۲۰۲۸ء تک سودی نظام کے خاتمہ کے اعلان کا خیرمقدم
تحریکِ انسدادِ سود پاکستان کی تنظیمِ نو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں شبانِ ختمِ نبوت کے زیراہتمام منعقد ہونے والے کل جماعتی اجلاس میں تحریکِ انسدادِ سود پاکستان کے کنوینر مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ نئی آئینی ترمیم میں سودی نظام کے خاتمہ کے لیے ۳۱ دسمبر ۲۰۲۷ء کو آخری تاریخ طے ہونے پر ہمیں خوشی ہے کہ دستوری طور پر حکومت کو پابند کر دیا گیا ہے کہ یکم جنوری ۲۰۲۸ء تک ملک کو سودی نظام سے بہرحال نجات دلائے۔ اس دستوری وعدہ کی پابندی کے لیے ہمیں ملک میں ہمہ گیر اور منظم جدوجہد کرنا ہو گی اور اس کے لیے ماحول بنانا ہو گا۔
اس موقع پر جمعیت اہل حدیث کے راہنما حافظ محمد سعید کلیروی، جمعیت علماء اسلام کے راہنما حاجی بابر رضوان باجوہ اور مولانا حافظ گلزار احمد، جمعیت علماء اسلام کے راہنما صاحبزادہ پیر نصیر احمد اویسی، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے راہنما جناب وحید الحق ہاشمی ایڈووکیٹ، جماعت اہلحدیث کے راہنما مولانا سلیمان شاکر و دیگر جماعتوں کے راہنما موجود تھے۔ ان راہنماؤں نے باہمی مشورہ سے طے کیا کہ اس مقصد کے لیے انسدادِ سود کی جدوجہد کے سالہا سال سے کام کرنے والے تمام مکاتبِ فکر کے مشترکہ فورم تحریکِ انسدادِ سود پاکستان کو ازسرنو منظم و متحرک کیا جائے گا اور اس کا آغاز گوجرانوالہ سے ہو گا۔ طے پایا کہ اس سال میں ۳۱ اکتوبر بروز جمعرات مرکز عثمان اہل حدیث گوجرانوالہ میں جماعت اہل حدیث کی میزبانی میں کل جماعتی مشاورتی اجلاس ہو گا جس میں آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا، ان شاء اللہ العزیز۔
مولانا زاہد الراشدی کا چیمبر آف کامرس گوجرانوالہ کا دورہ
تحریک انسداد سود پاکستان کے کنوینر اور مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب مولانا زاہد الراشدی نے ۳۰ اکتوبر کو چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز گوجرانوالہ کا دورہ کیا اور چیمبر کے نومنتخب عہدیداروں کو منتخب ہونے پر مبارکباد دینے کے علاوہ چیمبر کے صدر رانا محمد صدیق خان اور دیگر عہدہ داروں سے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کیا۔ انہوں نے چیمبر کے جنرل اجلاس سے بھی خطاب کیا اور تجارت و صنعت کے شرعی احکام و مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ تجارت و معیشت کو اسلامی احکام و قوانین کے مطابق چلانا نہ صرف ہماری شرعی ذمہ داری ہے بلکہ پاکستان کے قیام کا مقصد بھی ہے اور برکات و ثمرات کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے چیمبر کے عہدہ داروں کو تحریک انسداد سود پاکستان کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا اور تاجر برادری کو اس مہم میں شریک ہو کر مؤثر کردار ادا کرنے کی دعوت دی۔ چیمبر کی نومنتخب قیادت نے تحریک انسداد سود کے حوالہ سے مولانا زاہد الراشدی کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، حافظ عبد الجبار اور عبد القادر عثمان بھی ان کے ہمراہ تھے۔
مفکرِ اسلام مولانا زاہد الراشدی کی مجلس میں!
مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کو درس و تدریس، تصنیف و تالیف، تعلیم و تربیت، تقریر و تحریر اور دعوت و تبلیغ کرتے ہوئے تقریبا ً ۶۰ سال ہو چکے ہیں۔ آپ کے پاس نصف صدی کا تجربہ ہے۔ علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ فن ابلاغ پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ سیر و تفریح کا بھی ذوق و شوق رکھتے ہیں۔ حس مزاح بھی خوب ہے۔ استاذ الاساتذہ ہیں ۔ تاریخ اسلام کے اہم اہم واقعات نوکِ زبان ہوتے ہیں۔ دینی مدارس اور کالج یونیورسٹی کے اساتذہ و طلباء میں یکساں مقبول ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کے اسفار کر چکے ہیں۔ قوموں کی کیفیات سے بخوبی واقف ہیں۔ ملکی و عالمی حالات کو درست نہج میں سمجھتے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور دیگر تعلقات کی نفسیات کے نباض ہیں۔ آپ کو معاشرے کی آنکھ کہا جا سکتا ہے۔ ہر فن مولا ہیں۔ یاروں کے یار اور دل بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ کسی بھی موضوع پر سوال کر لیں۔ آپ کو نپے تلے انداز میں معقول جواب ملے گا۔ ایسی شخصیات کا وجود ہمارے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف کے خصوصی انعام و کرم ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم حضرت کی خوب خوب قدر کریں۔ آپ کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ آپ کی فکر و فلسفہ کو سمجھ کر اپنے لیے راہیں متعین کریں۔
گزشتہ کل جامعۃ الرشید کراچی کے چمن میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام تھا۔ ہم بھی اس میں شریک تھے ۔ علیک سلیک کے بعد حضرت نے فرمایا کہ علماء اور اہلِ علم کے ساتھ ایسی نشستوں کو مشاورت کا نام دینا چاہیے۔ تربیتی نشست نہیں کہنا چاہیے۔ چنانچہ آج کی یہ نشست بھی مشاورتی نشست ہی کہلائے گی ۔ پھر حضرت نے صرف دو باتیں ارشاد فرمائیں ۔ پہلی بات اپنے تجربات سے یہ کہی کہ آج سے تیس چالیس سال پہلے تک نوجوان اور عوام جب علماء کرام اور اہل علم کے پاس آ کر کوئی سوال کرتے، مسئلہ پوچھتے اور دینی رہنمائی چاہتے تو عالم دین اور مذہبی رہنما ء، جو بھی جواب دیتا، اسے وہ من و عن قبول کر لیتا تھا، کیونکہ وہ خالی الذہن ہوتا تھا، لیکن آج کل جو آتا ہے وہ گوگل اور دیگر ذرائع سے کچھ نہ کچھ معلومات حاصل کر کے ہی آتا ہے۔ وہ خالی اندھی ہر گز نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے وہ عالم دین اور مذہبی رہنماء کی بات آسانی سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا علماء کرام کو چاہیے کہ وہ عقلی و نقلی دلائل سے انہیں سمجھائیں اور اچھے انداز میں قائل کرنے کی کوشش کریں ۔ ان کے اشکالات پر غصہ ہونے کے بجائے مدلل جوابات دیں، ورنہ وہ آپ سے بدظن ہو کر الحاد کی طرف چلے جائیں گے۔
مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی صاحب نے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اپنے بیانات، خطیات، لیکچرز اور تقریر و تحریر میں جدید علوم و فنون اور سائنس و فلسفے کا ٹچ بھی دیں ۔ آج جدید دور کے ذہن کو اپنی بات سمجھانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے ۔ اور پھر حضرت نے اس پر کئی مثالیں، واقعات اور تجربات ارشاد فرمائے۔ اس کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی ۔ عالمی حالات سے لے کر معاشرتی مسائل تک تقریباً ہر موضوع پر سوالات ہوئے ۔ حضرت نے ہر ایک کا سوال بڑی توجہ سے سنا اور پھر اپنے تجربات کی روشنی میں نپے تلے انداز میں مدلل جواب دیے۔ سوشل میڈیا کے موضوع پر سوال کے جواب میں حضرت نے فرمایا کہ یہ اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے ۔ اس سے سیکھنے کی کوشش نہ کریں ۔ سیکھنے کے لیے مستند کتب کا مطالعہ، اکابر اساتذہ کرام کی مجالس، اہل اللہ کی صحبت اور قرآن و حدیث ہیں۔ نوجوانوں کی فکری آزادی اور الحاد کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کے سوال کے جواب میں کہا کہ اس میں سوشل میڈیا پر گمراہ کن مواد، فحش ڈراموں، بے ہودہ فلموں، مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب و ثقافت اپنانے اور اپنے اکابر بزرگان دین سے دوری ،یہ ایک بڑا سبب ہے۔ اس کے علاوہ اور اسباب بھی ہیں۔ پھر اس کا حل بھی تجویز کیا کہ کس طرح نئی جنریشن کی تربیت کریں۔
اسٹیبلشمنٹ سے مذہبی جماعتوں کے تعلقات کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میرا ۶۰ سالہ تجربہ اور ملکی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان سے محاذ آرائی بھی اچھی نہیں اور ان سے گہری دوستی بھی مناسب نہیں۔ بس اپنے کام سے کام رکھیں ۔ دوستی اور مخالفت کے درمیان درمیان رہیں۔ ”کیا کبھی پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی حکومت آ سکتی ہے؟“ کے جواب میں اپنے تلخ تجربات اور ۷۷ سالہ ملکی تاریخ کے کا آئینہ دکھاتے ہوئے گویا ہوئے کہ نہیں ہرگز نہیں۔ سیاسی مذہبی جماعتیں ہمیشہ پریشر گروپ کے طور پر ہی رہیں گی …… اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت ہو، تمام شعبوں کے اندر ہو، تو اس کے لیے ہمیں ہر سطح پر محنت کرنی پڑے گی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے سوالات ہوئے، ان کے تسلی بخش جوابات دیے گئے، ان کا جواب ہم ان شاء اللہ اگلی نشست میں دیں گے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم: جامعہ انوار القـرآن کراچی میں اجلاس
پاکستان شریعت کونسل کراچی کے زیر اہتمام جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن میں منعقدہ سرکردہ علماء کرام کے اجتماع میں دینی جماعتوں اور مراکز پر زور دیا گیا حالیہ آئینی ترامیم میں (1) سودی نظام کے یکم جنوری ۲۰۲۸ء سے قبل خاتمہ (2) دینی مدارس کی رجسٹریشن اور اکاؤنٹ سسٹم (3) وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد (4) اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کے حوالے سے جو مثبت فیصلے سامنے آئے ہیں، انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے منظم اور مؤثر عوامی جدوجہد کی ضرورت ہے جس پر سب حلقوں کو سنجیدہ توجہ دینی چاہئے۔
یہ اجلاس جامعہ انوار القرآن کے مہتمم مولانا حسین احمد درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں تحریک انسداد سود پاکستان کے سربراہ مولانا زاہد الراشدی، پاکستان شریعت کونسل صوبہ سندھ کے امیر مولانا قاری اللہ داد، مولانا حافظ احمد علی، مفتی حبیب احمد درخواستی اور دیگر شرکاء اجلاس نے خطاب کیا، جبکہ علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد اس میں شریک ہوئی۔
مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ ان فیصلوں بالخصوص سودی نظام کے خاتمے کے لیے بھر پور اور ہمہ گیر جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے ورنہ یہ فیصلے فائلوں میں دبے رہ جائیں گے۔ انہوں نے کہا اس سلسلہ میں مختلف مکاتب فکر کے مشترکہ فورم ’’تحریکِ انسدادِ سود پاکستان‘‘ کو ازسرنو متحرک و منظم کیا جا رہا ہے جس میں دینی مکاتیب فکر کے راہنماؤں کے علاوہ تاجر برادری وکلاء حضرات حضرات اور دیگر طبقات کے قائدین کو شریک کیا جائے گا، اور سودی نظام کے مقررہ وقت سے پہلے خاتم کے لیے جدوجہد کو منظم کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مولانا قاری اللہ داد نے کہا کہ پاکستان شریعت کونسل ملک میں نفاذ شریعت کی راہ ہموار کرنے کے لیے علمی و فکری ماحول میں کام کر رہی ہے اور کسی بھی جماعت یا مکتب فکر کے حضرات اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ و عملداری کی اس علمی و فکری محنت میں شریک ہو سکتے ہیں۔
سودی نظام کے مقررہ وقت سے پہلے خاتمہ کے لیے جدوجہد کو منظم کیا جائے گا
