پاکستان میں ایران کے سفیر جناب مہدی اخوند زادہ نے امریکی عزائم کو پاکستان، ایران اور افغانستان کے لیے یکساں طور پر خطرناک قرار دیتے ہوئے تینوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی مفاہمت و تعاون کی ضرورت و اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے چار تجاویز پیش کی ہیں۔
ہمیں سفیر محترم کی ان تینوں باتوں سے اتفاق ہے۔ اول یہ کہ فی الواقع امریکی عزائم ان تینوں ممالک کے لیے یکساں خطرہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، دوم یہ کہ تینوں ممالک کو اس سلسلہ میں مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ، اور سوم یہ کہ پاکستان اور ایران کے درمیان اس بارے میں زیادہ سے زیادہ باہمی مفاہمت اور تعاون کی ضرورت ہے۔ مگر طالبان کی حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے جو مطالبات اور تجاویز پیش کی ہیں وہ ہمارے نزدیک بحث طلب ہیں اور ہم اس سلسلہ میں کچھ معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
مثلاً ایران کے سفیر محترم نے پہلا مطالبہ یہ کیا ہے کہ طالبان کی حکومت ان ایرانی سفارت کاروں کو غیر مشروط طور پر رہا کر دے جو ان کے بقول مزار شریف پر قبضہ کے موقع پر گرفتار کیے گئے تھے۔ اس سلسلہ میں جہاں تک ہماری معلومات ہیں طالبان کی حکومت کا موقف یہ ہے کہ مزار شریف پر قبضہ کے موقع پر ایرانی قونصل خانے میں کوئی شخص موجود نہیں تھا اور نہ ہی وہاں سے کسی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم دوسرے مقامات سے کچھ ایرانی شہری حراست میں لیے گئے ہیں اور ان کے ساتھ اسلحہ کی ایک بڑی مقدار بھی تحویل میں لی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ طالبان کے خلاف جنگ میں ان کے مخالف شمالی اتحاد کے ساتھی تھے اور وہ جنگی قیدی ہیں۔ ہم سفارت کاروں کی غیر مشروط رہائی کے مطالبہ کی تائید کرتے ہیں لیکن اگر طالبان کا یہ موقف درست ہے تو جنگی قیدیوں کو سفارت کار قرار دے کر ان کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرنا سفیر محترم کو زیب نہیں دیتا اور نہ ہی اس کی حمایت کی جا سکتی ہے۔
جناب مہدی اخوند زادہ نے طالبان کی حکومت سے دوسرا مطالبہ یہ کیا ہے کہ شمالی اتحاد کی جماعتوں کو افغانستان کی حکومت میں شریک کیا جائے۔ یہ در اصل اس مطالبہ کا اعادہ ہے جو دنیا کی مختلف حکومتوں کی طرف سے افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے عنوان سے ایک عرصہ سے کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ مطالبہ بھی قرین انصاف نہیں ہے۔ اول اس لیے کہ شمالی اتحاد میں شامل انہی جماعتوں کی باہمی خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر قتل و غارت اور بد امنی کے ردعمل میں ہی طالبان کی تحریک اٹھی تھی۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ طالبان نے ان جماعتوں کی پیدا کردہ بد امنی اور غارت گری سے نجات دلا کر افغان عوام کو امن فراہم کیا ہے۔ اس لیے اگر طالبان ان کی جماعتوں کو اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کر لیتے ہیں تو خود ان کے اپنے وجود کا جواز ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اس دعوے کی اخلاقی بنیادوں سے محروم ہو جاتے ہیں کہ وہ ان لیڈروں کی اقتدار کی جنگ سے افغان عوام کو نجات دلانے کے لیے میدان میں آئے ہیں۔ دوم اس لیے کہ اب تو میدان جنگ میں بات بہت آگے بڑھ چکی ہے اور شمالی اتحاد کے لیڈر سمٹ سمٹا کر ایک محدود خطہ میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس لیے انہیں اقتدار میں شریک کرنے کی تجویز ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص حکومت ایران سے مطالبہ کرے کہ چونکہ مسعود رجائی کی خلق پارٹی اور آیت اللہ شریعت مدار کے حامی علماء بھی ایرانی عوام ہی کے ایک معتد بہ حصے کی نمائندگی کرتے ہیں اس لیے ایران میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے لیے انہیں بھی اقتدار میں شریک کیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایران کے سفیر محترم اس تجویز پر لاحول ولا قوۃ پڑھنے کے سوا کوئی اور تبصرہ نہیں کر سکیں گے۔
ایرانی سفیر کا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ طالبان کی حکومت افغانستان کے داخلی معاملات میں ان کے بقول سخت گیر اور انتہا پسندانہ طرز عمل کو ختم کر کے متوازن پالیسیاں اختیار کرے۔ طالبان کی داخلی پالیسیوں کے بارے میں اس سے پہلے بھی بعض ایرانی لیڈروں کا یہ تبصرہ سامنے آچکا ہے کہ طالبان اسلام کی انتہا پسندانہ تعبیر پیش کر رہے ہیں اور اسلام کی تصویر کو خراب کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی توجہ طلب ہے اس لیے کہ خود ایران کے مذہبی رہنماؤں نے اپنے ملک میں اسلام کی جس تعبیر کو اختیار کیا ہے وہ عالم اسلام کے اجتماعی رجحانات سے مطابقت نہیں رکھتی اور اس کی بنیاد ایران کی اکثریتی آبادی کے فقہی مذہب اثنا عشری پر ہے۔ حتیٰ کہ ایرانی دستور کی بنیاد ’’ولایت فقیہ‘‘ کے جس فلسفے پر ہے وہ خالصتاً فرقہ وارانہ اور انتہا پسندانہ ہے جو موجودہ عالمی رجحانات تو کجا، ملت اسلامیہ کی اکثریت کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود چونکہ وہ ایرانی باشندوں کی اکثریت کے فقہی مذہب کی رو سے ضروری ہے اس لیے اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اور ایرانی قوم کا یہ حق تسلیم کر لیا گیا ہے کہ وہ اسلام کی تعبیر اور اسلامی قوانین کے نفاذ میں اپنے اکثریتی مذہب کو بنیاد بنائے، وہ خواہ ان کے علاوہ مسلمانوں کے کسی گروہ کے لیے بھی قابل قبول نہ ہو۔ ہمارا خیال ہے کہ اسی اصول پر ایرانی لیڈروں کو افغان عوام کا بھی یہ حق تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ میں اسی تعبیر کو اختیار کریں جو ان کی اکثریتی آبادی کے فقہی مذہب سے مطابقت رکھتی ہے۔ اور جس طرح ایران میں دینی معاملات کو طے کرنے میں وہاں کی اکثریتی آبادی کے فقہی مذہب کے علماء فائنل اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں اسی طرح افغانستان میں بھی افغان علماء کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنے فقہی اصولوں کے مطابق دینی اصول و احکام طے کریں۔ اس میں کوئی الجھاؤ کی بات نہیں اور یہ بالکل سادہ اور منطقی اصول ہے کہ ہر مسلم ملک میں اسلامی احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح وہاں کی اکثریتی فقہی مذہب کے مطابق ہو اور اس میں اسی فقہ کے علماء کو اتھارٹی تسلیم کیا جائے۔
جہاں تک اسلام کی نیک نامی یا بدنامی کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مقابلے کا میدان ہے، اگر طالبان کی حکومت اپنے دعوؤں کے مطابق افغان عوام کو امن اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہی وقتی طور پر بدنامی کا باعث بننے والی سخت پالیسیاں اپنے نتائج کے لحاظ سے باقی دنیا کے لیے بھی قابل تقلید بن سکتی ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ طالبان اپنے دعوؤں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے تو تاریخ کے عجائب گھر میں ابھی بہت سے خانے خالی ہیں کسی ایک میں وہ بھی فٹ ہو جائیں گے۔ لیکن اس کا فیصلہ ہونے میں ابھی کچھ وقت درکار ہے جس کا سب کو حوصلے کے ساتھ انتظار کرنا چاہیے۔
جناب مہدی اخوند زادہ نے طالبان کی حکومت سے چوتھا مطالبہ یہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی اصولوں اور ضابطوں کو قبول کریں اور ان کی پابندی کریں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں ایرانی سفیر کے اس مطالبے پر سب سے زیادہ تعجب ہوا ہے کیونکہ ایک نظریاتی مذہبی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے ان سے کسی بھی درجے میں اس مطالبے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس لیے کہ وہ مروجہ بین الاقوامی اصولوں اور ضابطوں کے فریم ورک کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی بنیاد مغرب کے سیکولر فلسفے اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر ہے جسے اسلامی تعلیمات قبول نہیں کرتیں۔ اور کسی بھی ملک میں اسلامی نظام کے مکمل نفاذ کا دعویٰ رکھنے والی حکومت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ موجودہ بین الاقوامی ضابطوں اور اصولوں کی پابندی قبول کرتے ہوئے اسلام کی مکمل عملداری کے پروگرام پر عمل کر سکے۔ اور اگر کوئی مسلم حکومت اس کا دعویٰ رکھتی ہے تو وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ضرور منافقت کر رہی ہے۔ اب تو اس سلسلہ میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ موجودہ عالمی اسٹرکچر اور اسلام آمنے سامنے کھڑے ہیں اور اگلی صدی کی قیادت سنبھالنے کے لیے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ ان میں مفاہمت و مصالحت کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اور اب یہ فیصلہ میدان میں ہی ہوگا کہ اگلی صدی میں انسانی سوسائٹی کی قیادت اسلام اور موجودہ عالمی نظام میں سے کس نے کرنی ہے۔ اس لیے اگر اس فضا میں کوئی شخص کسی اسلامی حکومت یا تحریک کو مروجہ بین الاقوامی ضابطوں اور اصولوں کی پابندی کی تلقین کرتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ میدان جنگ میں اسلام کو کفر کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کا مشورہ دے رہا ہو۔
جناب مہدی اخوند زادہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کی اسلامی تحریکات کی طالبان کے ساتھ دلچسپی اور ہمدردی صرف اس وجہ سے ہے کہ طالبان کی حکومت اپنے ملک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کی دعوے دار ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے بین الاقوامی ضابطوں اور قوانین کو قبول نہیں کر رہی۔ گزشتہ سال لندن میں چند اسلامی تحریکات کے ایک اجلاس میں ایک ممتاز عرب دانشور نے کہا کہ ہم تو صرف اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ طالبان موجودہ عالمی سسٹم کے فریم ورک کو قبول کر کے اسلام کو اس کے تابع کرتے ہیں یا اسلام کو اس کے مقابل ایک مستقل سسٹم کے طور پر پیش کر کے ایک نئے عالمی دور کا نقطۂ آغاز بنتے ہیں۔ کیونکہ یہی اصل ٹرننگ پوائنٹ ہے جہاں سے اسلام کی طرف انسانی معاشرہ کی واپسی کا سفر شروع ہوگا۔ اور کیا بعید کہ قدرت نے یہ سعادت طالبان کے حصے میں ہی لکھ رکھی ہو۔
اس لیے ہم جناب مہدی اخوند زادہ اور ایرانی حکومت کے ذمہ دار حضرات سے گزارش کریں گے کہ وہ معروضی حقائق کو نظر انداز نہ کریں اور طالبان کی اسلامی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے اسے سپورٹ کریں۔ اور اس خطہ بلکہ پورے عالم اسلام میں امریکہ کے خطرناک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے فرقہ وارانہ ترجیحات اور تحفظات سے بالاتر ہو کر باہمی تعاون کو فروغ دیں، کیونکہ موجودہ عالمی تناظر میں امریکہ کو شکست دینے اور اس کے اسلام دشمن عزائم کو خاک میں ملانے کا واحد راستہ یہی ہے۔