جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر کا آغاز، جس کو گھر کہتے ہیں، یہ ہوا تھا ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنہا سے جب حضورؐ کا نکاح ہوا تو وہاں سے حضورؐ کی گھریلو زندگی کا آغاز ہوا۔ مکہ مکرمہ میں جناب نبی کریمؐ نے حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کی حیات میں اور کوئی نکاح نہیں کیا۔ پچیس سال کی عمر میں نبی کریمؐ کا نکاح ہوا تھا، اور پچیس سال ہی ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کے ساتھ گزارے ہیں۔ گیارہ نبوی میں ان کا انتقال ہوا تھا۔
پہلی بیوی بھی تھیں، بچوں کی ماں بھی تھیں۔ جناب نبی کریمؐ کی ساری کی ساری اولاد، سوائے حضرت ابراہیمؓ کے، حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ سے تھی۔ چاروں بیٹیاں، بیٹے چار، یا تین، یا پانچ، علیٰ اختلاف الروایات۔ حضرت قاسمؓ کے بارے میں تو آتا ہے کہ حضورؐ کے بیٹے تھے، بلوغت کے قریب پہنچے تھے، تیرہ چودہ سال کی عمر، گھوڑے پر سواری کر لیتے تھے، ان کا انتقال ہو گیا، انہی کی نسبت سے جناب نبی کریمؐ کو ابوالقاسم کہا جاتا ہے، حضورؐ کی کنیت ہے ابوالقاسم، حضرت قاسمؓ کی نسبت سے۔ عبد اللہ بھی نام آتا ہے ایک بچے کا، طاہر بھی آتا ہے، طیب بھی آتا ہے، لیکن جوان کوئی نہیں ہوا۔ جوان بیٹیاں ہوئی ہیں۔ جوان بھی ہوئی ہیں، شادیاں بھی ہوئی ہیں، اولاد بھی ہوئی ہے، نبی کریمؐ نے بیٹیوں کو پالا بھی ہے، بیٹیوں کو عزت بھی دی ہے، بیٹیوں کی اولاد کو بھی پالا ہے، نواسے بھی پالے ہیں۔ پوتا تو حضورؐ کے پاس نہیں تھا لیکن ایک تھا جس کو پوتے کی طرح پالا تھا، اسامہ بن زیدؓ، حضورؐ کے ہاتھوں میں پرورش ہوئی ہے، حضورؐ کے ہاتھوں میں پلے ہیں، اور پوتوں جیسی محبت ہی اسامہ بن زیدؓ کو ملی ہے۔
میں بات حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کی کر رہا تھا، میاں بیوی کی وہ محبت اور میاں بیوی کا وہ تعلق پوری دنیا کے لیے مثالی ہے آئیڈیل ہے۔ حضرت خدیجہ الکبرٰیؓ مکہ مکرمہ کی بڑی مالدار خاتون تھیں، اور سارے کا سارا مال کس پر خرچ ہوا تھا؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ حضور نبی کریمؐ فرمایا کرتے تھے کہ دو آدمیوں کے احسان میں نہیں بھلا سکتا، اپنا سب کچھ مجھ پر نچھاور کر دیا۔ مردوں میں حضرت ابوبکرؓ اور عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ۔
میاں بیوی کا تعلق کیا ہوتا ہے، اس سے اندازہ کیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب غار حرا میں وحی آئی ہے، اور وہ واقعہ جو زندگی میں پہلا اور انوکھا واقعہ تھا، حضورؐ پر گھبراہٹ طاری ہوئی ہے، حضورؐ کہتے ہیں مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا، تو اس وقت حضورؐ کو سنبھالنے والی کون تھیں؟ حضرت خدیجہؓ۔ بیوی کا یہی کام ہوتا ہے کہ خاوند کی پریشانی میں اضافہ نہیں کرنا، خاوند کی پریشانی میں اس کے کام آنا ہے۔ آئیڈیل بیوی کا یہی کام ہوتا ہے کہ خاوند پریشان ہے مضطرب ہے، حضورؐ کے الفاظ ہیں ’’انی اخاف علیٰ نفسی‘‘ مجھے اپنے اوپر ڈر لگنے لگا تھا غارِ حرا کا واقعہ دیکھ کر۔ اس وقت سنبھالا کس نے ہے، حوصلہ کس نے دیا ہے، صبر کس نے دلایا ہے، ساتھ کس نے دیا ہے؟ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ یاد بھی ریہی ہیں، یہ مکہ میں فوت ہو گئی تھیں ۱۱ نبوی میں۔ مدینہ جا کر حضورؐ نے اور نکاح بھی کیے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ حضورؐ کی بیویوں میں حضورؐ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں، ابوبکرؓ کی بیٹی بھی تھیں، ذہین خاتون تھیں، اللہ تعالیٰ نے بہت کمالات سے نوازا تھا، سوکنیں ان کی بہت تھیں، بیک وقت نو بیویاں تھیں حضورؐ کی۔ کہتی ہیں کہ مجھے کسی پر اتنی غیرت نہیں آتی تھی جتنی اس وقت غیرت آتی تھی جب حضورؐ بار بار خدیجہؓ کا ذکر کرتے تھے، خدیجہؓ ایسے تھی، خدیجہؓ نے یہ کیا، خدیجہؓ نے وہ کیا۔ بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ! وہ بڑھیا آپ کو بھولتی نہیں؟ ہر بات پر خدیجہؓ ایسے تھی، خدیجہؓ ایسے تھی، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھی بیویاں دے دی ہیں۔ اور اچھی تھیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ آپؐ جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے، خدیجہؓ کی کوئی سہیلی آتی ہے تو کہتے ہیں کہ اسے کھلاؤ پلاؤ، خدیجہؓ خدیجہؓ کرتے رہتے ہیں آپؑ، تو وہ آپ کو بھولتی نہیں ہے؟ تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملے میں یہ بات کہہ دی، اللہ اکبر، عائشہ! وہ میرے دکھ کے وقت کی ساتھی تھی۔ دکھ کے وقت کا ساتھی کبھی بھولتا ہے؟ وہ تکلیفوں کا دور، وہ آزمائشوں کا دور، وہ طعن و تشنیع کا دور، اذیتوں کا دور، کیسے بھول سکتی ہے۔ تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا آغاز ہوا تھا ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے۔