گوجرانوالہ (نمائندہ خصوصی) پاکستان شریعت کونسل کراچی کے زیر اہتمام جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن میں منعقدہ سرکردہ علماء کرام کے اجتماع میں دینی جماعتوں اور مراکز پر زور دیا گیا (کہ) حالیہ آئینی ترامیم میں (۱) سودی نظام کے یکم جنوری ۲۰۲۸ء سے قبل خاتمہ (۲) دینی مدارس کی رجسٹریشن اور اکاؤنٹ سسٹم (۳) وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد (۴) اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کے حوالے سے جو مثبت فیصلے سامنے آئے ہیں، انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے منظم اور مؤثر عوامی جدوجہد کی ضرورت ہے، جس پر سب حلقوں کو سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔
یہ اجلاس جامعہ انوار القرآن کے مہتمم مولانا حسین احمد درخواستی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں تحریک انسداد سود پاکستان کے سربراہ مولانا زاہد الراشدی، پاکستان شریعت کونسل صوبہ سندھ کے امیر مولانا قاری اللہ داد، مولانا حافظ احمد علی، مفتی حبیب احمد درخواستی اور دیگر شرکاء اجلاس نے خطاب کیا، جبکہ علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد اس میں شریک ہوئی۔
مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ ان فیصلوں بالخصوص سودی نظام کے خاتمے کے لیے بھرپور اور ہمہ گیر جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے ورنہ یہ فیصلے فائلوں میں دبے رہ جائیں گے۔ انہوں نے کہا، اس سلسلہ میں مختلف مکاتبِ فکر کے مشترکہ فورم ’’تحریکِ انسدادِ سود پاکستان‘‘ کو ازسرِ نو متحرک و منظم کیا جا رہا ہے جس میں دینی مکاتب فکر کے راہنماؤں کے علاوہ تاجر برادری، وکلاء حضرات، اور دیگر طبقات کے قائدین کو شریک کیا جائے گا اور سودی نظام کے مقررہ وقت سے پہلے خاتمہ کے لیے جدوجہد کو منظم کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مولانا قاری اللہ داد نے کہا کہ پاکستان شریعت کونسل ملک میں نفاذِ شریعت کی راہ ہموار کرنے کے لیے علمی و فکری ماحول میں کام کر رہی ہے اور کسی بھی جماعت یا مکتبِ فکر کے حضرات اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ و عملداری کی اس علمی و فکری محنت میں شریک ہو سکتے ہیں۔
سیٹیزن پروٹیکشن کونسل گوجرانوالہ کا اجلاس
پریس ریلیز (گوجرانوالہ) شہری حقوق کے تحفظ کی تنظیم سیٹیزن پروٹیکشن کونسل گوجرانوالہ کا اہم اجلاس مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں سرپرست اعلیٰ مولانا زاہد الراشدی کی زیرِ صدارت منعقد ہوا جس میں روز بروز شہر میں بے ہنگم ٹریفک جام، تجاوزات، اور شہریوں کے دیگر مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اور ضلعی انتظامیہ اور افسران ٹریفک پولیس سی ٹی او سے مطالبہ کیا کہ تجاوزات اور ٹریفک معاملات کے بہتر حل کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ شرکاء اجلاس نے مطالبہ کیا کہ ٹیچنگ ہسپتال کی تعمیر نو کے نام پہ ناقص مرمت پہ مریض اور جملہ شہری گہری تشویش کا شکار ہیں، کوئی اس پہ نگہبان نہیں جو معیاری تعمیر کو بروئے کار لا کر جلد مریضوں کی سہولیات کے انتظامات کی دستیابی ممکن بنائے۔
اس کے علاوہ قومی سطح پر معاملات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ زاہد الراشدی نے کہا کہ توہین رسالت کے قانون میں ترمیم قطعاً قابل قبول نہیں اس قانون پہ مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جائے، جبکہ اس حوالے سے غیر متعلقہ افراد کو بعض کیسز میں بلا وجہ شامل کرنے کی جو شکایات ہیں ان کی قومی سطح پہ اعلیٰ عدالتوں سے تحقیقات کروائی جائیں، جو توہین میں ملوث ہیں ان کو جلد قرار واقعی سزا دی جائے اور جو بے گناہ ہیں انہیں انصاف کے تقاضوں کے مطابق انصاف مہیا کیا جائے۔ علامہ راشدی نے دینی مدارس اور بالخصوص منڈی بہاؤ الدین کے جامعہ طالبات کے واقع پہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران کی طرف سے فوری اقدام کا بھی خیر مقدم کیا۔
اجلاس میں سیٹیزن پروٹیکشن کونسل کے صدر حاجی بابر رضوان باجوہ، سیکرٹری جنرل مولانا امجد محمود معاویہ، قاری محمد ریاض، مولانا قاضی مراد اللہ خان، حافظ عبد الجبار، اور عبد القادر عثمان نے شرکت کی۔
الشریعہ اکادمی میں پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس
پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلسِ عاملہ کا اہم اجلاس الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں صوبائی امیر مفتی محمد نعمان پسروری کی زیرِ صدارت منعقد ہوا جس میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ زاہد الراشدی نے خصوصی طور پہ شرکت کی اور شرکاء اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ دینی مدارس کی آزادی پہ کوئی حرف نہیں آنے دیں گے، اس سلسلہ میں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے اسلام آباد میں ۱۷ دسمبر کو ہونے والے مجوزہ مشترکہ اجلاس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اس سلسلے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان ملک کے تمام حلقوں کے اداروں سے رابطہ کر کے اعتماد کی فضاء کو مذاکرات کے ذریعے بحال رکھتے ہوئے علماء اور مدارس کے درمیان کسی تیسری قوت کو اس موجودہ صورت حال میں تناؤ بڑھانے کا موقع نہ دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ۲۶ویں آئینی ترمیم کہ تمام مندرجات، سود کے خاتمہ، دینی مدارس کی رجسٹریشن اور اکاؤنٹس کے اور دیگر معاملات کے حوالے سے بل پہ دستخط کر کے اس پہ عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
انہوں شام کی موجودہ تبدیلی کی صورتحال کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک مل بیٹھ کر ملک شام کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے از سر نو مستحکم حکومت تشکیل دیں۔ انہوں شرکاء اجلاس سے گفتگو میں ایک بار بھر فلسطینی مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کے بھرپور اظہار کا اعادہ کیا، اور اسرائیل کی جارحیت اور سفاکیت کو بنیادی انسانی حقوق کی کھلم کھلا مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیا۔ شام کے سرحدی علاقوں میں اسرائیل کی مداخلت کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے بھرپور مذمت بھی کی،
علامہ راشدی نے کرم ایجنسی اور پارہ چنار میں بد امنی کی صورتحال پہ تشویش کا اظہار کیا اور سلامتی کے اداروں سے مطالبہ کیا کہ ان مخصوص علاقوں میں انسانی جانوں کا نقصان فوری طور پر اقدامات کر کے روکا جائے کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لے کر مخالفین کے قتل عام کا ماحول پیدا کرنا، بدامنی کو فروغ دینا، امن امان کی صورتحال کو خراب کرنا، (یہ سب) قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی اور کارکردگی پہ سوالیہ نشان ہے۔
علامہ زاہد الراشدی نے پاکستان شریعت کونسل کے دستور کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مرکزی سطح پر کمیٹی دستور پہ نظر ثانی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے، ان شاء اللہ دستور کو حتمی شکل دینے کیلئے مرکزی شورٰی کا اجلاس رمضان المبارک سے پہلے منعقد ہو گا۔
اجلاس میں دیگر صوبائی راہنماؤں نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے علامہ زاہد الراشدی کے موقف اور بیانیہ کی مکمل حمایت اور تائید فرمائی۔ اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سینئر نائب امیر مولانا عبیداللہ عامر، سیکرٹری جنرل مولانا قاری عثمان رمضان، سیکرٹری اطلاعات مولانا امجد محمود معاویہ، سیکرٹری مالیات مفتی نعمان احمد، ناظم امور تعلیمات مفتی زین العابدین، مولانا عبید الرحمن معاویہ، مولانا بدر عالم چنیوٹی، مولانا سیف اللہ خالد، ڈاکٹر عبد الواحد قریشی، مولانا عابد علی نقشبندی، مولانا محمد عمیر، مولانا محمد جاوید، پروفیسر حافظ منیر احمد، پروفیسر زاہد محمود صاحب، مولانا احسن ندیم، مولانا نصر الدین خان عمر، مولانا خبیب عامر، مولانا شیراز نوید، محمد زبیر جمیل، قاری عبد الشکور، محمود الحسن، عبد القادر عثمان، محمد قاسم فاروقی، عبد الوحید وقاص، حافظ عبد الجبار، عبد الرزاق، محمد سیف اللہ، و دیگر نے شرکت کی۔
لاہور میں ایک مصروف دن!
