۱۹۷۰ء کے عام انتخابات سے پہلے جب ملک میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تو وہ میری سیاسی اور خطابتی زندگی کا ابتدائی دور تھا۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز سے عقیدت زیادہ تھی جو اب بھی ہے، ان کی سیاسی جدوجہد اور سیاسی افکار سے سب سے زیادہ متاثر تھا اور اسی مناسبت سے استعمار دشمنی کی بات کسی طرف سے بھی ہو، اچھی لگتی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام کا اجتماعی ذوق بھی یہی تھا (جو اب پس منظر میں چلا گیا ہے)۔ اس حوالے سے لیفٹ کے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ہمارا میل جول زیادہ رہتا تھا اور ہم مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو سپورٹ کیا کرتے تھے۔ امریکہ ہماری سیاسی گفتگو بلکہ تابڑتوڑ حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہوتا تھا۔ اس وقت پاکستان میں امریکہ کے سفیر جوزف فارلینڈ کو ناپسندیدہ قرار دے کر واپس بھیجنے کا مطالبہ ہماری سیاسی تقریروں کا پسندیدہ موضوع تھا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ وہ امریکی امداد کی رقوم بالخصوص پی ایل ۴۸۰ کے فنڈ کو اپنی صوابدید کی بنیاد پر پاکستان کے سیاسی راہنماؤں اور کارکنوں میں خفیہ طور پر تقسیم کر کے پاکستان کی قومی سیاست میں مداخلت کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور اپنے استعماری شکنجے کو مضبوط بنانے میں مصروف ہیں۔ اس کے بعد ہمارا دوسرا اہم موضوع پاکستان میں اسٹیل مل لگانے کا مطالبہ ہوتا تھا۔ ہم اپنی تقاریر اور بیانات میں اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ فولاد کسی بھی ملک کی صنعت اور دفاع دونوں کے حوالے سے بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بغیر نہ کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے دفاع میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔ ہم اس پر قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے ساتھ بین الاقوامی حالات اور اعداد و شمار سے دلائل دیا کرتے تھے اور حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے تھے کہ فوری طور پر ملک میں فولادی صنعت کا اہتمام کیا جائے اور فولاد ڈھالنے کا کارخانہ لگا کر اس سمت میں پیشرفت کی جائے۔
پاکستان اسٹیل ملز کراچی کی نجکاری کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ اور گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں اس سلسلہ میں ہونے والی بحث اخبارات میں نظر سے گزری تو یہ سارا منظر ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے گھوم گیا اور ۱۹۷۰ء سے قبل کی سیاسی گہماگہمی اور لیفٹ اور رائٹ کی کشمکش کے مناظر ذہن میں تازہ ہوگئے۔ پاکستان اسٹیل ملز کراچی میں میرا کافی عرصہ سے آنا جانا رہتا ہے۔ اسٹیل ملز کے ملازمین کی کالونی گلشن حدید کے فیز ۱ کی جامع مسجد توحید میں ہمارے ایک محترم دوست مولانا احسان اللہ اشرف ہزاروی سالہا سال سے خطیب چلے آرہے ہیں۔ ہزارہ کے علاقہ بٹگرام سے تعلق رکھتے ہیں، جمعیت علمائے اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں سے ہیں، پاکستان شریعت کونسل کی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوتے ہیں، باذوق اور صاحب مطالعہ عالم دین ہیں، گزشتہ انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر لانڈھی کے حلقہ سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، اور صوبائی اسمبلی میں اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ ساتھ اہل دین کی بھی نمائندگی کر رہے ہیں۔ کچھ عرصے سے بیمار ہیں، شوگر کی زیادتی نے آنکھوں کی بینائی کو خاصا متاثر کر دیا ہے اور اب وہ مطالعہ بلکہ از خود چلنے پھرنے سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمت کاملہ سے نوازے، آمین۔ ان کے ہاں اس سے قبل کئی بار حاضری ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں ۱۴ اگست کو میں کچھ روز کے لیے کراچی گیا تو جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی کے جلسہ ختم بخاری میں حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کے ہاں مولانا احسان اللہ ہزاروی سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ اسٹیل ملز کے بحران پر اس سے متعلقہ لوگوں سے معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ان کے ساتھ طے ہوا کہ ۲۱ اگست کو جامعۃ الرشید کے کلیۃ الشریعہ کے نصاب کے سلسلے میں ہونے والے دو روزہ سیمینار میں شرکت کے لیے میں نے حاضر ہونا ہے تو ایک روز پہلے آ جاؤں گا اور رات اسٹیل ملز کے ملازمین کی کالونی گلشن حدید میں مولانا احسان اللہ ہزاروی کے ہاں قیام کروں گا۔ چنانچہ عزیزم حافظ عمار خان ناصر سلمہ مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے ہمراہ میں نے بیس اگست کو رات ان کے ہاں قیام کیا اور انہوں نے کچھ متعلقہ دوستوں کے ساتھ ہماری ملاقات اور گفتگو کا اہتمام کر دیا جس میں ایک عوامی نمائندے کی حیثیت سے وہ خود بھی شریک رہے۔ اس موقع پر مختلف احباب سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ان کے مطابق اسٹیل ملز کراچی کے قیام اور اس کے موجودہ بحران تک پہنچنے کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح بنتا ہے:
پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کا اصولی فیصلہ ۱۹۶۸ء میں ہو گیا تھا لیکن اس کا سنگ بنیاد ۱۹۷۳ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے وزیراعظم کی حیثیت سے رکھا۔ ۷۶۔ ۱۹۷۵ء میں گراؤنڈ ورک کا آغاز ہوا اور ۱۹۸۱ء میں پہلے پیداواری یونٹ نے کام کا آغاز کیا۔ اسٹیل ملز کی مشینری سوویت یونین سے خریدی گئی، سوویت یونین نے اس مل کی تعمیر اور مشینری کی فٹنگ میں مسلسل تعاون کیا اور کئی سال تک سوویت یونین کے فنی ماہرین اور کاریگر بڑی تعداد میں مل میں کام کرتے رہے۔ اسٹیل ملز پر کل لاگت چوبیس ارب ستر کروڑ بتائی جاتی ہے جس میں گیارہ ارب کے لگ بھگ کے قریب رقم بینکوں سے قرض کے طور پر لی گئی جبکہ باقی رقم قومی خزانہ سے ادا کی گئی۔ اس طرح پاکستان اسٹیل ملز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسٹیل ملز کے لیے مخصوص کی گئی زمین کا رقبہ ساڑھے چار ہزار ایکڑ سے زیادہ بتایا جاتا ہے جس میں مشینری کم و بیش ایک ہزار ایکڑ کے دائرے میں نصب ہے اور باقی زمین خالی ہے۔
مئی ۲۰۰۰ء میں پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامی و مالیاتی تنظیم نو کا فیصلہ ہوا تو بینکوں سے حاصل کردہ گیارہ ارب سے زیادہ رقم کو ملز کے ذمہ قرار دے کر اس کی ادائیگی ملز کے کھاتے میں ڈال دی گئی، جبکہ دوسری طرف سے یہ موقف تھا کہ چونکہ حکومت پاکستان خود اس کی مالک ہے اور اس کا نفع نقصان اسی کے کھاتے میں ہے، اس لیے بینکوں سے بطور قرض حاصل کی گئی رقم سرمایہ کاری کی مد میں ہی شمار ہوتی ہے اور اسے مل کے ذمہ قرض قرار دینا درست نہیں ہے، لیکن اس موقف کو پذیرائی حاصل نہ ہوئی اور بینکوں کی رقم کو ملز کے ذمہ قرار دے دیا گیا۔ گیارہ ارب کی اس رقم پر اس وقت تک سات ارب کے لگ بھگ سود کی رقم کا اضافہ ہو گیا تھا اور یہ رقم انیس ارب تئیس کروڑ کے لگ بھگ ہو چکی تھی۔ پاکستان اسٹیل ملز اس امر کی ذمہ دار قرار پائی کہ وہ اس قرض کی سالانہ قسط دینے کے ساتھ ساتھ مجموعی رقم پر سود بھی ادا کرے گی جو تقریباً دو ارب روپے سالانہ بنتا تھا۔ اپنی سالانہ آمدنی میں سے قرض کی قسط اور سود کی رقم کی ادائیگی کے بعد اسٹیل ملز خسارے پر چلنے والی صنعت شمار ہونے لگی تو ایک معاہدے کے تحت اسٹیل ملز کو پابند کر دیا گیا کہ وہ ۲۰۱۹ء تک اس قرضے کو بہرحال ادا کرے گی۔
اس کے ساتھ ہی ملز کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے ملازمین میں تخفیف کا فیصلہ کیا گیا۔ بائیس ہزار سے زائد باقاعدہ ملازمین کو پندرہ ہزار کے دائرے میں لانے کے لیے گولڈن ہینڈ شیک کی اسکیم اختیار کی گئی جس کے تحت آٹھ ہزار کے لگ بھگ ملازمین فارغ ہوئے اور ملز نے انہیں اس اسکیم کے تحت ساڑھے چار ارب روپے کے لگ بھگ رقم ادا کی۔ ملز کے ملازمین کا کہنا ہے کہ اس وقت تک مل منافع میں چل رہی تھی، لیکن قرضوں اور سود در سود کی ادائیگی کی اس ذمہ داری کے بعد وہ منافع بخش نہ رہی تو ۱۹۹۷ء میں اسے نجی شعبے میں فروخت کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا مگر یہ فیصلہ کاغذات کی حد تک رہا، جبکہ حکومت کی عملی پالیسی ملز کے دائرہ کار میں وسعت کی رہی، اس لیے نجکاری کا یہ فیصلہ حکومت کی اس حکمت عملی کے باعث لوگوں کے ذہنوں سے اتر گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیل کی مجموعی ضرورت پچاس لاکھ ٹن ہے، جبکہ پاکستان اسٹیل ملز کی پیداواری صلاحیت گیارہ لاکھ ٹن ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت کے آغاز میں روس کی حکومت سے معاہدہ کیا کہ روس کے تعاون سے اس صلاحیت کو فوری طور پر پندرہ لاکھ ٹن تک بڑھایا جائے گا اور بعد میں اسے تیس لاکھ ٹن تک لے جایا جائے گا۔ اس کے بعد وزیر اعظم جناب شوکت عزیز نے چین کی حکومت سے پاکستان اسٹیل ملز میں توسیع کے لیے بات چیت کی جس پر چینی حکومت نے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لیے ۸۰ فیصد رقم فراہم کرنے کے لیے تیار ہے اور اگر باقی ۲۰ فیصد کے لیے حکومت پاکستان دقت محسوس کرتی ہے تو اس پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ مگر کم و بیش تمام معاملات طے پانے کے بعد جب عملی معاہدہ کی نوبت آئی تو حکومت پاکستان نے قدم پیچھے ہٹا لیا۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کے لیے تیز رفتاری کے ساتھ کام شروع کر دیا گیا۔ نجکاری کا فیصلہ کرنے کے لیے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو توڑ کر نیا بورڈ بنا یا گیا، بڑی عجلت میں اس کا اجلاس اسلام آباد میں وزیراعظم جناب شوکت عزیز کی صدارت میں ہوا، اس میں پاکستان اسٹیل ملز کو فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا اور نجکاری کمیشن نے اپنا کام تیزی کے ساتھ شروع کر دیا۔ اسٹیل ملز کی قیمت طے کرنے کے لیے بین الاقوامی فرم ’’سٹی گروپ‘‘ کو ایڈوائزر مقرر کیا گیا جس نے مبینہ طور پر پاکستان اسٹیل ملز، اس کی مشینری اور اثاثوں کی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ دیکھنے اور تعین کرنے کی بجائے ’’بک ویلیو‘‘ کے اصول پر اس کی قیمت طے کی اور ایک کنسورشیم نے جس کے ۴۰ فیصد مالک سعودی، ۱۰ فیصد روسی اور ۲۰ فی صد پاکستانی بتائے جاتے ہیں، ساڑھے اکیس ارب روپے میں اسے خرید لیا۔ ملازمین میں پیپلز ورکرز یونین نے اور ایک اور گروپ وطن پارٹی نے اسے عدالت میں چیلنج کر دیا جس کا موقف یہ تھا کہ:
- پاکستان اسٹیل ملز کو فروخت کرنے میں جلد بازی کی گئی ہے اور بہت سے قانونی تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
- اس کی قیمت ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ کے معروف اصول پر طے کرنے کی بجائے ’’بک ویلیو‘‘ کے طریق کار پر لگائی گئی ہے جو اس کی مارکیٹ قیمت سے بہت کم ہے، بلکہ مفت خریداروں کے سپرد کر دینے کے مترادف ہے۔
- سودے میں ملز کی جو زمین شامل کی گئی ہے، اس کی قیمت سرے سے لگائی ہی نہیں گئی۔
- جس تاریخ کو ملز کی فروخت مکمل ہوئی، ملز کے پاس ساڑھے بارہ ارب کا خام مال اور تیار شدہ مال موجود تھا، اس کے پاس ساڑھے آٹھ ارب روپے نقد موجود تھے اور زائد ادا کیے گئے ٹیکسوں میں سے قانون کے مطابق اسے ایک ارب روپے واپس ملنے تھے۔ اس طرح پاکستان اسٹیل ملز خریدنے والوں کو ساڑھے اکیس ارب روپے کی رقم اس صورت میں جوں کی توں واپس مل جانا تھی۔ اور یہ اسٹیل ملز ہزاروں ایکڑ زمین اور اربوں روپے کی مشینری سمیت انہیں بالکل مفت ملنا تھی۔
جس پر ملک کی عدالت عظمی نے بروقت نوٹس لیا اور وہ تاریخی فیصلہ صادر کیا جو اس وقت ملک کے اعلیٰ ایوانوں میں زیر بحث ہے اور جس پر ملک کے محب وطن حلقے اور عوام سپریم کورٹ آف پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان اسٹیل ملز کے جن حضرات سے ہماری ملاقات ہوئی ان کے بقول حکومت پاکستان نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز خریداروں کے سپرد کرتے وقت وہ موجودہ ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے پندرہ ارب روپے اپنی طرف سے ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس طرح ملز کی ساڑھے اکیس ارب روپے کی رقم میں سے یہ پندرہ ارب روپے نکال کر قومی خزانہ کو اس میں سے صرف ساڑھے چھ ارب روپے ملنا تھے۔
ان دوستوں نے ہمیں اس سلسلے میں ایک اور دلچسپ بات بتائی کہ اگرچہ اسٹیل ملز نے بینکوں سے قرضہ ایک معاہدے کے تحت ۲۰۱۹ء تک واپس کرنا تھا لیکن ملز یہ سارا قرض واپس کر چکی ہے۔ البتہ جب ملز نے تیز رفتاری کے ساتھ قرضہ واپس کرنا شروع کیا تو بینکوں نے اپنا قرضہ واپس لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اس سودی رقم سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے جو انہیں اس قرضے کی رقم پر ۲۰۱۹ء تک مسلسل حاصل ہونی تھی، چنانچہ حکومت کو اس مسئلہ میں مداخلت کرنا پڑی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اگرچہ مشترکہ مفادات کی کونسل نے پاکستان اسٹیل ملز کی دوبارہ نجکاری کا فیصلہ کر لیا ہے، لیکن وزیر اعلیٰ سرحد اکرم خان درانی نے اس فیصلے سے اختلاف کر کے پاکستان کے کروڑوں عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اگر وہ اپنے اس موقف کو مزید قانونی پیشرفت کی شکل دے سکیں تو ملک کے اس عظیم اثاثے کو اونے پونے فروخت ہونے سے روکا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ اگر اس فیصلے کو باضابطہ چیلنج کر دیں تو نجکاری کا یہ فیصلہ پارلیمنٹ کے مشترکہ فورم کے پاس چلا جائے گا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری حاصل کیے بغیر پاکستان اسٹیل ملز کو قانونی طور پر فروخت نہیں کیا جا سکے گا۔ مگر خدا جانے صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ جناب محمد اکرم خان درانی ’’چہ ارزاں فروختند‘‘ کے اس عمل کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار بھی ہیں یا نہیں؟