صدر جنرل پرویز مشرف کے جس خطاب کا پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں انتظار کیا جا رہا تھا وہ چند دن پہلے سن لیا گیا ہے اور اس پر مختلف اطراف سے تبصروں کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ ہم اس خطاب کے مختلف پہلوؤں پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں مگر پہلے ایک فنی کوتاہی کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے جو ٹی وی پر صدر پرویز مشرف کا خطاب سنتے ہوئے ہمیں محسوس ہوئی ہے، وہ یہ کہ صدر صاحب کی تقریر کے ساتھ ساتھ نشر ہونے والے انگلش ترجمہ کا نظم معیاری نہیں تھا، میں انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے یہ تو نہیں بتا سکتا کہ ترجمہ مکمل تھا یا نہیں اور اس کی زبان معیاری تھی یا نہیں؟ البتہ (۱) یہ بات میں نے محسوس کی ہے کہ ترجمہ کرنے والے صاحب کی آواز صدر صاحب کی آواز سے بلند تھی اور اس بلند آواز کے سائے میں صدر صاحب کی آواز کو صاف طور پر سننے کے لیے مجھے ضرورت سے زیادہ توجہ سے کام لینا پڑا۔ (۲) اس کے علاوہ ایک دو جگہ مجھے محسوس ہوا کہ ترجمہ میں بعض الفاظ پہلے بول دیے گئے ہیں جبکہ صدر صاحب کے خطاب میں وہ الفاظ بعد میں سنے گئے ہیں، جس سے یہ تاثر کسی درجہ میں ہو رہا تھا کہ شاید وہ صاحب صدر محترم کے خطاب کا ترجمہ نہیں کر رہے بلکہ صدر پرویز ان صاحب کے الفاظ کا ترجمہ کر رہے ہیں۔ (۳) پھر آخر میں ترجمہ کرنے والے صاحب کو کھانسی کا جو دورہ پڑا اس نے بات اور بدمزہ کر دی۔ اس موقع کے لیے کوئی متبادل انتظام ٹی وی والوں کو موجود رکھنا چاہیے تھا، سربراہ مملکت کے خصوصی خطاب کی بات تھی اور خطاب بھی وہ جس کا پوری دنیا کو انتظار تھا، اس موقع پر اس قدر غیر معیاری پن کے مظاہرہ کی کم از کم مجھے پاکستان ٹی وی سے توقع نہیں تھی۔
اس کے بعد صدر محترم کے خطاب کے حوالہ سے پہلے مرحلہ میں ان کے ان دس سوالات پر ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے خطاب کے دوران ’’انتہا پسندوں“ سے کیے ہیں اور ایک قومی روزنامہ نے انہیں ’’صدر پرویز کے انتہا پسندوں سے دس سوالات“ کے عنوان سے ترتیب وار شائع کیا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ ’’ہزاروں پاکستانیوں کو گمراہ کرکے افغانستان میں مروانے کا ذمہ دار کون ہے؟“
ہمیں صدر محترم کی اس بات سے اتفاق ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر ہزاروں پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں البتہ اس عمل کا دورانیہ ہمارے نزدیک گزشتہ پندرہ سال پر محیط ہے۔ پاکستانیوں کو صدر پرویز مشرف کے بقول ’’گمراہ کر کے“ افغانستان لے جانے اور وہاں مروا دینے کا عمل گزشتہ پندرہ سال سے جاری ہے۔ یہ عمل اس وقت شروع ہوا تھا جب افغانستان میں سوویت یونین نے فوجیں اتاری تھیں اور افغان علماء اور عوام نے روسی افواج کی آمد کو اپنے ملک کی آزادی اور قومی خودمختاری کے خلاف حملہ تصور کرتے ہوئے مزاحمت شروع کی تھی اور جہاد کا فتویٰ دے کر گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا، اس وقت پاکستان کے دینی حلقوں نے اس جدوجہد میں افغان عوام کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور ہزاروں پاکستانی وہاں جا کر اس عسکری مزاحمت میں شریک ہوتے تھے جن میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں نے جام شہادت بھی نوش کیا تھا۔ اس وقت پاکستان کی حکومت، فوج اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک پاکستانیوں کے افغانستان جا کر روس کے خلاف لڑنے کو ’’گمراہ کر کے افغانستان میں مروانے“ کا عمل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے ’’جہاد‘‘ کہا جاتا تھا۔ امریکہ اسے سپورٹ کرتا تھا، دنیا بھر کی مسلمان حکومتیں اس کی حمایت کرتیں تھیں، پاک فوج اور آئی ایس آئی اس جہاد کی پشت پر تھیں اور روسی فوجوں کے خلاف افغان عوام کی اس عسکری جدوجہد میں ’’دہشت گردی“ کے جراثیم کا کوئی سراغ نہیں پایا جاتا تھا۔