۲۱ دسمبر ۲۰۲۴ء کا دن استاذِ گرامی حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ کے ہمراہ لاہور میں مصروف گزرا۔ حضرت استاد جی جامعہ فتحیہ اچھرہ، لاہور میں شیخ الحدیث بھی ہیں اور ہفتہ میں ایک دن جامعہ فتحیہ میں درسِ بخاری اور دیگر منتخب موضوعات پر درس بھی ارشاد فرماتے ہیں۔ جامعہ کے منتظمین نے حضرت کے ’’احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ کے عنوان پر دروس کو بڑی محنت کے ساتھ مرتب کیا اور ’’خطباتِ فتحیہ‘‘ کے نام سے کتاب بھی شائع کی۔ اسی طرح جامعہ کے ہی تحقیقی ادارے ’’دارالمولفین‘‘ کے زیرِ اہتمام حضرت مولانا محمد تقی امینی صاحب علیہ الرحمہ کی کتاب ’’احکامِ شرعیہ میں حالات و زمانہ کی رعایت‘‘ بھی شائع کی۔ دونوں کتابیں مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف صاحب کی محنت سے وجود میں آئیں، اور ان کی زندگی کے کئی برس ان کی تحقیق و تدوین میں صَرف ہوئے، اللہ تعالیٰ انہیں اس کام کا بہتر اجر عطا فرمائے، آمین۔
مذکورہ کتابوں کی تقریبِ رونمائی قائد اعظم پبلک لائبریری لاہور میں منعقد ہوئی جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ اسلامیات کے نگران پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی بطورِ مہمانِ خصوصی ہندوستان سے تشریف لائے۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی، مولانا محمد یوسف خان، ڈاکٹر اکرام الحق یاسین (سیکرٹری جنرل اسلامی نظریاتی کونسل)، حافظ میاں محمد نعمان (مہتمم جامعہ فتحیہ)، پروفیسر امجد علی شاکر، اور استاذِ گرامی حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے علاوہ دیگر مقررین نے اظہارِ خیال کیا۔ ماشاء اللہ شرکاء کی اچھی خاصی حاضری تھی اور بہت زیادہ تعداد میں اہل علم و فکر موجود تھے۔ ہر مہمان نے خوب علمی، فکری اور تحقیقی گفتگو کی (پورا پروگرام ’’دارالمولفین‘‘ کے فیس بک پیج پر دیکھا جا سکتا ہے)۔ تقریب کے دوران جناب حافظ پروفیسر ابوبکر چوہدری اور حافظ غضنفر عزیز صاحبان سے بھی ملاقات ہوئی۔
جمعیت علماء اسلام ضلع لاہور کے امیر حضرت مولانا محب النبی صاحب کی دعاء سے تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔ آخر میں تمام مہمانوں کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تقریب سے فارغ ہو کر استاذ گرامی پنجاب پبلک لائبریری تشریف لے گئے، وہاں پر موجود لائبریرین جناب عبد الصمد صاحب نے استقبال کیا، استاد جی نے بطورِ خاص راقم (خرم شہزاد)، مولانا دانیال عمر اور قاری عثمان رمضان صاحب کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہمارے عزیز ہیں، آپ کے پاس آیا کریں گے، لائبریری میں موجود رسائل و جرائد سے انہیں متعارف اور ان سے استفادے کے لیے مواقع مہیا فرمائیں۔
کچھ دیر لائبریری میں گزار کر استاد جی اپنے پوتوں (ہلال خان اور طلال خان) کے ہاں تشریف لے گئے، جو ’’یادِ حیات‘‘ کے عنوان سے اپنے دادا جان حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے انٹرویوز پر مشتمل نشستیں ریکارڈ کر رہے ہیں اور اب تک آٹھ، نو قسطیں یوٹیوب پر آچکی ہیں۔ یادِ حیات ایک بہت دلچسپ سلسلہ ہے جسے علمی و فکری حلقوں میں بہت پسند کیا جا رہا ہے۔
نشست کی ریکارڈنگ کے بعد کھانا کھایا، کھانے میں استاد زادہ جناب حافظ ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر بھی شریک تھے، ان سے عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ واپسی پر اُن کی خدمت میں استاد جی کی ایک کتاب ’’مولانا مفتی محمود، عہد ساز شخصیت‘‘ انہیں کے ہاتھوں صاحبزادہ صاحب کو پیش کی۔ اور یوں ایک مصروف ترین دن گزارنے کے بعد لاہور سے گوجرانوالہ واپسی ہوئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ
پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے آج جامعہ فتحیہ لاہور میں علماء کرام اور طلبہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہا کہ وہ امت کی اجتماعی صوابدید اور اجماعی فیصلے پر خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم منتخب ہوئے اور انہوں نے اپنے مختصر دورِ خلافت میں خلافت کے وہ بنیادی اصول واضح کیے جو قیامت تک امتِ مسلمہ کے لیے راہنمائی کرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حضرت صدیق اکبرؓ کو ان کی طلب کے بغیر امت کے مختلف طبقات نے طویل بحث و مباحثہ کے بعد متفقہ طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین بنایا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے قرآن و سنت کے خلاف چلنے پر امت کو خلیفہ کے احتساب کا حق دیا اور عام شہریوں جیسا طرز زندگی اختیار کر کے حکومت کو عوام کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔
انہوں نے کہا (۱) منتخب حکومت (۲) قرآن و سنت کی بالادستی (۳) عوام کا حقِ احتساب (۴) اور حکمرانوں کا سادہ طرزِ زندگی خلافتِ راشدہ اور خلافتِ صدیق اکبرؓ کا تعارف اور پہچان ہے اور آج بھی مسلم ممالک یہی طریقہ اختیار کر کے امتِ مسلمہ کی صحیح طور پر قیادت کر سکتے ہیں۔
مولانا زاہد الراشدی نے علماء کرام اور دینی کارکنوں پر زور دیا کہ وہ خلافتِ راشدہ کا مطالعہ کریں اور نئی نسل کو بتائیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں نے کس طرح نسلِ انسانی کو ایک مثالی معاشرہ اور نظام فراہم کیا تھا۔
الشریعہ لاء سوسائٹی کا اجلاس
چار جنوری کو مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں الشریعہ لاء سوسائٹی کا ایک اہم اجلاس جناب معظم محمود ایڈووکیٹ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مولانا زاہد الراشدی، مولانا مفتی فضل الہادی، مولانا مفتی نعمان احمد، مولانا مفتی واجد حسین، میاں فضل الرحمٰن چغتائی، فہد زمان ایڈووکیٹ، حافظ دانیال عمر، اور عبد القادر عثمان نے شرکت کی۔
اجلاس میں دینی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے عوام کی راہنمائی اور تنازعات میں شرعی اصولوں کی روشنی میں ثالثی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے الشریعہ لاء سوسائٹی کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور مفتیانِ کرام، وکلاء اور تاجر راہنماؤں کی مشاورت سے عملی طریقہ واضح کرنے کا پروگرام طے کیا گیا، جس کے لیے جناب معظم محمود ایڈووکیٹ، مفتی نعمان احمد اور میاں فضل الرحمٰن چغتائی پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے جو آئندہ دو ہفتے کے اندر ان کی تفصیلات مرتب کریں گے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ دنیا کے ہر ملک میں کونسلنگ کا نظام موجود ہے جو تنازعات کو عدالت سے باہر باہمی مصالحت کے ذریعے حل کروانے کا کردار ادا کرتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں کونسلنگ کے اس نظام کو شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں منظم کیا جائے تاکہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو اور عوام کو ان کے عقیدہ و ایمان کے مطابق اپنے تنازعات حل کرنے کی سہولت حاصل ہو۔
مداحِ رسول حافظ طاہر بلال چشتی مرحوم کی وفات پر اظہارِ رنج
آج جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کے سبق کے بعد استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی نے مداح رسول حافظ طاہر بلال چشتی مرحوم کی وفات پر اظہار رنج و غم کرتے ہوئے ان کی دینی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ پاکستان میں لوگوں کے عقائد و نظریات کی اصلاح کے لئے جن شعراء اور نعت خواں حضرات نے مسلسل خدمات سر انجام دی ہیں ان میں چشتی خاندان کے محمد بخش چشتی، احمد بخش چشتی اور ان کے بعد طاہر بلال چشتی کی جدوجہد نمایاں ہے۔ ان حضرات کی نعت خوانی اور شاعری بامقصد ہوتی تھی اور عقیدہ توحید ختمِ نبوتؐ اور ناموس صحابہ کرامؓ کے موضوعات ان کے اہم عنوانات تھے، اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائیں اور تمام لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یارب العالمین۔