(جولائی ۲۰۱۲ء میں حرمین شریفین کے سفر کے دوران مدینہ منورہ میں لکھا گیا ایک مضمون۔)
اسلامی عقائد کے مطابق انسانی معاشرت کی بنیاد چند عقائد پر ہے:
یہ کائنات، زمین و آسمان، مخلوقات اور ہم سب اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق ہیں۔ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے، صلاحیتوں اور استعدادات سے نوازا ہے، زندگی کے اسباب فراہم کیے ہیں، وہ پورے نظام کو چلا رہا ہے، کائنات کی ہر چیز اس کے علم، قدرت اور کنٹرول میں ہے اور اس کی بقا و فنا اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے۔ وہ اپنی ذات، صفات، اختیارات اور افعال میں وحدہٗ لا شریک ہے، اس کے کسی معاملہ میں کوئی دخیل اور شریک نہیں ہے اور نہ ہی اس کی مرضی اور حکم کے بغیر کوئی کام ہو سکتا ہے۔ اس نے زمین و آسمان اور کائنات کے اس نظام کو بے مقصد پیدا نہیں کیا بلکہ ایک مقصد اور ایجنڈے کے مطابق اس نے مخلوقات کے اس نظام کو بنایا ہے اور اسی کے مطابق وہ اسے چلا رہا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
”اور ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے کھیل تماشہ کے لیے نہیں بنایا۔“ (الدخان ۳۸)
اس کی مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے، کرّہ ارضی کا نظام تکوینی طور پر انسان کے حوالے کیا گیا ہے، وہی اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی کے مطابق زمین اور اس کے اردگرد کے ماحول میں تصرف کر رہا ہے، اس حوالہ سے اسے دیگر زمینی مخلوقات پر برتری حاصل ہے اور وہ زمین کے وسائل و اسباب سے سب سے زیادہ استفادہ کر رہا ہے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے علم و عقل سے نوازا ہے اور دیگر مخلوقات پر برتری عطا کی ہے۔ زمین کے اسباب و وسائل کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لیے بنایا ہے اور انسان کو اپنی بندگی اور اطاعت کے لیے مخصوص کیا ہے، عبادات اور اطاعت کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے، اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے اور اس کے احکام و قوانین کے مطابق زمین کا نظام چلائے۔ انسان اور جن کو اللہ رب العزت نے خواہش، رائے اور اختیار سے نوازا ہے اور یہ اس کی طرف سے آزمائش ہے کہ جنوں اور انسانوں کو اطاعت اور نا فرمانی دونوں میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے کی اجازت دی ہے، البتہ اطاعت پر جنت اور نا فرمانی پر جہنم کا نتیجہ بھی بتا دیا ہے۔
انسان کے لیے دنیا کی زندگی آزمائش اور امتحان ہے جس کے نتائج کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا اور اسی کے مطابق انسان کی آئندہ کی ابدی زندگی کا جنت یا جہنم کی شکل میں تعیّن ہوگا۔ دنیا میں انسان کو ضروریات کے مطابق اسباب فراہم کیے گئے ہیں، یہاں سب خواہشات کی تکمیل ممکن نہیں ہے، خواہشات کی تکمیل کے لیے جنت بنائی گئی ہے۔ جو وہاں تک پہنچ گیا اسے خواہشات کی تکمیل کے پورے مواقع میسر ہوں گے۔ دنیا میں انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہے اور ان کے مطابق زندگی بسر کرنے پر وہ کامیاب قرار پائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جنت سے زمین پر اتارا ہے اور دنیاوی زندگی میں خدائی احکام کی پیروی پر جنت میں واپس لے جانے کا وعدہ فرمایا ہے، اوریہ فرمایا ہے کہ دنیاوی زندگی میں انسان اپنا مقصد زندگی اور پروگرام طے کرنے میں آزاد نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پابند ہے:
”ہم نے آدم و حوا سے کہا کہ تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے، پس جو میری ہدایت پر چلیں گے ان پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جو انکار کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہی دوزخی ہوں گے جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ (البقرہ ۳۸، ۳۹)
یہ فرمایا ہے کہ دنیا پر انسان کی زندگی اور اس کے لیے اسباب عارضی ہیں:
”اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے، اور ایک وقت تک نفع اٹھانا ہے۔“ (الاعراف ۲۴)
یہ فرمایا ہے کہ انسانوں کی ہدایت اور ان تک اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین پہنچانے کے لیے نبی اور رسول آئیں گے، انسانوں پر ان کی اطاعت ضروری ہوگی اور ان کی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت شمار ہوگی:
”اے آدم کی اولاد! اگر تم میں سے تمہارے پاس رسول آئیں جو تمہیں میری آیتیں سنائیں پھر جو شخص ڈرے گا اور اصلاح کرے گا ایسوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غم کھائیں گے۔“ (الاعراف ۳۵)
”کہہ دو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو، پھر اگر وہ منہ موڑیں تو اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (آل عمران ۳۲)
”جس نے رسول کا حکم مانا اس نے اللہ کا حکم مانااور جس نے منہ موڑا تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔“ (النساء ۸۰)
یہ فرمایا ہے کہ دنیا کی یہ زندگی عارضی اور امتحانی ہے، اصل زندگی آخرت کی ہے جہاں انسان ’’ہم فیہا خالدون‘‘ کی صورت میں جہاں رہیں گے، ہمیشہ رہیں گے۔
یہ فرمایا ہے کہ آسمانی تعلیمات سے انحراف کر کے بسر کی جانے والی زندگی خواہش اور گمان کی پیروی شمار ہوگی جبکہ حق بات صرف وہی ہے جو وحی کی شکل میں نازل ہوئی ہے:
”وہ محض وہم اور اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کے ہاں سے ہدایت آچکی ہے۔“ (النجم ۲۳)
یہ فرمایا ہے کہ سب انسانوں کی فطرت ایک ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کے اقرار اور اس کی اطاعت و بندگی ہے۔ انسانی سوسائٹی میں خواہشات کے باعث اختلافات پیدا ہوئے جن میں انسانوں کی راہنمائی کے لیے انبیاء کرامؑ اور رسول بھیجے گئے:
”سب لوگ ایک دین پر تھے، پھر اللہ نے انبیاء ؑ خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے، اور ان کے ساتھ سچی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں میں اس بات میں فیصلہ کریں جس میں وہ اختلاف کرتے تھے، اور اس میں اختلاف نہیں کیا مگر انہی لوگوں نے جنہیں وہ (کتاب) دی گئی تھی، اس کے بعد کہ ان کے پاس روشن دلیلیں آ چکی تھیں، آپس کی ضد کی وجہ سے، پھر اللہ نے اپنے حکم سے ہدایت کی ان کو جو ایمان والے ہیں اس حق بات کی جس میں وہ اختلاف کر رہے تھے، اور اللہ جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے۔“ (البقرہ ۲۱۳)
قرآن کریم نے یہ بات واضح کی ہے کہ انسان کو چند چیزیں وہبی طور پر عطا کی گئی ہیں اور ان کے استعمال اور ان میں ارتقاء اور کمال کے لیے اسے عقل کی نعمت سے نوازا گیا ہے۔ مثلاً:
علم وہبی ہے:
”اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔“ (البقرہ ۳۱)
حیا وہبی ہے:
”پھر انہیں دھوکے سے مائل کر لیا، پھر جب ان دونوں نے درخت کو چکھا تو ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور اپنے اوپر بہشت کے پتے جوڑنے لگے ……“ (الاعراف ۲۲)
حکم و قانون وہبی ہے کہ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل و قابیل میں جو جھگڑا ہوا اس کی بنیاد ایک حکم و ضابطہ کی پابندی یا خلاف ورزی پر تھی۔
مکان و سکونت کا شعور وہبی ہے کہ زمین پر پہلا گھر آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا:
”بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہنما ہے۔“ (آل عمران ۹۶)
آج کا فلسفہ یہ کہتا ہے کہ انسان نے معاشرت کے اسباب اور بنیادیں عقل کی وجہ سے ارتقاء کے عمل کے نتیجے میں حاصل کی ہیں، جبکہ اسلام کہتا ہے کہ معاشرت کی بنیادیں وہبی ہیں البتہ اس میں ارتقاء اور ان کا بہتر سے بہتر استعمال کسبی ہے جس کا ذریعہ عقل و تجربہ ہے۔ اس طرح انسانی معاشرت کے اصول اور قواعد و ضوابط طے کرنے میں وحی کو بنیاد کا درجہ حاصل ہے اور عقل اس کی معاون ہے، چنانچہ وحی اور عقل کے درمیان یہی متوازن رشتہ اور تعلق ہے، اس لیے عقل اگر وحی کے تابع رہے تو وہ اس کی بہترین معاون اور مددگار ہے، لیکن اگر وحی کی پابندی کے بغیر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ انسان کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے، جیسے ایک طاقت ور اور منہ زور گھوڑے کی لگام کھلی چھوڑ دی جائے تو گھوڑے کی وہی قوت اس کے سوار کے لیے ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔
قرآن کریم نے وحی کے تابع عقل کی تعریف کی ہے اور اسے نعمتِ خداوندی قرار دیتے ہوئے اس کے مسلسل استعمال کی تلقین فرمائی ہے، مگر وحی کی پابندی سے آزاد عقل کو محض ظن قرار دیا ہے اور ظن و ہویٰ کے جوڑ کو انسان کی تباہی، ناکامی اور بربادی کا سبب بتایا ہے۔ وحی انسان کی راہنما ہے جبکہ عقل ایک بہترین آلہ ہے جسے استعمال کر کے انسان بہتر سے بہتر نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ جس طرح کمپیوٹر ایک بہترین آلہ ہے مگر وہ کام اس پروگرام کے تحت ہی کرے گا جو اس میں فیڈ کیا جائے گا، اس کے بغیر وہ کسی کام کا نہیں ہے۔ عقل کے کمپیوٹر میں اگر آسمانی تعلیمات کا پروگرام فیڈ کر دیا جائے گا تو وہ اس کے مطابق کام کرے گا، لیکن اگر اس میں انسانی خواہشات اور ماحول کے اثرات و کیفیات کے وائرس کے لیے جگہ چھوڑ دی جائے گی تو وہ عقل کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں گی۔
اسلام نے ہر پیدا ہونے والے بچے کو سلیم الفطرت قرار دیا ہے، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس کے کمپیوٹر میں پہلے سے کوئی پروگرام فیڈ نہیں ہے اورا س میں ہر پروگرام قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اسے جو ماحول ملتا ہے وہی اس کے کمپیوٹر میں فیڈ ہو جاتا ہے اور اس کی صلاحیتیں اور نفسیات اسی کے مطابق ڈھلتی اور استعمال ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اسی لیے ہر علاقے اور قوم کے لوگوں کی نفسیات اور ذہنی سطح دوسرے علاقوں کے لوگوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح اجتماعی عقل اور عقلِ عام یا عقلِ مشترک (کامن سینس) بھی اپنے دور کے ماحول، مشاہدات، تجربات اور میسر معلومات سے تشکیل پاتی ہے اور اس کے تابع ہوتی ہے اور ان امور میں تغیر و تبدل کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ جبکہ ماحول، مشاہدات، تجربات اور معلومات نہ زمانے کے لحاظ سے یکساں رہتے ہیں اور نہ ہی علاقہ کے اعتبار سے یکساں ہوتے ہیں۔ اس لیے فرد کی عقل کی طرح سوسائٹی کی عقل بھی کبھی ایک معیار پر اور ایک دائرے میں نہیں رہی اور ان مذکورہ امور میں مسلسل ارتقاء کے باعث آئندہ بھی اس کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ اس لیے عقل کے ذریعے حاصل ہونے والے علمی و فکری نتائج کو کبھی حتمی اور یقینی درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے عقل کا آخری درجہ ”ظنِ غالب‘‘ ہے، یقین کا درجہ صرف اور صرف وحی سے حاصل ہوتا ہے۔
چنانچہ عقل اگر وحی کے دائرے میں استعمال ہوتی ہے تو وہ نعمتِ خداوندی ہے اور انسان کا سب سے کامیاب ہتھیار ہے، لیکن اگر یہ عقل انسانی خواہشات کے ہتھے چڑھ جائے تو بہت بڑا فتنہ اور عذاب ہے جو انسانی سوسائٹی کو شر و فساد سے بھر دیتی ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے انسانی معاشرت کے اصول اور اقدار و روایات کے یقین میں وحی اور آسمانی تعلیمات کو بنیاد قرار دیا ہے، اور انسانی عقل کو خواہ وہ فرد کی ہو یا سوسائٹی کی، ایک اچھے معاون اور مددگار کی حیثیت دی ہے، جس کے ذریعے انسان اپنی معاشرت، تمدن اور تہذیب و ثقافت کو بہتر سے بہتر شکل دے سکتا ہے اور دنیا و آخرت کی دونوں زندگیوں کے لیے خوشیوں اور راحتوں کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔
انسانی معاشرہ اور تمدن انسان کے چند امتیازات پر مبنی ہے جو اسے دوسرے حیوانات سے الگ کرتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے لکھا ہے کہ کھانے، پینے، جنسی تعلق، گرمی سردی سے بچاؤ اور دشمن سے اپنے تحفظ وغیرہ کی حد تک انسان باقی حیوانات کے ساتھ شریک ہے، لیکن انسان کے کچھ امتیازات ہیں جو اسے دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتے ہیں اور انہی پر اس کی معاشرت اور تمدن کی بنیاد ہے:
- ایک یہ ہے کہ انسانی زندگی میں ٹھہراؤ نہیں ہے بلکہ آگے بڑھتے رہنے اور بہتر سے بہتر کیفیت حاصل کرنے کا جذبہ اس میں موجود ہے، مثلاً شیر کی خوراک گوشت ہے اور وہ اسے ہمیشہ ایک ہی طریقہ سے حاصل کرتا ہے اور ایک ہی طریقہ سے استعمال کرتا آرہا ہے، یہی گوشت انسانی خوراک کا حصہ ہے لیکن گوشت کے بہتر سے بہتر استعمال کے لیے انسان نے سینکڑوں صورتیں اختیار کر رکھی ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
- سردی گرمی اور بارش دھوپ سے بچاؤ کم و بیش سبھی جانوروں کی ضرورت ہے لیکن باقی جانوروں کے پاس اس کا جو طریقہ صدیوں پہلے تھا، آج بھی وہی ہے اور ان کے اپنے اختیار سے اس طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، مگر انسان نے اس کے سینکڑوں طریقے اختیار کیے ہیں اور مکانات، بلڈنگوں اور کوٹھیوں وغیرہ کی نئی سے نئی شکلیں اور اپنی رہائش گاہوں کو صاف رکھنے اور گرم اور ٹھنڈا کرنے کی بیسیوں صورتیں اس کے تجربات کا حصہ ہیں۔
- جنسی خواہش کی تکمیل اور نسل کے ارتقاء میں بھی انسان باقی حیوانات کے ساتھ شریک ہے لیکن باقی جانوروں کو اس مقصد کے لیے صرف ایک مادہ ساتھی درکار ہے، جبکہ انسان کی ضرورت صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ شادی اور خاندان کی تشکیل کے لیے اس نے اپنی ضروریات میں تنوع اور وسعت کو جس انتہا تک پہنچا دیا ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
- مسابقت کا جذبہ بھی انسان کو دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتا ہے، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش اور اس کے لیے تگ و دو انسانی معاشرت اور تمدن میں ارتقاء کا بہت بڑا سبب ہے۔
- انسانی معاشرہ میں مفکرین، دانش وروں اور سائنس دانوں کی صورت میں ہر دور میں ایسے افراد موجود رہے ہیں جو انسان کو سہولتیں فراہم کرنے، اس کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے اور اسے زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے کی صورتیں سوچتے رہتے ہیں، تجربات کرتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں نئی سے نئی سہولتوں سے انسانی معاشرہ کو روشناس کرتے رہتے ہیں۔
- سلیم الفطرت انسان کی سوچ اور محنت کا دائرہ صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اپنی آئندہ اور اصل زندگی کو ہر وقت سامنے رکھتا ہے اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی ابدی زندگی کے لیے ذریعہ اور سبب بنانے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔
انسانی معاشرت باہمی تعاون و اشتراک اور ایک دوسرے کے حقوق پر مبنی ہے کیونکہ کوئی بھی انسان اپنی ساری ضروریات تنہا پوری کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، کچھ لوگ خوراک کی ضروریات مہیا کرنے میں مصروف رہتے ہیں، کچھ لوگ لباس کی ضروریات کی فراہمی میں مشغول ہیں، کچھ حضرات مکانات وغیرہ کی تیاری کا کام کرتے ہیں، کچھ لوگ انسانی زندگی کی باقی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے دائرہ میں محنت کر رہے ہیں اور بہت سے لوگ ان تیار شدہ اشیاء کو مارکیٹ میں لا کر تجارت کی صورت میں لوگوں تک پہنچانے کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔
زراعت، تجارت، مال مویشی پالنا، صنعت و حرفت، ملازمت، مزدوری، فوجی خدمات، قیامِ امن کی خدمات اور دیگر بیسیوں شعبے انسانی معاشرہ کی ضروریات ہیں، جن میں الگ الگ طور پر لاکھوں نہیں کروڑوں انسان کام کر رہے ہیں جو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی سے تمدن اور شہریت وجود میں آتی ہے۔ اس باہمی تعاون و اشتراک کو ضروریات کے دائرے میں محدود رکھنے، اور تنازعات و اختلافات سے بچانے یا جھگڑے فساد کی صورت میں انصاف فراہم کرنے، اور امن قائم کرنے کے لیے باہمی حقوق و فرائض اور قواعد و ضوابط کا تعین ضروری ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے کے حقوق صحیح طریقہ سے ادا کیے جائیں گے تو باہمی تعاون و اشتراک سے صحیح فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔ اپنے اپنے فرائض پورے طریقہ سے ادا کیے جائیں گے تو معاشرہ امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنے گا۔ اور حقوق و فرائض کے صحیح تعین اور ادائیگی کے لیے قواعد و ضوابط ضروری ہیں، اس لیے اسلام نے ایک سوسائٹی میں رہنے والے انسانوں کے باہمی حقوق کا تعین کیا ہے، فرائض کی نشاندہی کی ہے، اور فرائض و حقوق کی ادائیگی پر یکساں زور دیا ہے۔ آج کا عالمی فلسفہ بھی حقوق کی بات کرتا ہے اور اسلام نے بھی حقوق کی بات کی ہے لیکن ان دونوں میں دو اصولی باتوں کا فرق ہے جس کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
- اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کرتا ہے مگر آج کا عالمی فلسفہ صرف انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور حقوق اللہ پر سرے سے بحث ہی نہیں کرتا۔ جبکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ جس خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے اور روزی دے رہا ہے اس کے بھی تم پر حقوق ہیں، اور جن انسانوں کے ساتھ تم دنیا میں اکٹھے رہتے ہو ان کے بھی تم پر حقوق ہیں۔
- آج کا عالمی فلسفہ اس دنیا کی عارضی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے صرف اس کے دائرے میں حقوق کا نظام طے کرتا ہے۔ مگر اسلام موت کے بعد کی زندگی کو انسان کی اصل زندگی قرار دے کر دونوں زندگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو بنیاد بناتے ہوئے سابقہ آسمانی تعلیمات میں حقوق کی تعلیم دی گئی تھی اور قرآن کریم نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ان کا اعادہ کیا ہے۔ چنانچہ بائبل کی کتاب خروج باب ۲۰ آیات ۱ تا ۱۷ میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور سے اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات لے کر قوم کے پاس آئے تو بنی اسرائیل کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ:
”اور خداوند نے یہ سب باتیں فرمائیں کہ o خداوند تیرا خدا، جو تجھے ملک مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا، میں ہوں o میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا o تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی صورت نہ بنانا، نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے o تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا کیونکہ میرا خداوند تیرا خدا غیور ہے اور جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں ان کی اولاد کو تیسری پشت اور چوتھی پشت تک باپ دادا کی بدکاری کی سزا دیتا ہوں o اور ہزاروں پر جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں اور میرے حکموں کو مانتے ہیں رحم کرتا ہوں o تو خداوند اپنے خدا کا نام بے فائدہ نہ لینا کیونکہ جو اس کا نام بے فائدہ لیتا ہے خداوند اسے بے گناہ نہ ٹھہرائے گا o یاد کر کے تو سبت کا دن پاک منانا o چھ دن تک تو محنت کر کے اپنا سارا کام کاج کرنا o لیکن ساتویں دن جو خداوند تیرا خدا کا سبت ہے اس میں نہ تو کوئی کام کرے نہ تیرا بیٹا نہ تیری بیٹی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرا چوپایہ نہ کوئی مسافر جو تیرے ہاں تیرے پھاٹکوں کے اندر ہو o کیونکہ خداوند نے چھ دن میں آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دن آرام کیا اس لیے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا o تو اپنے ماں باپ کی عزت کرنا تا کہ تیری عمر اس ملک میں، جو خداوند تیرا تجھے دیتا ہے، دراز ہو o تو خون نہ کرنا o تو زنا نہ کرنا o تو چوری نہ کرنا o تو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا o تو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا o تو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اس کے غلام اور اس کی لونڈی اور اس کے بیل اور اس کے گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اور چیز کا لالچ کرنا۔“
توراۃ کی یہ تعلیمات اسلام نے بھی اسی طرح بیان کی ہیں، صرف اس فرق کے ساتھ کہ ہمارے ہاں ہفتے کا مقدس دن ہفتہ کی بجائے جمعہ ہے، اور کام کاج سے ممانعت کا دورانیہ پورے دن کی بجائے جمعہ کی اذان سے نماز کے اختتام تک محدود ہوگیا ہے۔ جبکہ ”خداوند نے ساتویں دن آرام کیا“ کا مطلب ہمارے ہاں یہ ہوگا کہ اگر یہ ترتیب اسی طرح ہے تو ساتویں دن اللہ تعالیٰ نے تخلیق ارض و سماء کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ بائبل کی ان آیات کو سامنے رکھ کر اگر قرآن کریم کی سورۃ بنی اسرائیل کے تیسرے اور چوتھے رکوع کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالہ سے قرآن کریم اور تورات کی تعلیمات کس حد تک مشترک اور ملتی جلتی ہیں۔
قرآن کریم میں ”حق“ کا لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے:
اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء گرامی میں ایک اسم مبارک ”الحق“ ہے۔اس آیت میں حق کو باطل کے مقابلہ میں بیان کیا گیا ہے:
”اور کہہ دو کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا ہے، بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا۔“ (الاسراء ۸۱)
ایک آیت میں قیامت کو حق کا عنوان دیا گیا ہے:
”یہ یقینی دن ہے پس جو چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانا بنا لے۔“ (النباء ۳۹)
ایک آیت میں حق کو باہمی حقوق کے زمرہ میں شمار کیا گیا ہے، وغیر ذلک۔
”اور رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو۔“ (الاسراء ۲۶)
باہمی حقوق کا تذکرہ قرآن کریم اور احادیث میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے، مثال کے طور پر ایک آیت کریمہ اور ایک حدیث نبویؐ کا حوالہ دیا جارہا ہے:
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
”اور اللہ کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں، یتیموں،مسکینوں، قریبی ہمسایہ، اجنبی ہمسایہ، پاس بیٹھنے والے، مسافر اور اپنے ما تحتوں کے ساتھ بھی نیکی کرو، بے شک اللہ اترانے والے، بڑائی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔“ (النساء ۳۶)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد انسانوں میں سے نو قسم کے لوگوں کا حق بیان کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ ان حقوق کی مزید وضاحت کے لیے سورۃ الانعام کی آیات ’’قل تعالوا اتل ما حرم ربکم‘‘ (۱۵۱)…… اور سورۃ بنی اسرائیل کا رکوع ۳ اور ۴ کا مطالعہ کر لیا جائے۔
جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کی تفصیل بخاری شریف میں یوں ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ جب یہودی خاندان کی غلامی سے آزادی حاصل کر کے جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں مہاجر کے طور پر حاضر ہوئے تو نبی اکرمؐ نے انہیں ”مواخاۃ“ کے تحت حضرت ابوالدرداءؓ کا بھائی بنا دیا اور وہ انہیں اپنے گھر لے گئے۔ دوسرے روز انہوں نے فجر کے بعد جناب نبی اکرمؐ کو یہ رپورٹ پیش کی کہ حضرت سلمانؓ نے کل دوپہر کو مہمان کے ساتھ کھانے کے لیے ان کا روزہ تڑوا دیا اور ساری رات نوافل پڑھنے کا موقع نہیں دیا بلکہ زبردستی سونے کا کہہ کر سحری کے وقت نفل پڑھنے دیے اور اب یہ نصیحت کر کے ساتھ لائے ہیں کہ:
”بے شک تیرے رب کا تجھ پر حق ہے، تیری جان کا تجھ پر حق ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے اور پس ہر حق والے کو اس کا حق ادا کر۔“ (بخاری شریف)
جناب نبی اکرمؐ نے یہ سن کر فرمایا کہ ’’صدق سلمان‘‘ اور حضرت سلمان فارسیؓ کے اس عمل اور قول کی تصدیق فرما دی۔ اس کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی شادی کے بعد ان کے ساتھ جناب نبی اکرمؐ کی تفصیلی گفتگو کو ملاحظہ کر لیا جائے جو امام بخاریؒ نے مختلف مقامات پر بیان فرمائی ہے۔ اور ان صحابہ کرامؓ کو جناب نبی اکرمؐ کی طرف سے کی جانے والی تنبیہ بھی شامل کر لی جائے جنہوں نے آپس میں ساری عمر شادی نہ کرنے اور زندگی بھر روزے رکھنے اور ساری ساری رات عبادت کرنے کا وعدہ کر لیا تھا اور نبی اکرمؐ نے ’’النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘ فرما کر انہیں ایسا کرنے سے منع فرما دیا تھا۔
میری طالب علمانہ رائے میں قرآن کریم کی مذکورہ آیاتِ مبارکہ اور جناب نبی اکرمؐ کے یہ ارشاداتِ مقدسہ اسلام میں انسانی حقوق کی اساس ہیں اور ان کے ساتھ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اس حوالہ سے پھیلے ہوئے متنوع ذخیرہ کے ذریعہ انسانی حقوق کا ایک مکمل نظام مرتب کیا جا سکتا ہے۔
حقوق کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور آج کے عالمی فلسفہ کے درمیان دو اصولی فرق سطور بالا میں مذکور ہوئے ہیں: ایک یہ کہ اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کرتا ہے، جبکہ مغربی فلسفہ صرف حقوق العباد پر بحث کرتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اسلام دنیا کی زندگی کے ساتھ آخرت کی زندگی کو سامنے رکھ کر حقوق کا تعین کرتا ہے، جبکہ مغربی فلسفہ دنیاوی زندگی کو ہی حتمی اور آخری سمجھ کر اس کے دائرہ میں حقوق کی بات کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ان دونوں کے مابین تین فرق اور بھی ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
- ایک یہ کہ آج کا عالمی فلسفہ چونکہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی سے منحرف ہو کر اس سے معاشرتی زندگی میں مکمل دستبرداری اختیار کر چکا ہے، اس لیے اس کے نزدیک حقوق کا تعین اور ان کی وضاحت سوسائٹی کی سوچ اور خواہش کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جبکہ اسلام میں حقوق کے تعین کی بنیاد وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر ہے، اور جو حقوق وحی الٰہی میں طے ہو چکے ہیں ان میں رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے برعکس مغربی فلسفہ میں حقوق کے تعین کی بنیاد سوسائٹی کی سوچ اور خواہش پر ہے اس لیے حقوق کی فہرست میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً ہم جنس پرستی کو بائبل نے گناہ قرار دیا ہے اور اس پر سنگسار کر دینے کی سزا بیان کی ہے، اور مغربی ممالک میں اب سے ایک صدی قبل تک اسے جرائم کی فہرست میں شمار کیا جاتا تھا، لیکن سوسائٹی کی خواہش اور سوچ میں تبدیلی ہو جانے کے باعث اب اسے جرائم کی فہرست سے نکال کر حقوق کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح آسمانی مذاہب اور انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین اس سے قبل جرائم میں شمار ہوتی تھی مگر اب اس کا حوالہ حقوق کے عنوان سے سامنے آرہا ہے۔ اسی طرح شراب نوشی اب سے پون صدی قبل خود امریکہ کے قانون میں قابلِ سزا جرم تھی مگر اب وہ بھی حقوق کا حصہ بن گئی ہے۔
- دوسرا فرق یہ ہے کہ مغربی دنیا میں عوامی حقوق کا دور انقلابِ فرانس سے شروع ہوتا ہے، اس سے قبل کے دور کو جبر، تاریکی اور جہالت کا دور تصور کیا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس اٹھارویں صدی عیسوی کے آخری عشرہ میں مکمل ہوا تھا، اس لحاظ سے مغربی دنیا میں حقوق کی تاریخ کم و بیش سوا دو صدیوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ اسلام میں جناب نبی اکرمؐ سے قبل کے دور کو ”دورِ جاہلیت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور روشن خیالی، علم اور حقوق کا دور جناب نبی اکرمؐ سے شروع ہوتا ہے۔ اور اس کی تاریخ سوا چودہ سو سال کو محیط نظر آتی ہے، بلکہ اگر بنی اسرائیل کے اس دور کو ساتھ شامل کر لیا جائے جب تورات عملاً نافذ تھی اور اس کے مطابق بنی اسرائیل کا معاشرتی نظام چل رہا تھا، تو انسانی حقوق کی تاریخ کا یہ پس منظر ہزاروں سال پر محیط ہو جاتا ہے۔
- تیسرا فرق اسلامی تعلیمات اور حقوق کے مغربی فلسفہ میں یہ ہے کہ اسلام حقوق طلب کرنے کی بجائے حقوق ادا کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے، جبکہ مغربی فلسفہ کی زیادہ توجہ حقوق حاصل کرنے کی تلقین پر ہوتی ہے۔ ان دونوں رویّوں کے معاشرتی اثرات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں انسانی حقوق کے اس عالمگیر منشور اور اعلامیہ کا جائزہ لینا ضروری ہے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو منظور کیا تھا اور جسے دنیا بھر میں انسانی حقوق بلکہ پورے معاشرتی نظام کے لیے مشترکہ معیار قرار دیا جاتا ہے۔
