’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین‘‘ کے قیام کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی تاکہ اسلام کی مقدس ہستیوں بالخصوص حضرات انبیاء کرامؓ اور صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کی حرمت و ناموس کے قانونی تحفظ کے لیے مشترکہ جدوجہد کا راستہ ہموار ہو۔
ہر ملک میں قومی شخصیات کی عزت و احترام کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں لیکن جب سے مذہب کو ریاستی اور قومی معاملات سے باہر کی چیز سمجھا جانے لگا ہے، مذہبی شخصیات کی حرمت و ناموس کے تحفظ کا مسئلہ بھی قانون کے دائرہ سے خارج کر دیا گیا ہے اور اسے غیر ضروری امر قرار دیا جا رہا ہے۔ حتٰی کہ عالمی سطح پر مقدس مذہبی شعائر و شخصیات کے ناموس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کے مسلسل مطالبہ کے باوجود اقوام متحدہ اور اس کے متعلقہ ادارے اس کی طرف متوجہ نہیں ہو پا رہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد چونکہ نظریاتی اور تہذیبی ہے اور اس کے دستور میں قرارداد مقاصد اور دیگر اسلامی دفعات کی رو سے اسلام ہی اس ملک کی تاریخی، نظریاتی اور تہذیبی اساس ہے، اس لیے مقدس شخصیات و شعائر کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے لیے باقاعدہ قانون سازی ایک ناگزیر ملی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے جس کے لیے مختلف دائروں میں متعدد قوانین ملک کے دستور و قانون کا حصہ بنتے آ رہے ہیں، مگر ایک جامع اور تمام ضروری تقاضوں کو سمونے والے قانون کی ضرورت باقی تھی، جس کے لیے پنجاب اسمبلی نے یہ بل منظور کر کے پیشرفت کی ہے۔ اسی پس منظر میں ملک بھر میں مختلف دینی حلقوں کی طرف سے اس کے خیرمقدم کا سلسلہ جاری ہے اور ۹۔اگست کو مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی کی دعوت پر منعقد ہونے والی جماعتوں اور حلقوں کی کل جماعتی کانفرنس نے بعض تحفظات کے اظہار کے ساتھ اس بل کا خیرمقدم کیا ہے۔ کانفرنس کی صدارت جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی نائب امیر مولانا مفتی حبیب الرحمان درخواستی نے کی اور اس میں مولانا سید کفیل شاہ بخاری، مولانا محمد احمد لدھیانوی، جناب لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا عبد الرؤف ملک، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، حاجی عبد اللطیف چیمہ، مولانا قاری زوار بہادر، قاضی محمد ظفر الحق، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، اور اہل سنت کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی بہت سی دیگر ممتاز شخصیات کے علاوہ راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔
صحابہ کرامؓ میں اہل سنت کے نزدیک ازواج مطہراتؓ، خلفاء راشدینؓ، اہل بیت عظامؓ، بنات رسولؐ اور اس دور کے دیگر سب طبقات شامل ہیں۔ اس لیے جب صحابہ کرامؓ کا جملہ بولا جاتا ہے تو اس سے سبھی مراد ہوتے ہیں، لیکن مختلف طبقات کے تحفظات کے باعث ان کا بسا اوقات الگ الگ تذکرہ بھی کیا جاتا ہے، مگر یہ سب بزرگ اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کے ہاں تعظیم و احترام کے مستحق ہیں اور ان میں سے کسی کی بھی بے ادبی اور گستاخی سنگین جرم سمجھی جاتی ہے۔ البتہ اہل تشیع اہل بیت عظامؓ کے سوا عام طور پر باقی اصحابِؓ رسولؐ کو اس دائرہ میں شمار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اس لیے اس قسم کے تنازعات عرصہ سے جاری ہیں اور ان کا اظہار مختلف پیرایوں میں ہوتا رہتا ہے۔
ہمارے ہاں اس سے قبل قانون سازی، یا باہمی ضابطۂ اخلاق کے تعین کی جب بھی بات ہوئی ہے پاکستان کی سنجیدہ شیعہ قیادت نے مثبت رویہ اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ملی یکجہتی کونسل کے طے کردہ متفقہ ضابطۂ اخلاق اور دیگر بہت سے باہمی معاہدات اس کی شہادت کے طور پر تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ مگر ’’تحفظ بنیاد اسلام بل‘‘ کی پنجاب اسمبلی میں منظوری کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اہل تشیع کی معروف قیادت نے کھلے بندوں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ احترام و تقدس اور تعظیم و حرمت کے قانونی دائرے میں صحابہ کرامؓ کی اکثریت کو شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اسی وجہ سے وہ یہ بل مسترد کر رہے ہیں۔ اہل تشیع کی معروف قیادت کی طرف سے اس افسوسناک اعلان کے بعد ملک بھر میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہونا فطری بات تھی جس کا ہلکا سا اظہار ۹۔اگست کے مذکورہ کل جماعتی کنونشن کی صورت میں ہوا ہے۔ کیونکہ پاکستان اہل سنت کی غالب اکثریت کا ملک ہے جس کے لیے یہ بات سننا بھی مشکل ہے کہ ازواج مطہرات، خلفاء راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کی اکثریت کو تعظیم و احترام کے قانونی تحفظ کے دائرہ میں شامل کرنے کو متنازعہ قرار دیا جائے۔ یہ بات جلسوں، مناظروں اور درس و تدریس میں تو ہوتی آ رہی ہے لیکن کسی گروہ کا قومی سطح پر مستقل طور پر اسے اپنا موقف قرار دینے کا اعلان بہرحال ناقابل برداشت ہے، اور یہی بات ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ناموس صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ‘‘ کے قیام کا فوری باعث بنی ہے۔ جس میں کل جماعتی اجلاس کے داعی مولانا عبد الرؤف فاروقی کو سب شرکاء کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ مختلف مکاتب فکر کی سنی جماعتوں اور علمی مراکز سے رابطہ کر کے مجلس عمل کی باقاعدہ تشکیل کی راہ ہموار کریں۔
کل جماعتی مجلس عمل کو اس سلسلہ میں اب کیا کرنا ہے، اس کے بارے میں تو مجلس عمل کی مرکزی رابطہ کمیٹی کی تشکیل کے بعد ہی مشترکہ طور پر کوئی لائحہ عمل اور طریق کار طے کیا جا سکے گا، مگر معروضی صورتحال میں چند گزارشات تجاویز کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں:
- اپنے اس موقف کو کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح حضرات صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کی عزت و ناموس کے تحفظ کا جامع قانون بھی ضروری ہے، اور اس کے لیے تحفظات کو دور کر کے پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ ’’تحفظ بنیاد اسلام بل‘‘ کو نافذ العمل بنایا جا سکتا ہے، سنجیدگی اور اہتمام کے ساتھ منظم طور پر سامنے لانا ضروری ہے۔
- ملک بھر میں مدح صحابہ کرامؓ و خلفاء راشدین، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہراتؓ و بنات مکرماتؓ کی مدح و تعظیم کے لیے مسلسل اجتماعات کا اہتمام کیا جائے اور ابلاغ کے دیگر میسر ذرائع کا اس کے لیے بھرپور استعمال کیا جائے۔
- اہل سنت کی مختلف جماعتوں اور حلقوں کے درمیان باہمی رابطوں اور مفاہمت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے اور مشترکہ جدوجہد کا ماحول بنایا جائے۔
- محرم الحرام کے دوران امن و امان کے قیام اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے کے لیے ہر سطح پر محنت کی جائے تاکہ اس صورتحال سے کوئی بیرونی قوت اپنے ایجنڈے کے لیے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
- ارکان اسمبلی اور دیگر ذمہ دار حضرات سے ملاقاتیں کر کے انہیں بریف کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
- اور تمام سنی جماعتوں کے سرکردہ قائدین باہمی مفاہمت و اعتماد کے ساتھ جلدازجلد مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کریں۔