اس لیے جو لوگ پاکستانیوں کو افغانستان لے جا کر روس کے خلاف مرواتے تھے وہ امریکہ کے خلاف جنگ میں پاکستانیوں کو وہاں لے جانے کو بھی جہاد سمجھتے رہے، انہیں استعماری مقاصد کے حوالہ سے روس اور امریکہ میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیا اور وہ اپنی اسی پالیسی کے تسلسل پر قائم رہے۔ وہ دراصل یہ فرق نہیں سمجھ پائے کہ روس کے خلاف لڑنا ’’جہاد“ اور اس میں مرنا ’’شہادت“ ہے جبکہ امریکہ کے خلاف لڑنا ’’دہشت گردی“ اور اس میں جان دینا ’’مروا دینا“ ہوتا ہے۔ اس لیے صدر کو اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے ان عوامل کو تلاش کرنا چاہیے جو پاکستان کے دینی حلقوں کا صدر پرویز مشرف کے بقول انتہا پسندوں کے لیے اس جہاد اور دہشت گردی کے درمیان فرق کا صحیح ادراک کرنے میں رکاوٹ بنے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کا دوسرا سوال ہے کہ ’’کیا پاکستان کو نظریاتی اسٹیٹ بنانا چاہیے؟‘‘
صدر محترم سے گزارش ہے کہ ’’بنانا چاہیے“ کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی اور اس کا مطلب ہم یہ سمجھے ہیں کہ شاید صدر پرویز مشرف پاکستان کے بارے میں از سر نو فیصلہ کرنے جا رہے ہیں کہ اسے نظریاتی ریاست ہونا چاہیے یا سیکولر اسٹیٹ بنا دینا چاہیے؟ حالانکہ یہ فیصلہ پاکستان بننے سے پہلے ہو چکا تھا اور فیصلہ کرنے والے خود قائد اعظم محمد علی جناحؒ تھے جنہوں نے اس خطہ کے کروڑوں مسلمانوں کی حمایت سے اعلان کیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا اور اس کا دستور قرآن و سنت کے مطابق ہوگا۔ پھر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی صورت میں پاکستان کی نظریاتی حیثیت کا واضح طور پر تعین کر دیا تھا، اس کے بعد اس مسئلہ کو ’’ری اوپن“ کرنا پاکستان کے قیام کے نظریاتی اور اخلاقی جواز کو چیلنج کرنا ہے اور قیام پاکستان کو جائز، اصولی اور منطقی سمجھنے والے کسی شخص سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
جنرل پرویز مشرف نے تیسرا سوال یہ کیا ہے کہ ’’کیا مذہبی تعلیم حکومت چلانے کے لیے کافی ہے؟‘‘
جناب صدر کی خدمت میں عرض ہے کہ اس بات کا آج تک کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی عقل و دانش سے بہرور شخص ایسا کر سکتا ہے، اس سلسلہ میں صدر صاحب نے دینی مدارس سے جو شکایات کی ہیں وہ بھی اسی نوعیت کی ہیں اور بے محل ہیں کیونکہ دینی مدارس تو صرف مساجد و مدارس کے لیے امام، قاری اور استاذ مہیا کرنے کی ذمہ داری نبھاہ رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ وہ اس شعبہ میں رجال کار فراہم کرنے کا کام صحیح طریقہ سے جاری رکھ سکیں۔ مگر صدر صاحب کا اصرار ہے کہ ایک مسجد میں امام بننے کے لیے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ امام مسجد کو سائنس دان اور انجینئر بھی ہونا چاہیے اور کسی مدرسہ میں قرآن پاک پڑھانے والے کو قاری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی بننا چاہیے ۔ورنہ اگر اسی سوال کو اصل تناظر میں دیکھا جائے تو وہ اس طرح بنتا ہے کہ جو کچھ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھایا جا رہا ہے کیا یہ تعلیم ایک اسلامی فلاحی ریاست کا نظام چلانے کے لیے کافی ہے؟
صدر محترم کا چوتھا سوال ہے کہ ’’کیا آپ پاکستان کو ترقی پسند اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں؟‘‘