جن ممالک نے اس منشور پر دستخط کیے ہیں اور جو اقوام متحدہ کے نظام میں شریک ہیں، ان سے اقوام متحدہ کے مختلف اداروں، مغربی ممالک کی حکومتوں، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں، اور اس مقصد کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کا مسلسل یہ مطالبہ رہتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے اس عالمی چارٹر کی پابندی کریں، اپنے ملک کے نظام و قوانین کو اس کے دائرہ میں لائیں، اور اگر اس کے کسی ضابطے کے خلاف کسی ملک میں کوئی قانون یا ضابطہ موجود ہے تو اسے تبدیل کیا جائے، تاکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی یکساں پاسداری ہو اور ایک جیسا معاشرتی ماحول پیدا کیا جا سکے۔
انسانی حقوق پر عمل کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کا ایک مستقل ادارہ ”انسانی حقوق کمیشن“ کے نام سے قائم ہے جس کا ہیڈ کوارٹر جنیوا میں ہے۔ یہ پوری دنیا میں اس حوالہ سے مسلسل جائزہ لیتا رہتا ہے اور ہر ملک کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کرتا ہے کہ وہاں انسانی حقوق کے چارٹر کی کون کون سی شق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ یہ کمیشن انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی شکایات سنتا ہے اور ان کی انکوائری کر کے متعلقہ ملک کے خلاف رپورٹ جاری کرتا ہے جس کی بنیاد پر اس ملک کے بارے میں عالمی ادارے اور حکومتیں اپنی پالیسیوں اور طرز عمل کا تعین کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے علاوہ یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے بھی اس قسم کی سالانہ رپورٹیں جاری ہوتی ہیں، اور متعلقہ حکومتوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو روکیں اور ان سے متصادم قوانین کو منسوخ کریں یا ان میں ترامیم کر کے انہیں اس کے مطابق بنائیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی دستوری دفعات، توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون، حدود آرڈیننس، قصاص و دیت کے قوانین اور شریعتِ اسلامیہ کے حوالہ سے نافذ دیگر قوانین کے خلاف عالمی پروپیگنڈے اور عالمی اداروں و حکومتوں کے دباؤ کا پس منظر یہی ہے اور اس کے دو پہلو ہیں:
- ایک یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے نفاذ اور اسلامی معاشرت کے قیام پر ہے جس کی وضاحت ’’قراردادِ مقاصد‘‘ اور متعدد دستوری دفعات میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ پاکستان کا یہ نظریاتی اسلامی تشخص بجائے خود عالمی حلقوں کے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ کیونکہ آج کے عالمی فلسفہ اور خاص طور پر مغربی حکومتوں کا موقف یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے اور ریاستی قوانین و نظام کو مذہب کی کسی بھی پابندی سے آزاد ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک کوئی بھی حکومت جو مذہب کی بنیاد پر اپنا نظام چلائے، یا ریاستی پالیسیوں میں مذہبی احکام و قوانین کو دخیل کرے، ایک معیاری حکومت نہیں ہے۔ اور ان کے خیال میں اسے اپنی پالیسی ترک کر کے ریاستی اور حکومتی معاملات میں مذہب کی پابندی سے آزاد ہو جانا چاہیے اور اس کے لیے ان کی طرف سے مسلسل دباؤ موجود ہے جو بڑھتا جا رہا ہے۔
- دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کے نزدیک اسلام کے بہت سے معاشرتی احکام و قوانین انسانی حقوق کے اس عالمی منشور سے متصادم ہیں جن کا نفاذ ان کے خیال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اور چونکہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے اس چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں اور وہ اقوامِ متحدہ کے نظام کا حصہ ہے، اس لیے پاکستان میں نافذ ان کے بقول انسانی حقوق کے منافی قوانین کو تبدیل کرنا اس بین الاقوامی معاہدہ اور منشورکا لازمی تقاضہ ہے۔
اس پس منظر میں دنیا بھر کے اسلامی اداروں بالخصوص پاکستان کے علمی و دینی مراکز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق کے اسلامی احکام و قوانین اور مغرب کے فلسفہ و نظام کے درمیان فرق و امتیاز کو دلائل کی بنیاد پر واضح کر کے ملتِ اسلامیہ کی راہنمائی کا اہتمام کریں۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