکن جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے متعدد فیصلوں اور پھر مستعفی ہونے سے انکار کے ذریعے ایک باوقار اور باکردار جج کا جو تصور زندہ کیا ہے اور ملک بھر کی قانون دان برادری جس طرح ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے، ہم اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں عدلیہ کی بالادستی اور احترام کے تحفظ کی اس جدوجہد میں کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔ باقی رہیں ہماری شکایات تو ان کا سلسلہ بھی چلتا رہے گا اور ان کے اظہار میں ان شاء اللہ تعالیٰ ہم کوئی جائز موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter