لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک مساج پارلر پر چھاپہ مارا اور وہاں کام کرنے والی لڑکیوں اور کارکنوں کو یرغمال بنا کر لال مسجد میں لے آئے جن میں چین کے باشندے بھی تھے۔ اس پر اسلام آباد کی انتظامیہ نے لال مسجد کی انتظامیہ سے بات چیت کی اور اسلام آباد میں چین کے سفیر محترم بھی حرکت میں آئے جس پر لال مسجد کی انتظامیہ نے اسلام آباد کی انتظامیہ کے اس وعدہ پر ان یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے کہ اسلام آباد میں ان مساج پارلروں کو بند کر دیا جائے گا۔ مساج پارلروں میں نوجوان اور نوعمر لڑکیاں مردوں کو مساج کرتی ہیں اور اس بہانے بدکاری اور فحاشی کا بازار گرم ہوتا ہے، یہ بے حیائی، فحاشی اور بدکاری کے اس قدر عریاں مراکز ہوتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ کے کھلے ماحول میں بھی انہیں اس طرح برداشت نہیں کیا جاتا۔ ملک کے معروف کالم نگار جناب اوریا مقبول جان نے روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ میں ۲۵ جون ۲۰۰۷ء کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں بتایا ہے کہ ۸ دسمبر ۲۰۰۶ء کو کینیڈا کے شہر وینکور میں مساج پارلروں پر چھاپہ مار کر ۱۰۸ افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں ۸۸ عورتیں ایسی تھیں جنہیں ایشیا اور دیگر ایشیائی ملکوں سے لایا گیا تھا، ۱۷ مئی ۲۰۰۶ء کو امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں ایک سو مساج پارلروں پر چھاپے مار کر ان کو بند کر دیا گیا، ۱۲ اگست ۲۰۰۶ء کو امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں ۱۳ مساج پارلروں پر چھاپے مار کر ۳۵ عورتوں کو اس جنسی غلامی سے نجات دلائی گئی اور ۱۸ نومبر ۲۰۰۵ء کو لندن میں ۷۵ مساج پارلروں پر چھاپہ مارا گیا۔ ان مساج پارلروں کا مکروہ دھندہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور غریب ملکوں کی نوجوان اور نوعمر لڑکیوں کو روزگار اور بہتر زندگی کے لالچ میں بھرتی کرکے ان سے مساج کے نام پر جنسی مزدوری کرائی جا رہی ہے۔
لال مسجد کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے مکروہ جنسی کاروبار اور فحاشی کے ان اڈوں کو بند کرانے کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے۔ ہمیں لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ کے طریق کار سے اختلاف ہے اور ہم قانون کو ہاتھ میں لینے کی کسی صورت کو بھی موجودہ حالات میں درست نہیں سمجھتے، لیکن یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس قسم کے مساج پارلروں کی موجودگی اور ان کے بڑھتے ہوئے کاروبار پر حکومتی اداروں، دینی و سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی مسلسل اور مجرمانہ خاموشی کا ردعمل اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہم جہاں لال مسجد کی انتظامیہ سے یہ گزارش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے طریق کار پر نظر ثانی کرے اور ملک کے اکابر علماء کرام کی مشاورت اور راہنمائی میں اپنی جدوجہد کے خطوط اور طریق کار نئے سرے سے طے کریں وہاں حکومت اور دینی و سیاسی جماعتوں سے بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور بدکاری کا راستہ روکنے کے لیے اپنا دینی دستوری اور ملی فریضہ ادا کرنے کی کوئی مؤثر صورت نکالیں، ورنہ اسی طرح خاموش تماشائی بنے رہیں گے تو اس کا ردعمل کسی نہ کسی صورت میں تو ظاہر ہوگا کیونکہ اگر پریشر ککر کی بھاپ کو سیفٹی والو فراہم نہیں کیا جائے تو اس کے پھٹنے کے امکانات کو نہیں روکا جا سکتا۔