محترمہ عاصمہ جہانگیر کی جیت: چند تحفظات

   
۳ نومبر ۲۰۱۰ء

محترمہ عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہو گئی ہیں، اس سال وکلاء کے قافلے کی قیادت وہ کریں گی۔ چند ماہ قبل انہوں نے بار کی صدارت کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو ہمارے ذہن میں تحفظات نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اور مختلف مجالس میں ہم نے ان کا اظہار بھی کیا۔ ملک میں وکلاء کے سب سے فورم کی سربراہی کے مسئلے سے ہمیں بظاہر کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے، اس لیے کہ یہ وکلاء کا معاملہ ہے اور ان کا اپنا مسئلہ ہے کہ وہ اپنی قیادت کے لیے کسے منتخب کرتے ہیں۔ لیکن ملک کی موجودہ دستوری و قانونی صورت حال اور اہم قومی مسائل کے حوالے سے بنچ اور بار کے کردار کے پس منظر میں معاملات اتنے سادہ نہیں رہے کہ اس مسئلے کو صرف وکلاء کا معاملہ قرار دے کر نظر انداز کر دیا جائے۔

محترمہ عاصمہ جہانگیر کے والد مرحوم ملک غلام جیلانی نے دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور اصولوں کی عملداری کے لیے زندگی بھر جو جدوجہد کی ہے، وہ ہمارے سامنے ہے اور ہم ان کی جرأت، حوصلے اور کردار کے ہمیشہ معترف رہے ہیں۔ خود محترمہ عاصمہ جہانگیر بھی انسانی حقوق کی عملداری اور جمہوری اقدار کی سربلندی کے لیے ایک عرصے سے سرگرم عمل ہیں اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر ان کی اس جدوجہد کو بہت سے حلقوں میں سراہا جاتا ہے، مگر ان کے خیالات و افکار اور محنت کے دائروں کے بارے میں بعض حلقوں میں تحفظات بھی پائے جاتے ہیں اور انہی تحفظات کو ہم ذہنوں سے صفحہ قرطاس پر ان سطور کے ذریعے منتقل کرنا چاہ رہے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر ان تحفظات کے بارے میں خود اظہار خیال کریں، تاکہ شکوک و شبہات کی فضا چھٹ سکے اور وہ ملک میں قانون دانوں کے سب سے بڑے فورم کی سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پورے اطمینان کے ساتھ ادا کر سکیں۔

ہمیں اس بات کے اعتراف میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ہم بعض دینی حلقوں اور جماعتوں کو اس طرف اپنے طور پر توجہ دلاتے رہے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت کے الیکشن میں دلچسپی لیں اور بار کے ایسے ارکان کو، جو ان کی بات پر توجہ دے سکیں، یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ بار کی صدارت کے لیے محترمہ عاصمہ جہانگیر کا انتخاب نظریاتی، فکری اور ثقافتی حوالے سے کوئی سودمند بات نہیں ہو گی۔ لیکن ہم نے جن دوستوں سے بات کی، انہیں اس کے لیے تیار کرنے میں ہمیں کامیابی نہیں ہوئی، ورنہ جتنے ووٹوں سے وہ الیکشن جیتی ہیں ان سے کہیں زیادہ ووٹروں کو یہ بات سمجھانا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔ یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے اور ہمیں اس کا پوری طرح احساس ہے کہ وکلاء کے اعلیٰ ترین حلقوں میں ملک کے نظریاتی تشخص اور پاکستانی قوم کی ثقافتی شناخت کے حوالے سے جذبات و تاثرات کا وہ ماحول موجود نہیں ہے، جو عوامی حلقوں بالخصوص دینی حلقوں میں کھلے بندوں دکھائی دیتا ہے اور دونوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ چنانچہ چیف جسٹس کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلاء کی تاریخی جدوجہد کے دوران سول سوسائٹی کے عنوان سے منعقدہ لاہور کے بہت سے اجلاسوں میں ہم شریک ہوئے اور ہم نے اس دوران کوشش کی کہ دینی حلقے اس تحریک میں نمایاں طور پر شریک ہوں اور جدوجہد میں ان کا حصہ ان کے تشخص کے ساتھ سب کو نظر آئے، لیکن ہمیں دونوں طرف سے ناکامی ہوئی۔

اس حوالے سے نہ تو معروف دینی جماعتوں کی قیادت نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور نہ ہی بار کے ذمہ دار حضرات اس بات پر آمادہ نظر آئے کہ ان کی اس جدوجہد میں دین کا کوئی حوالہ سامنے آئے اور دینی حلقوں کی شمولیت نمایاں طور پر دکھائی دے۔ اس کے اسباب میں داخلی طبقاتی تحفظات، قومی معاملات میں دین کے حوالے سے گریز اور بین الاقوامی سیکولر حلقوں کے دباؤ کا باہمی تناسب کیا تھا؟ اس کے بارے میں ہم سردست کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، البتہ اتنی بات اسی وقت ہم پر واضح ہو گئی تھی کہ عدلیہ کی خود مختاری اور دستور کی بالادستی کے لیے وکلاء کی اس جدوجہد کے فکری اور نظریاتی مستقبل کا رخ کس طرف ہے؟

اس پس منظر میں سپریم کورٹ بار کے صدر کے طور پر محترمہ عاصمہ جہانگیر کی قومی منظر پر آمد سے ہمارے ان تحفظات کی حساسیت میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ہمارے تحفظات تین امور کے حوالے سے ہیں:

