منافق کون ہیں؟

   
۱۶ دسمبر ۲۰۰۶ء

صدر جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ جو لوگ ”تحفظ حقوقِ نسواں بل“ کی مخالفت کر رہے ہیں وہ منافق ہیں، حالانکہ اس بل کی، جو اب ایکٹ بن چکا ہے، مخالفت کرنے والے صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں عورتوں کے ان حقوق کے حوالے سے کوئی بات شامل نہیں جو پاکستانی معاشرے میں عورت کو درپیش ہیں، بلکہ اس میں قرآن و سنت کے متعدد احکام کو تبدیل کر دیا گیا ہے، جس کے نہ وہ مجاز ہیں اور نہ ہی کسی اور شخص یا ادارے کو یہ حق حاصل ہے۔ یہ بات کہنے والے صرف دعویٰ ہی نہیں کر رہے، بلکہ انہوں نے اس پر باقاعدہ دلائل دیے ہیں اور ایک ایک کر کے ان امور کی انہوں نے نشاندہی کی ہے جو اس ایکٹ میں قرآن و سنت اور احکام شریعت کے منافی ہیں، حتیٰ کہ تمام مکاتب فکر کے سترہ علمائے کرام نے حکمران مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین کے گھر جا کر ان پر اس حوالے سے اتمامِ حجت کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اگر صدر جنرل پرویز مشرف کے نزدیک اس ”ایکٹ“ کی مخالفت کرنے والے ہی منافق ہیں تو ان کی زبان بھلا کون پکڑ سکتا ہے؟ البتہ قرآن میں جن لوگوں کو منافق کہا گیا ہے، ان کے بارے میں ہم قرآن کریم کے چند ارشادات باحوالہ پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۸ سے آیت نمبر ۲۰ تک اللہ تعالیٰ نے منافقین کا تعارف کرایا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ

”کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر، روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، حالانکہ وہ ایمان رکھنے والے نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اور مومنوں کا دھوکہ دینا چاہتے ہیں، لیکن اپنے سوا کسی کو دھوکہ نہیں دے رہے، مگر اس کا انہیں شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی بیماری کو بڑھاتا رہتا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کر رہے ہیں۔ خبردار! وہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں، لیکن انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ جیسے دوسرے لوگ (یعنی صحابہ کرام) ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟ خبردار! وہی لوگ بے وقوف ہیں، لیکن انہیں اس کا علم نہیں ہے۔ اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لے آئے ہیں، مگر جب اپنے شیطانوں کے ساتھ الگ ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان سے تو ہم استہزاء کر رہے تھے۔“

سورۃ النساء کی آیت ۶۰ سے ۶۸ میں منافقین کا تذکرہ اس انداز سے کیا گیا ہے کہ

”کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ ان تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں جو آپ پر اتاری گئیں اور ان تعلیمات پر بھی ان کا ایمان ہے جو آپ (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے نبیوں پر اتاری گئیں، لیکن اپنے معاملات کے فیصلے کرانے کے لیے شیطان کے پاس جاتے ہیں۔ حالانکہ انہیں اس کے انکار کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان ارادہ کرتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں ڈال دے۔ اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ آؤ ان احکام کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیے ہیں اور آؤ رسول اللہؐ کی طرف تو آپ دیکھتے ہیں کہ منافقین آپ سے پوری طرح اعراض کرنے لگتے ہیں۔ پھر کیسے ہو گا، جب ان پر کوئی مصیبت آئے گی ان کی حرکتوں کے نتیجے میں، تو آپ کے پاس حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو نیکی اور موافقت کی بات کر رہے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کی بات اللہ تعالیٰ جانتے ہیں، پس آپ ان سے اعراض کریں اور انہیں نصیحت کریں اور ان کے بارے میں ان سے ایسی بات کہیں جو بلیغ ہو۔ اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، وہ صرف اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اگر یہ لوگ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھیں تو آپ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئیں اور اللہ تعالیٰ سے بھی استغفار کریں اور آپ بھی ان کے لیے استغفار کریں تو یہ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔ پس اے محمد! آپ کے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے تنازعات میں آپ کا حکم تسلیم نہ کر لیں اور آپ جو فیصلہ بھی کریں اس کے بارے میں اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو پوری طرح تسلیم نہ کریں۔“

سورۃ النساء کی آیت ۱۴۰ تا ۱۴۳ میں منافقین کا یوں ذکر کیا گیا ہے

”بے شک اللہ تعالیٰ کافروں اور منافقوں سب کو جہنم میں جمع کر دے گا۔ جو تمہارے بارے میں انتظار میں رہتے ہیں کہ اگر تم مسلمانوں کو کسی جگہ فتح نصیب ہو تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو غلبہ حاصل ہو تو ان سے کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تمہیں گھیر نہیں لیا تھا اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں سے نہیں بچایا؟ پس اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان قیامت کے دن اور اللہ تعالیٰ ہرگز کافروں کو مسلمانوں پر راستہ نہیں دے گا۔ بے شک منافق لوگ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ انہیں ہی ان کے دھوکے میں ڈال دیتا ہے۔ جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور بے دلی سے کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کے سامنے دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں۔ یہ لوگ درمیان میں متذبذب رہتے ہیں اور نہ ادھر ہوتے ہیں نہ ادھر اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اس کے لیے آپ راستہ نہیں پائیں گے۔“

سورۃ التوبہ کی آیت ۶۷ میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا تعارف اس انداز سے کرایا ہے کہ

”اور منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، گناہ کے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور نیکی کے کاموں سے روکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے ہاتھ روک لیتے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں بھلا دے گا۔ وہی لوگ نافرمان ہیں۔“

سورۃ آل عمران میں اللہ رب العزت نے غزوۂ احد کے حوالے سے منافقین کے کردار کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے، خاص طور پر آیت ۱۶۵ تا آیت ۱۶۸ میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔ غزوۂ احد میں کفار کی طاقت تین ہزار پر مشتمل لشکر کی صورت میں تھی، جبکہ مسلمان جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں احد کے دامن میں پہنچے تو بمشکل ایک ہزار تھے۔ منافقین بھی ساتھ تھے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ظاہری طاقت کے حوالے سے کوئی موازنہ نہیں ہے تو تین سو افراد عبد اللہ بن ابی کی قیادت میں واپس پلٹ گئے اور میدان میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سات سو رہ گئے، جنہوں نے تین ہزار کفار کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کا خاصا جانی نقصان ہوا اور خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوئے۔ اس پر ان منافقین نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تم بھی اگر ہماری بات مان لیتے اور مقابلے کے لیے باہر نہ نکلتے تو تمہارے اتنے افراد شہید نہ ہوتے اور یہ بھی کہا کہ ہماری سمجھ میں اگر اس لڑائی کا کوئی فائدہ ہوتا تو ہم تمہارے ساتھ رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں منافقین کے ان طعنوں کا جواب دیا ہے اور فرمایا ہے کہ

”یہ لوگ جب اس طرح کی باتیں کر رہے تھے تو وہ ایمان کی بنسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ یہ لوگ جو کچھ اپنی زبان سے کہتے ہیں، ان کے دلوں میں وہ بات نہیں ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے یہ کوئی بات چھپا نہیں سکتے، وہ ان کی خفیہ باتوں کو بخوبی جانتا ہے۔“

منافقین کی اس بات کا کہ اگر مسلمان ہماری بات مان کر مدینہ میں رہتے اور جنگ کے لیے نہ جاتے تو قتل نہ ہوتے، اللہ نے جواب دیا کہ

”ان سے کہہ دو کہ یہ اپنی جانوں سے موت کو روک کر دیکھیں اگر یہ اپنی بات میں سچے ہیں ۔“

سورۃ المائدہ کی آیت ۵۱ تا ۵۳ میں اللہ رب العزت نے ذکر فرمایا ہے کہ

”ہم نے ایمان والوں سے کہا ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بنائیں، کیونکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور مسلمانوں میں سے جو بھی ان کے ساتھ دوستی کرے گا، وہ انہی میں شمار ہو گا۔ مگر جن لوگوں کے دلوں میں بیماری (منافقت) ہے، وہ دوڑ دوڑ کر یہود و نصاریٰ کی طرف جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو حالات کی گردش کا شکار ہو جائیں گے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو فتح عطا فرمائیں یا اپنی طرف سے کوئی حکم صادر فرمائیں تو یہ منافقین اپنے کیے پر شرمسار ہوں گے۔“

سورۃ المنافقون پوری کی پوری منافقین کے تذکرے میں ہے اور اس میں ایک خاص واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ غزوہ بنی المصطلق میں منافقین بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ سفر کے دوران ایک جگہ ایک مہاجر اور انصاری کا جھگڑا ہو گیا اور کچھ مہاجر حضرات اپنے ساتھی کی مدد کے لیے جمع ہوئے تو رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ مہاجر ہم پر اس لیے جری ہو گئے ہیں کہ مدینہ والے ان مہاجرین پر اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت خرچ کرتے ہیں۔ اس لیے اب ہم واپس مدینہ منورہ پہنچیں گے تو ان مہاجرین پر خرچ کرنا بند کر دیں گے، بلکہ انہیں مدینہ سے نکال دیں گے۔ یہ بات ایک انصاری صحابی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے سن لی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بلایا تو خدا کی قسمیں اٹھا کر کہنے لگے کہ ہم نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قسموں پر یقین کر کے زید بن ارقمؓ کو ڈانٹ دیا کہ تم خواہ مخواہ خرابی پھیلاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی صفائی میں یہ سورت اتاری اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ

”یہ منافق لوگ آپ کے سامنے آ کر جھوٹی قسمیں اٹھا کر وفاداری کا یقین دلاتے ہیں، آپ ان کی قسموں کا اعتبار نہ کریں۔“

سورۃ النور آیت ۴۷ تا ۵۴ میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے کہ

”یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی اطاعت بھی کرتے ہیں، لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف آؤ تاکہ وہ تمہارے معاملات کے فیصلے کریں تو ان میں سے ایک گروہ منہ موڑنے لگتا ہے، یہ لوگ پکی پکی قسمیں کھا کر اپنی وفاداری کا یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے کہہ دیجئے کہ قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں، اطاعت اور فرمانبرداری کا جو معروف معیار ہے اسے پورا کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے پوری طرح خبردار ہے۔“

یہ قرآن کریم کی چند آیات ہیں جن میں منافقین کا تذکرہ ہے اور ان کی علامات و عادات کا تعارف کرایا گیا ہے۔ کوئی بھی دوست قرآن کریم کا کوئی معیاری ترجمہ اٹھا کر ان آیات کا مطالعہ کر سکتا ہے اور یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر شخص جھانک کر اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکام کو ماننے والا ہے یا ان کے حوالے سے منافقت کا شکار ہے؟ (بشکریہ روزنامہ پاکستان)

   
2016ء سے
Flag Counter