۱۱ مارچ کو شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے علامہ اقبال آڈیٹوریم میں نصاب تعلیم کی یکسانیت کے مسئلہ پر منعقد ہونے والی قومی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس کا اہتمام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم کے تعاون سے اقبال انٹرنیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے کیا۔ اسلامی یونیورسٹی کے ری ایکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد معصوم یاسین زئی نے صدارت کی اور وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود مہمان خصوصی تھے۔ کانفرنس کی طرف سے جاری کردہ پریس رپورٹ درج ذیل ہے:
’’اسلام آباد ۔ ۱۱ مارچ (اے پی پی) وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود نے کہا ہے کہ نظام تعلیم کے اندر طبقاتی تفریق ہے جس کے خاتمہ اور قوم کو یکجا کرنے کیلئے یکساں نصاب لازم ہے، پرائمری کی سطح تک یکساں نصاب تعلیم تشکیل پا چکا ہے، ۲۰۲۱ء میں پرائمری سطح پر تمام بچے یکساں نصاب تعلیم پڑھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے زیر اہتمام ایک روزہ کانفرنس بعنوان ”یکساں قومی نصاب اور ہمارا نظام تعلیم” کے موضوع پر ایک روزہ کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شفقت محمود نے کہا کہ ۱۸ویں ترمیم کے بعد نصاب کا مسئلہ صوبائی حکومتوں کے سپرد تھا، اس چیلنج کو حل کرنے کیلئے قومی نصاب کونسل بنائی جس میں تمام شراکت داروں کو شامل کر کے نصاب پر کام شروع کیا جس کے نتیجہ میں حکومت پرائمری تک کے نصاب کو تیار کر چکی ہے، اس کے اطلاق کا وقت قریب ہے، ۱۹ مارچ کو ایک قومی کانفرنس کا انعقاد ہو گا جس میں یکساں نصاب کے اطلاق، زبان کے انتخاب اور دیگر اہم موضوعات پر بحث کی جائے گی۔ وفاقی وزیر تعلیم نے کہا کہ کونسل کے تشکیل کردہ نصاب کی روشنی میں نئی کتب، اساتذہ کی تربیت اور دیگر اہم معاملات پر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ۲۰۲۱ء میں تمام طبقات کے بچے پرائمری سطح تک ایک ہی نصاب پڑھیں گے۔ خالد رحمن نے اپنے خطاب میں تعلیم اور علم کے ذرائع اور تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے قومی تعلیمی منظرنامہ میں موجود نقائص اور بہتری کے پہلوؤں پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ حب الوطنی، مثبت سوچ، پروفیشنلزم، دینی تعلیمات پر عمل اور قانون کی بالادستی ایسے پہلو ہیں جن کو تعلیم کے ذریعے نوجوانان امت کی شخصیات کا حصہ بنایا جائے۔ ریکٹر جامعہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے اپنے خطاب میں امید ظاہر کی کہ تعلیم کے حوالے سے حکومتی وژن اور واضح پالیسی کامیابی کی ضمانت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم نظام کی نئی جہتوں کے حوالے سے اتفاق رائے کی ضرورت ہے، یکساں نظام تعلیم ایک اہم اقدام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نظام ایک متحد ملک کی طرف لے کر جائے گا۔ ڈاکٹر معصوم یاسین زئی کا کہنا تھا کہ اسلامی یونیورسٹی ادارہ تحقیق و مکالمہ کے ذریعے ایسے قومی نوعیت کے موضوعات پر پروگراموں کا انعقاد جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی یونیورسٹی مدارس کے طلباء اور دینی و عصری تعلیم دینے والے اداروں کو بھی ساتھ ملا کر مل کر کام کرنے کے منصوبوں پر کام کرنے کی خواہاں ہے۔ اس موقع پر رفیق طاہر نے یکساں نصاب تعلیم، منہج و پیشرفت کے موضوع پر خطبہ دیا جس میں انہوں نے وزارت تعلیم کی یکساں نصاب کیلئے کامیابیوں، اقدامات اور اس کی تشکیل کے مراحل کے حوالے سے تفصیلاً آگاہ کیا۔ اس کانفرنس میں شرکاء نے برصغیر میں یکساں نصاب تعلیم، نصاب تعلیم اور اقلیتیں، یکساں نصاب تعلیم اور تربیت اساتذہ سمیت دیگر کئی ایک موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس میں ریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ڈاکٹر معصوم یاسین زئی سمیت صدرِ جامعہ ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش، انسٹیٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز کے سربراہ خالد رحمان، محمد رفیق طاہر، معروف عالم دین مولانا زاہد الراشدی، معروف دانشور خورشید ندیم، ڈاکٹر ثمینہ ملک، ذیشان عباسی، ڈاکٹر اکرام الحق یاسین، ذیشان عباسی، ڈاکٹر خالد مسعود، ڈاکٹر شمسہ عزیز اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔‘‘
کانفرنس میں راقم الحروف کو بھی معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جن کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ ملک میں تعلیمی نصاب و نظام کے دوہرے پن کو ختم کرنے اور خاص طور پر دینی و عصری تعلیم کے نصاب و نظام میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے قومی سطح پر جو کوششیں جاری ہیں میں ان کے مؤیدین اور ناقدین دونوں کی صف اول میں شامل ہوں۔
مؤیدین میں تو اس لیے کہ میں خود گزشتہ نصف صدی سے اس کا داعی چلا آرہا ہوں، اس دوران اس اہم قومی مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر میرے بیسیوں مقالات و مضامین متعدد جرائد اور اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں جو ویب سائیٹ zahidrashdi.org پر پڑھے جا سکتے ہیں۔ اور میں صرف قلم و زبان سے نہیں بلکہ عملاً بھی اس مہم کا حصہ ہوں، ہم نے اب سے ربع صدی قبل گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے عنوان سے پرائیویٹ سطح پر اس سلسلہ میں ایک عملی منصوبے کا آغاز کیا تھا جس میں ممتاز اصحاب علم و دانش اور اصحاب خیر کے ساتھ ساتھ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ بھی ہمارے ساتھ سرپرست بلکہ عملاً شریک کار تھے۔ یہ تعلیمی منصوبہ اب جامعۃ الرشید کراچی کے نظم و پروگرام کے تحت جامعہ شاہ ولی اللہؒ کے نام سے مصروف کار ہے۔ جبکہ میرا بڑا بیٹا ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر اپنے رفقاء کی ٹیم کے ساتھ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ سے اس جدوجہد کو آگے بڑھا رہا ہے۔ گویا اس اہم قومی و دینی ضرورت کے لیے ایک خالص مولوی خاندان کی تین پشتیں نصف صدی سے مصروف عمل ہیں، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔
جبکہ ناقد اس لیے ہوں کہ جس انداز سے یہ کام کرنے کی سرکاری سطح پر محنت ہو رہی ہے مجھے اس کا طریق کار، ترجیحات اور اہداف سمجھ میں نہیں آرہے اور میں اس سلسلہ میں شدید تحفظات رکھتا ہوں۔ یکساں نصاب تعلیم کے لیے قائم کی جانے والی قومی نصاب کمیٹی کے سربراہ جناب محمد رفیق طاہر تشریف فرما ہیں اور میں ان کی موجودگی میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان تحفظات پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جن پر آف دی ریکارڈ بات چیت کو زیادہ مناسب خیال کرتا ہوں اور کچھ ایسے ہیں جن پر کھلے بندوں گفتگو ہونی چاہیے، ان میں سے دو کا تذکرہ اس موقع پر کرنا چاہوں گا۔
ایک یہ کہ اس عمل میں ماضی کے سارے پس منظر اور تاریخی مراحل کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، مثلاً درس نظامی کا آغاز اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور میں حضرت ملا نظام الدین سہالویؒ کی مساعی سے ہوا تھا۔ لکھنو کے فرنگی محل سے یہ شروع ہوا اور رفتہ رفتہ پورے برصغیر میں پھیل گیا۔ اس کا تسلسل ۱۸۵۷ء تک ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ تک قائم رہا، حتٰی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سو سالہ دور میں بھی یہی نصاب و نظام چلتا رہا۔ اس نصاب میں قرآن کریم، حدیث و سنت، فقہ و شریعت، عربی زبان اور فارسی کے ساتھ ساتھ اس دور کے معقولات، فلسفہ، سائنس (فلکیات)، طب (میڈیکل)، معیشت، ریاضی، جغرافیہ، تاریخ، اخلاقیات وغیرہ کے سارے ضروری مضامین شامل تھے۔ یعنی جو مضامین اب دینی مدرسہ میں پڑھائے جاتے ہیں اور جو مضامین سکول و کالج کے نصاب میں شامل ہیں وہ سب درس نظامی کا حصہ تھے، جو ایک ہی درسگاہ میں ایک ہی تپائی پر اور ایک ہی چھت کے نیچے پڑھائے جاتے تھے۔ ۱۸۵۷ء میں جب تاب برطانیہ نے اس خطہ کا نظام سنبھالا تو اس کے قائم کردہ نئے تعلیمی نصاب میں قرآن کریم، حدیث و سنت، فقہ و شریعت، عربی اور فارسی کو شامل نہیں کیا گیا۔ جس سے ان مضامین کی تعلیم ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ چنانچہ اس ضرورت کو پورا کرنے اور خلا کو پر کرنے کے لیے دینی مدارس وجود میں آئے جو بحمد اللہ تعالٰی اب تک مصروف کار ہیں۔ اس تاریخی پس منظر کا تقاضا تھا کہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان قائم ہو جانے کے بعد انگریزوں کی جگہ اس ملک کا نظام سنبھالنے والے طبقے اور ادارے ان مضامین کو دوبارہ قومی نصاب تعلیم کا حصہ بنا لیتے جو ۱۸۵۷ء کے بعد نصاب سے خارج کر دیے گئے تھے۔ یہ اس مسئلہ کا فطری حل اور تعلیمی نظام و نصاب کے دوہرے پن کو ختم کرنے کا نارمل طریقہ تھا جو ابھی تک نہیں کیا گیا، اور نہ ہی اب ریاستی نظام تعلیم اور پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کا سسٹم اس کے لیے تیار ہے۔ اس لیے مجھے یہ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ ایسا کیے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ قرآن کریم، حدیث، فقہ اور عربی مضامین کی تعلیم کو نہ قومی ضروریات کی فہرست سے نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی قوم اس کے لیے تیار ہو گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اب بھی جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ یکطرفہ ہے۔ دینی مدارس کے سامنے تو تقاضوں کی ایک طویل فہرست رکھ دی گئی ہے مگر ریاستی نظام تعلیم اور پرائیویٹ تعلیمی سسٹم ان چاروں ضروری مضامین سے کسی مضمون کو اس سطح پر اپنے نصاب کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہے جس سطح پر قوم اور معاشرہ کو ان کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر مجھے یہ کہاوت یاد آ رہی ہے کہ کسی ریسٹورنٹ کے دروازے پر بورڈ آویزاں تھا کہ یہاں گھوڑے اور خرگوش کا گوشت مکس پکایا جاتا ہے۔ لوگ شوق سے آ کر کھاتے تھے۔ ایک روز کسی شخص نے ریسٹورنٹ کے مینیجر سے پوچھ لیا کہ گھوڑے اور خرگوش کا گوشت آپ کس تناسب سے مکس کرتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ برابر برابر۔ پوچھا گیا کہ برابر برابر کس طرح؟ تو جواب ملا کہ ایک گھوڑا اور ایک خرگوش۔
میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اگر تعلیمی نصاب و نظام میں یکسانیت پیدا کرنا واقعتًا مقصود ہے تو اس کے لیے اس تقسیم سے پہلے کی پوزیشن پر واپس جانا ہوگا جو ۱۸۵۷ء کے بعد کی گئی تھی، اس کے بغیر ایک گھوڑا اور ایک خرگوش کا فارمولا نہ فطری ہے اور نہ ہی قابل عمل ہو گا۔