جناب صدر! ہم بلاشبہ پاکستان کو ترقی پسند اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے پورے شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور مغربی حکومتوں کی پالیسیوں کی تابعداری کر کے کبھی ترقی پسند اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بن سکتا، اس کے لیے خلفاء راشدینؓ کے طرز حکومت اور نظام حکومت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور صدر پرویز مشرف اس کا تجربہ کر کے دیکھ لیں جس روز انہوں نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے نظام حکومت اور ریاستی ڈھانچے کو پاکستان میں عملی طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا امریکی بمبار طیاروں کا رخ ان کی طرف بھی اسی طرح ہوجائے گا جس طرح اسی ’’جرم“ میں ملا محمد عمر کو امریکی بمباری کا نشانہ بننا پڑا ہے۔
صدر محترم کا پانچواں اور چھٹا سوال یہ ہے کہ ’’کیا مذہبی انتہا پسندوں نے افغانستان کی بھلائی کا سوچا ہے؟ کیا پیسے جمع کر کے افغانستان کی تعمیر نو کا سوچا ہے؟“
میرے خیال میں صدر محترم کو حقائق سے اس حد تک چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے ورنہ دیگر سینکڑوں اداروں اور ہزاروں اصحاب خیر کے علاوہ ’’امہ تعمیر نو“ اور ’’الرشید ٹرسٹ“ نے افغانستان کے مفلوک الحال عوام کی امداد اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے جو مسلسل خدمات سرانجام دی ہیں ان سے صدر پرویز یقیناً بے خبر نہیں ہوں گے، لیکن چونکہ امریکہ بہادر نے ان رفاہی اور تعمیری اداروں کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا ہے اس لیے ہمارے صدر محترم کو ان کی خدمات ہی سرے سے دکھائی نہیں دے رہیں۔
صدر محترم کا ساتواں سوال ہے کہ ’’کیا اسلام توڑ پھوڑ، نفرتیں پھیلانے کا کام سکھاتا ہے؟“
یقیناً اسلام توڑ پھوڑ اور نفرتوں کا سبق نہیں دیتا اور اگر کہیں اسلام کے حوالہ سے ایسا ہو رہا ہے تو وہ بلاشبہ غلط ہے، لیکن پاکستان میں قومیتوں اور زبانوں کے عنوان سے جو نفرتیں موجود ہیں اور ان کے لیے جو قتل و قتال سالہا سال سے جاری ہے انہیں صدر پرویز مشرف کس کھاتے میں ڈالیں گے اور ان کے بارے میں کچھ کہنا انہوں نے کیوں ضروری نہیں سمجھا؟
صدر محترم کا آٹھواں اور نواں سوال یہ ہے کہ ’’کیا ہم حضورؐ کی مثال بھول گئے ہیں انہوں نے اپنی مثال سے اسلام پھیلایا تھا اور کیا بزرگان دین نے جبر سے اسلام پھیلایا تھا؟‘‘
بالکل درست ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگان دین نے دین پھیلانے اور اسلام کی دعوت دینے میں کبھی جبر سے کام نہیں لیا اور نہ اس کی اجازت دی ہے، بلکہ اخلاقی برتری اور اصلاحی عمل کے ذریعے اسلام کی دعوت کو عام کیا ہے، لیکن اگر کسی مقام پر کفر و ظلم کے کسی گروہ نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہے اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی کوشش کی ہے تو وہاں جناب نبی اکرمؐ صرف اخلاق کے ساتھ کافروں کے سامنے نہیں آئے بلکہ تلوار ہاتھ میں لے کر ان کا مقابلہ کیا ہے اور کافر دشمن کے ساتھ رسول اللہؐ اور بزرگان دین نے کبھی نرمی کا معاملہ نہیں فرمایا۔
صدر محترم کا آخری اور دسواں سوال یہ ہے کہ ’’کیا جہالت، پسماندگی اور بھوک کے خلاف جہاد کا سوچا ہے؟‘‘
صدر جنرل پرویز مشرف سے گزارش ہے کہ وہ خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دینی مدارس کسی قسم کی سرکاری امداد کے بغیر لاکھوں نادار بچوں کو خوراک اور ہاسٹل کی بلامعاوضہ سہولتیں فراہم کر رہے رہیں اور انہیں مفت تعلیم بھی دے رہے ہیں، اور خود صدر کے بقول یہ کام کوئی بڑی سے بڑی این جی اوز بھی نہیں کر سکتی، تو محدود ترین وسائل رکھنے والے دینی مدارس سے وہ بھوک اور جہالت کے خلاف اس کے علاوہ اور کون سے جہاد کی توقع کر رہے ہیں؟