اے ایف پی کے مطابق حرم کعبہ کے امام محترم الشیخ عبد الرحمن السدیس نے ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے عراق کی صورتحال کے حوالے سے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ شکست سے مایوس نہ ہوں بلکہ اس کے اسباب کا جائزہ لیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں امام محترم کے اس ارشاد سے مکمل اتفاق ہے کیونکہ شکست اور ناکامی سے مایوس ہو کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا زندہ قوموں کا شعار نہیں۔ زندگی کی حرارت رکھنے والی قومیں اپنی ناکامی اور شکست کے اسباب کا جائزہ لیتی ہیں اور ان کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کے لیے اپنی ترجیحات اور طرز عمل پر نظر ثانی کرتی ہیں۔ یہ آج کے حالات میں اور بھی ضروری ہے اس لیے کہ عراق میں شکست اور پسپائی پر معاملہ رکا نہیں بلکہ شکست دینے والی قوتوں نے بغداد پر قبضے کے ساتھ ہی شام کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں اور شامی حکومت کے ساتھ امریکی اتحاد وہی زبان بول رہا ہے جو اس سے قبل عراق کی صدام حکومت کے ساتھ بولی جا رہی تھی۔ الزامات اور دھمکیاں بھی وہی ہیں جو صدام حکومت کو دی جاتی رہی ہیں جبکہ معاملہ اس پر بھی بس نہیں کہ اس کے بعد کی فہرست بھی اہل نظر سے مخفی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے ’’ہماری باری نہیں آئے گی‘‘ کا ورد کرنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ کس کس کی باری آنے والی ہے اور اس فہرست میں ان کا نام کس نمبر پر لکھا ہوا ہے۔
ہمارے لیے قرآن کریم کی رہنمائی بھی یہی ہے کہ ناکامی کے اسباب پر غور کریں، پسپائی کے عوامل کا تجزیہ کریں، اپنی صف بندی اور ترجیحات پر نظر ثانی کریں، اور اپنے طرز عمل کا ازسرنو جائزہ لیں۔ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر قیادت لڑی جانے والی جنگوں میں احد اور حنین کے معرکوں میں مسلمانوں کو وقتی طور پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا، صحابہ کرامؓ کے قدم اکھڑ گئے تھے، لشکر تتر بتر ہوگیا تھا، اور جناب رسول اللہؐ چند ساتھیوں کے ساتھ نہ صرف میدان جنگ میں تنہا رہ گئے تھے بلکہ احد میں زخمی بھی ہوئے تھے۔ قرآن کریم نے دونوں مواقع کے حوالے سے اسباب کا جائزہ لیا ہے اور تفصیل کے ساتھ اس وقتی پسپائی کے عوامل کی نشاندہی کرتے ہوئے مسلمانوں کو بہت سی تنبیہات بھی کی ہیں جو قیامت تک ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور ہمیں یہ اصولی ہدایت دیتی ہیں کہ ناکامی اور پسپائی کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینا اور ان کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد ہی مستقبل کی صف بندی کو صحیح طور پر منظم کیا جا سکتا ہے۔
ان حالات میں امام کعبہ شیخ عبد الرحمن السدیس کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے ہم اپنے مطالعہ، معلومات، اور مشاہدات و تاثرات کے حوالے سے اس پسپائی اور شکست کے اسباب و عوامل کا ایک سرسری اور ابتدائی جائزہ پیش کر رہے ہیں۔
(۱) خلافت اسلامیہ کی عدم موجودگی
ہمارے نزدیک نہ صرف عراق کی حالیہ شکست بلکہ پورے عالم اسلام کی موجودہ زوال پذیر صورتحال کا سب سے پہلا اور بڑا سبب خلافت اسلامیہ کا خاتمہ ہے جو ۱۹۲۴ء تک کسی نہ کسی حالت میں موجود تھی۔ لیکن گزشتہ صدی کے آغاز میں ہمارے دشمنوں نے خود ہمارے ہی ہاتھوں سے خلافت عثمانیہ کا بوریہ بستر گول کرا دیا اور ہم ایک عالمی سیاسی و دینی مرکز سے محروم ہو کر علاقائی قومیتوں کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے اسباب کیا تھے؟ اس پر مستقل بحث کی ضرورت ہے اور ہمیں اس سے اتفاق ہے کہ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں مغربی استعمار نے جن حالات سے فائدہ اٹھایا اور جن وجوہ کی بناء پر اسے خلافت عثمانیہ کا تیاپانچہ کرنے میں kکامیابی حاصل ہوئی وہ حالات اور وجوہ زیادہ تر خود ہمارے اپنے پیدا کردہ تھے کہ ہم نے اپنی نا اہلی اور بے بصیرتی کے باعث دشمن کو یہ موقع فراہم کیا تھا کہ وہ آگے بڑھے اور ایک کاری ضرب لگا کر ہمیں ہماری سیاسی مرکزیت سے محروم کر دے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے اسباب میں سے دو بڑے اسباب کا اس موقع پر تذکرہ شاید نامناسب نہ ہو۔
پہلا سبب یہ تھا کہ خاندانی سیاسی نظام کے تسلسل نے عالم اسلام کی رائے عامہ اور حکومتی ڈھانچے کے درمیان اعتماد کا وہ رشتہ باقی نہیں رہنے دیا تھا جو نہ صرف یورپ کی سیاسی بیداری کے پس منظر میں ضروری ہوگیا تھا بلکہ خود اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی تھا۔ چنانچہ خلافت عثمانیہ کے خاندانی سیاسی ڈھانچے اور عالم اسلام کی رائے عامہ کے درمیان سیاسی رابطے اور اعتماد کے فقدان سے جو خلاء پیدا ہوگیا تھا اسے یورپ کے مکار ذہن نے علاقائی قومیتوں کے بت کھڑے کر کے پر کر دیا اور یوں خلافت عثمانیہ فضا میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔
دوسرا اور سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ سائنس و ٹیکنالوجی اور عسکری شعبہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے آنکھیں بند کر کے خلافت عثمانیہ نے روایتی اداروں اور طریقہ کار پر قناعت جاری رکھی۔ جبکہ اس کے پڑوس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی نے نہ صرف معاشی، صنعتی، اور تجارتی شعبوں میں اس کے حریفوں کو اس کے مقابلہ میں سبقت دلا دی تھی بلکہ عسکری مہارت اور اسلحہ سازی میں بھی انہوں نے خلافت عثمانیہ کو آثار قدیمہ کی صف میں کھڑا کر دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت عثمانیہ اپنے حریفوں کا سامنا نہ کر سکی اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کے ساتھ کھڑے ہو کر میدان جنگ میں کود پڑنے کے رسک نے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ورنہ حجاز مقدس، شام، فلسطین، عراق، اردن، اور دیگر متعلقہ علاقے خلافت عثمانیہ ہی کا حصہ تھے، اسی کے صوبے تھے، اور ان علاقوں پر صدیوں سے خلافت عثمانیہ کی حکمرانی چلی آرہی تھی۔پہلی جنگ عظیم میں اگر جرمنی کے ساتھ خلافت عثمانیہ بھی شکست سے دوچار نہ ہوجاتی تو ابھی اس میں اتنا دم خم ضرور موجود تھا کہ وہ نہ صرف مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام کو روک سکتی تھی بلکہ اپنے آخری دور میں مشرق وسطیٰ میں دریافت ہونے والے تیل کے وسیع ذخائر کو مناسب طور پر سنبھالنے اور عالم اسلام کی ترقی و استحکام کے لیے کام میں لانے کا کسی نہ کسی صورت میں بندوبست کر سکتی تھی۔ لیکن خلافت عرب اور ترک قومیتوں کے نام پر دشمن کی سازش کا شکار ہوئی اور شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کے آلۂ کار بن کر ہم نے خلافت کے ڈھانچے کو برباد کر دیا جس کا نتیجہ آج ہم سب بھگت رہے رہیں۔
(۲) عربوں کی بے بصیرتی
اگر امام کعبہ ناراض نہ ہوں تو عالم اسلام کی موجودہ زبوں حالی کے دوسرے بڑے سبب کے طور پر اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ترکوں نے تو یورپی برادری میں شامل ہونے کے شوق میں اپنی قسمت یورپ کے ساتھ وابستہ کر ہی لی تھی مگر بدقسمتی سے ہمارے عرب حکمرانوں نے بھی خود کو یورپی سیاست و معیشت کے زیر سایہ رکھنے میں ہی عافیت محسوس کی۔ ہم نے یورپ کی مرضی اور ایجنڈے کے مطابق عرب دنیا کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر لیا، اس مقصد کے لیے ہر خطے کے حکمرانوں کے ساتھ برطانیہ نے الگ الگ معاہدے کیے جو تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت و سیاست و دفاع کے تینوں شعبے یورپ اور اس کے بعد امریکہ کے حوالے کر دیے، تیل سے حاصل کردہ وسیع ذخائر ان کے کنٹرول میں دے دیے، تیل کی دولت انہی کے بینکوں میں جمع کرا دی، اور اپنے ملکوں میں ہم نے اس خداداد نعمت سے قومی اور ملی مقاصد کی طرف پیش رفت کرنے کی بجائے بے مصرف بلڈنگیں کھڑی کرنے اور عیاشی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں اس دولت کو برباد کر دیا۔ یہ دولت نہ سائنسی ترقی کا ذریعہ بنی، نہ تعلیم و تربیت کے شعبہ میں کام آئی، اور نہ ہی اس سے رفاہ عامہ کے میدان میں کوئی ڈھنگ کا کام لیا جا سکا۔ ہم نے تیل کے چشمے کھودنے، تیل صاف کرنے اور اس کی مارکیٹنگ کی صلاحیت سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی کمپنیوں کو بلایا تھا لیکن ان کے پیچھے پیچھے مغربی حکومتیں اور پھر ان کی فوجیں بھی آکر براجمان ہوگئیں۔ اگر ہماری نااہلی کی وجہ سے دشمن ہمارے گھروں میں گھس گیا ہے اور اس نے ہمارے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے تو اس میں خود کو معصوم ظاہر کر کے صرف دشمن کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
(۳) مسلم حکمرانوں کی مغرب پرست پالیسیاں
ہمارے نزدیک عراق کی حالیہ شکست، بلکہ مستقبل قریب میں ہونے والی دیگر کئی متوقع شکستوں کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے مسلم حکمرانوں نے اپنی پالیسیوں کے تعین، حکومتی نظام کی تشکیل اور ترجیحات طے کرنے میں اپنے ملکوں کے عوام کو اعتماد میں لینے کی بجائے ہمیشہ مغربی مشیروں پر انحصار کیا ہے۔ جبکہ بہت سے عرب ملکوں میں عوام رائے دینے کے حق سے بھی محروم ہیں، وہاں عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کا کوئی نظام موجود نہیں، بلکہ انہیں بعض مقدس اور محترم علمائے کرام کی طرف سے مسلسل یہ سبق پڑھایا جاتا رہا ہے کہ ان کے حکمران ایک مقدس مخلوق ہیں، ظل سبحانی ہیں، عالی جاہ ہیں، اور تنقید و اعتراض سے بالاتر ہیں۔ ان حکمرانوں سے اگر کسی کو کوئی شکایت ہے بھی تو وہ بڑے ادب سے خلوت میں ان کے گوش گزار کی جائے اور کھلے بندوں ان کے کسی قانون، حکم، یا طرز عمل پر تنقید سے گریز کیا جائے کیونکہ ان محترم علمائے کرام کے نزدیک شریعت اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی۔
اسباب اور بھی بہت سے ہیں اور ان سب پر کھل کر بات ہونی چاہیے مگر ہم نے گفتگو کے آغاز کے لیے چند امور کا تذکرہ کیا ہے۔ امید ہے کہ ہمارے ارباب علم و دانش اس موضوع پر قلم اٹھائیں گے اور امام محترم الشیخ عبد الرحمن السدیس کے ارشاد کی تعمیل میں عراق کی حالیہ شکست اور عالم اسلام کی موجودہ زبوں حالی کے اسباب و عوامل کو بے نقاب کرتے ہوئے ان سے بچاؤ کے لیے ملت اسلامیہ کی راہنمائی کریں گے۔