  1. سب سے پہلی بات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص اور اس حقیقت واقعہ کی ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کے تہذیبی تشخص کی حفاظت اور اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ اسی بنیاد پر پاکستان کے دستور میں اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دیا گیا ہے اور پارلیمنٹ کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی، مگر محترمہ عاصمہ جہانگیر کے اب تک منظر عام پر آنے والے خیالات و افکار کے مطابق انہیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے اور وہ اسے جمہوریت کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کے منافی سمجھتی ہیں۔
  2. دوسرا مسئلہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانی مسئلے کے دستوری حل کا ہے۔ پوری ملت اسلامیہ کے متفقہ موقف، پاکستان کے تمام مذہبی مکاتب فکر کے علمائے کرام کے مشترکہ فیصلے، پاکستانی عوام کی غالب ترین اکثریت کے عقائد و جذبات اور منتخب پارلیمنٹ کے جمہوری فیصلے کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کے دونوں گروہ غیر مسلم ہیں اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ محترمہ عاصمہ جہانگیر نے اس سلسلے میں عوامی مطالبے اور جدوجہد کے نتیجے میں ہوئے دستوری اور قانونی فیصلوں کو ہمیشہ ہدف تنقید بنایا ہے اور ان فیصلوں کو منسوخ کرانے کی جدوجہد میں پیش پیش رہی ہیں۔ حتیٰ کہ خود ان کے خاوند مبینہ طور پر قادیانی ہیں، جس کا وہ ایک اخباری انٹرویو میں اعتراف کر چکی ہیں اور وہ اسے کوئی حرج کی بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
  3. تیسرا مسئلہ تحفظ ناموس رسالت کا ہے، اس کے دو الگ الگ منظر ہیں:
    • ایک منظر مغربی ممالک کا ہے، جہاں وقتاً فوقتاً توہین رسالت کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان ان کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
    • دوسرا منظر قومی ہے اور پاکستان میں ناموس رسالت کی توہین کو جرم قرار دے کر اس پر موت کی سزا مقرر کی گئی ہے اور عالمی سیکولر لابیاں اس قانون کو انسانی حقوق کے ان کے مبینہ تصور کے منافی قرار دے کر اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔

    دونوں حوالوں سے اب تک کا ریکارڈ یہ ہے کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر کا وزن کسی بھی مرحلے میں پاکستان کے عوام کے جذبات و عقائد کے پلڑے میں نہیں پڑا، بلکہ بین الاقوامی سیکولر لابیوں کے پلڑے میں ہمیشہ ان کا وزن رہا ہے اور انہوں نے پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات کو کبھی وقعت نہیں دی۔

  4. چوتھا مسئلہ پاکستان میں شرعی قوانین کے نفاذ کے سلسلے میں ان کا مسلسل طرز عمل ہے۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی بات ہو، وفاقی شرعی عدالت کا مسئلہ ہو، حدود شرعیہ کے نفاذ کا معاملہ ہو یا شرعی محرمات کی روک تھام کا قصہ ہو، ہر وہ قدم جو اس ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے کسی بھی درجے میں اٹھایا گیا ہے وہ محترمہ عاصمہ جہانگیر کے نزدیک قابلِ اعتراض ہے اور ہمیشہ سے ان کے طعن اور تنقید کی زد میں چلا آ رہا ہے۔

ہم نے تحفظات کے حوالے سے جن چند باتوں کا سطورِ بالا میں ذکر کیا ہے، اپنی معلومات کی حد تک کیا ہے اور ہمیں ان میں سے کسی بات پر اصرار نہیں، بلکہ محترمہ عاصمہ جہانگیر ان میں سے کسی بات کی تردید کریں تو ہمیں بے حد خوشی ہو گی اور ہم ان سے کھلے بندوں معذرت خواہ ہوں گے۔ لیکن اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر ہم یہ عرض کرنا اپنا دینی اور قومی فریضہ سمجھتے ہیں کہ ذاتی خیالات کی حد تک ہم محترمہ عاصمہ جہانگیر کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ کسی مسئلے میں جو موقف بھی اختیار کریں، یہ ان کی صوابدید کا معاملہ ہے۔ وہ اپنے خیالات کی اشاعت میں بھی آزاد ہیں اور کسی کو ان پر اعتراض کا حق نہیں ہے، لیکن کسی قومی ادارے کو ان خیالات کے لیے استعمال کرنے کی اجازت بہرحال نہیں دی جا سکتی۔

اسی طرح یہ مسئلہ وکلاء برادری کا ہے کہ وہ کسے اپنا لیڈر منتخب کرتی ہے اور محترمہ عاصمہ جہانگیر اس بات کا پورا حق رکھتی ہیں کہ وہ ووٹ لے کر کسی بھی جمہوری ادارے کی سربراہ بن جائیں اور ہمارے لیے ان معاملات میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وہ وکلاء کی قیادت کس طریقے سے کرتی ہیں اور وکلاء ان کی سربراہی میں اپنے پیشہ ورانہ معاملات کس طرح سرانجام دیتے ہیں، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اگر خدانخواستہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے معزز اور محترم فورم کو محترمہ عاصمہ جہانگیر کے مذکورہ بالا سیکولر ایجنڈے کے لیے مورچہ بنانے کی کوشش کی گئی تو پھر ہمارے لیے خاموش رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ بات محترمہ عاصمہ جہانگیر کے پیش نظر بھی رہنی چاہیے اور سپریم کورٹ بار کے معزز اراکین کو بھی اس پر توجہ دینی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter