سیرۃ النبیؐ اور سیاست و حکومت

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
فروری ۲۰۱۸ء

بعد الحمد والصلٰوۃ۔

  1. اس عنوان سے متعلق پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا سیاست کا نبی سے اور نبی کا سیاست سے کوئی تعلق ہوتا ہے؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہاں ہوتا ہے بلکہ دینی سیاست کی بنیاد ہی نبوت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کا ذکر کیا اور فرمایا، ہم نے ان کو نبوت بھی دی تھی، بادشاہت بھی دی تھی اور حکمت بھی دی تھی، چنانچہ انبیائے بنی اسرائیل علیہم السلام حضرت موسٰیؑ کے بعد یوشع بن نونؑ سے لے کر حضرت زکریاؑ تک اکثر انبیاء حاکم اور قاضی بھی تھے۔ حضرت داؤدؑ کو اللہ تعالٰی نے خلافتِ ارضی دی تھی، فرمایا ’’یا داوٗد انا جعلناک خلیفۃ فی الارض‘‘ (سورہ ص ۲۶)۔ یہ خلافت کون سی تھی؟ ’’فاحکم بین الناس بالحق‘‘ (سورہ ص ۲۶) یہ حکومت والی خلافت تھی جو اللہ تعالٰی نے حضرت داؤدؑ کو دی۔ جبکہ حضرت سلیمانؑ کو ایسی بادشاہت دی جس کی دعا کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’قال رب اغفرلی و ھب لی ملکًا لا ینبغی لاحدٍ من بعدی‘‘ (سورہ ص ۳۵) اے اللہ! ایسی بادشاہت دے جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ اور واقعتًا اللہ تعالٰی نے ان کو ایسی بادشاہت دی جو پھر کسی کو نہیں ملی۔ ہوا پر، جانوروں پر، پرندوں پر اور جنوں پر بھی ان کی حکومت تھی، اس ریاست کا نام اسرائیل تھا۔ بخاری شریف کی روایت ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی‘‘ کہ بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت انبیاء کرامؑ کرتے تھے، ایک نبی تشریف لے جاتے تو دوسرے نبی آجاتے، وہ جاتے تیسرے نبی آجاتے۔ پھر فرمایا ’’انہ لانبی بعدی‘‘ میرے بعد نبی کوئی نہیں آئے گا۔ تو پھر سیاسی قیادت کون کرے گا؟ فرمایا ’’سیکون بعدی خلفاء‘‘ میرے بعد خلفاء سیاسی قیادت کرتے رہیں گے اور یہ تسلسل قائم رہے گا۔ یہ میں نے پہلی بات کی کہ دینی سیاست نبوت ہی کی بنیاد پر چلتی ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام امام، قاضی، معلم، حکمران اور سیاستدان سبھی کچھ ہوتے تھے۔ اکثر انبیاء سیاست کرتے آئے ہیں، خود جناب نبی کریمؐ نے حکومت و ریاست بنائی، جنگیں لڑیں، صلح کی، مقدمات کے فیصلے بھی کیے، جو کچھ سیاست میں ہوتا ہے سب کچھ حضورؐ نے کیا۔
  2. دوسری گزارش یہ ہے کہ سیاست کا سب سے بڑا مقصد ریاست و حکومت قائم کرنا ہوتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو حضورؐ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اردگرد کے قبائل کو ملا کر ایک ریاست قائم کی جس کو ریاستِ مدینہ کہتے ہیں۔ اس ریاست میں حضورؐ کی حکومت تھی، رسول اللہ کی اس ریاست و حکومت کو سبھی تسلیم کرتے تھے، یہودی بھی، قبائلِ عرب بھی، اور مسلمانوں کے دونوں بڑے گروہ مہاجرین و انصار بھی۔ آپؐ نے یثرب تشریف آوری سے پہلے ہی معاہدہ کر لیا تھا کہ حکومت میری ہوگی اور حکم میرا چلے گا۔ اس کو میثاقِ مدینہ کہتے ہیں جسے اوس اور خزرج دونوں نے قبول کر لیا تھا۔ ریاست مدینہ جب قائم ہوئی تو بحیرہ سمندر کی ساحلی پٹی پر قائم ہوئی تھی، اور جب حضورؐ کا وصال ہوا اس وقت یعنی اس دس سال کے عرصے میں یہ حکومت یمن، بحرین، نجران، نجد، حجاز یعنی پورے جزیرۃ العرب پر پھیل چکی تھی۔ یہ پورا علاقہ اس ریاست کا حصہ تھا۔ اور جب حضرت ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالی تو اس پورے خطے کی حکومت سنبھالی۔ یہ میں نے دوسری بات بیان کی کہ حضورؐ نے بھی مدینہ منورہ میں ریاست قائم کی اور وہ ریاست حضرات صحابہ کرامؓ کے حوالے کی۔
  3. تیسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک سوال آج کل عام طور پر کیا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست کیسے قائم ہوتی ہے؟ نبی کریمؐ نے یثرب پر ریاست مدینہ کے نام سے حکومت قائم کی۔ سوال یہ ہے کہ حضورؐ نے قبضہ کر کے ریاست قائم کی تھی یا مذاکرات کر کے قائم کی تھی؟ مدینہ پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ مذاکرات تین سال چلتے رہے ہیں، بیعت عقبہ اولٰی، بیعت عقبہ ثانیہ، اور ان سے پہلے ایک سال۔ یہ تین سال گفتگو چلتی رہی، معاہدات طے ہوتے رہے، شرطیں طے ہوتی رہیں، بیعت لی جاتی رہی۔ تین سال تو اوس اور خزرج سے مذاکرات چلتے رہے جبکہ مدینہ آ کر حضورؐ نے یہودیوں سے جنگ نہیں لڑی بلکہ صلح صفائی سے ریاست قائم کی۔ جنگ تو خیبر میں جا کر ہوئی۔ اسلامی ریاست کی بنیاد علاقے کے قبائل کو اعتماد میں لے کر رکھی گئی، اس ریاستِ مدینہ میں مسلمان بھی تھے، غیرمسلم بھی تھے، سب کو اعتماد میں لے کر ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ اس لیے اسلامی ریاست کی پہلی بنیاد قبضہ پر نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد باہمی اعتماد، مذاکرات اور صلح صفائی پر رکھی گئی ہے۔ میثاقِ مدینہ اعتماد سے قائم ہوا تھا، مسلط نہیں کیا گیا۔ اور اس کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالی تو کیا قبضہ کیا تھا؟ نہیں! لوگوں کے مشورے سے حکومت قائم کی تھی، حضرت عمرؓ کی حکومت بھی شورٰی سے قائم ہوئی تھی، آپؓ نے قبضہ سے حکومت نہیں لی تھی۔

اس پس منظر میں دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جو سیاسی حقوق دیے وہ کیا تھے؟ بنیادی دو حقوق کا ذکر کرتا ہوں:

  1. پہلی بات یہ کہ آپؐ نے سرکاری فیصلوں اور مشاورت میں لوگوں کو شریک کیا۔ جس معاملے میں وحی نہیں آتی تھی اس میں مشورہ کرتے تھے اور صرف مشورہ کرتے ہی نہیں تھے مشورہ مانتے بھی تھے۔ بدر میں جب قیدیوں کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا تو مشورہ سے فیصلہ کیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی رائے تھی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیں، حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ ان کو قتل کیا جائے۔ آپؐ نے صحابہؓ کی رائے سنی اور پھر حضرت ابوبکرؓ کی رائے پر فیصلہ کر دیا۔ اللہ تعالٰی نے ٹوک دیا کہ جناب یہ آپ نے کیا کِیا؟ اب کر لیا ہے تو ٹھیک ہے لیکن کیوں کیا ہے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا، عمرؓ کی رائے ٹھیک تھی۔ فرمایا ’’ماکان لنبی ان یکون لہ اسرٰی حتی یثخن فی الارض‘‘ (سورہ الانفال ۶۷)۔

    غزوہ احد کے موقع پر آپؐ کو علم ہوا کہ قریش کا لشکر آرہا ہے اور بہت بڑا لشکر ہے۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے اندر رہ کر لڑنا چاہیے باہر نکل کر لڑنا چاہیے؟ لڑائی کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ شہر کے سارے راستے بند کر دیں تاکہ جب دشمن حملہ کرے تو سب مقابلہ کریں اس کو دفاعی جنگ کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ کھلی جنگ کا ہوتا ہے کہ میدان میں جا کر مقابلہ کیا جائے۔ حضورؐ نے مشورہ لیا کیونکہ وحی نہیں آئی تھی، اللہ رب العزت بعض معاملات میں وحی نہیں بھیجتے تھے کہ مشورہ کرو، یعنی کبھی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے تو وحی نہیں بھیجی جاتی۔ مشورہ کیا تو دونوں رائیں سامنے آئیں، ایک یہ کہ میدان میں نکلتے ہیں، وہاں لڑیں گے کہ پہلے بدر میں ہمارا کچھ نہیں بگڑا اب کیا ہونا ہے۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ بہت سوں نے کہا یا رسول اللہ! حالات ٹھیک نہیں ہیں اس لیے مدینہ کے اندر رہ کر لڑتے ہیں، یہاں یہ فائدہ ہو گا عورتیں اور بچے بھی لڑائی میں شریک ہوں گے، اوپر سے دشمن پر پتھر بھی پھینکیں گے۔ حضورؐ کی رائے بھی یہی تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر لڑا جائے باہر نہ جائیں۔ اس رائے کا اظہار فرما دیا لیکن فیصلہ دوسری رائے پر کیا کہ مدینہ سے باہر نکل کر لڑا جائے۔ حضورؐ صرف مشورہ کرتے نہیں تھے مشورہ مانتے بھی تھے۔ آپؐ نے حکم فرما دیا چلو باہر جا کر لڑنا ہے تیاری کرو۔ آپؐ اندر گئے، تیار ہو کر باہر نکلے تو جن لوگوں نے اصرار کیا تھا کہ نہیں ہم باہر جا کر لڑیں گے ان کو خیال ہوا کہ ہم نے غلطی کی ہے، آپؐ کی رائے باہر جا کر لڑنے کی نہیں تھی، ہم نے رسول اللہ کو اپنی رائے پر مجبور کیا ہے، ہم نے ٹھیک نہیں کیا، ہمیں حضورؐ کی رائے کے مقابلے میں رائے قائم نہیں کرنی چاہیے تھی، ندامت و شرمساری ہوئی۔ حضورؐ سے عرض کیا یارسول اللہ! ہم سے غلطی ہو گئی ہے، ہم نے آپ کو اپنی رائے پر مجبور کیا ہم اپنی رائے واپس لیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اب مشورے کے بعد فیصلہ ہو چکا ہے، اب فیصلہ ہی مشورہ ہے۔ اب وہی ہو گا جو فیصلہ ہو چکا۔ میں نے یہ عرض کیا کہ رسول اللہؐ مشورہ کرتے ہی نہیں تھے مشورہ مانتے بھی تھے۔

    ایک واقعہ اور عرض کرتا ہوں کہ مشورے کا طریقہ کار کیا تھا؟ اس بارے میں سنت نبویؐ کیا ہے۔ یہ بھی بخاری شریف کی روایت ہے حنین کی جنگ میں بنو ہوازن کو شکست ہوئی، بہت سے قیدی اور بہت سا مال غنیمت میں ملا۔ آپؐ نے قیدی اور مال غنیمت فورًا تقسیم نہیں کیے بلکہ انتظار کرتے رہے کہ اگر وہ لوگ ایمان لے آتے ہیں تو ان کو قیدی اور مال واپس کر دیں گے۔ سترہ دن انتظار کرتے رہے، وہ نہیں آئے تو حضورؐ نے قیدی بھی اور مال و دولت، سونا چاندی بھی تقسیم کر دیا۔ تقسیم کر دینے کے اگلے دن بنو ہوازن کا وفد آیا، یارسول اللہ ہم توبہ کرنے اور ایمان قبول کرنے آئے ہیں۔ مہربانی کر کے ہمارے قیدی اور ہمارا مال ہمیں واپس کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا، میں نے سترہ دن تمہارا انتظار کیا، تم نہیں آئے تو اب میں نے تقسیم کر دیے ہیں۔ تقسیم سے پہلے اختیار میرا تھا، تقسیم کے بعد جن کی ملکیت ہو چکی ہے، اختیار ان کا ہے۔ اب ان سے پوچھنا پڑے گا کہ واپس کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ لیکن تم چل کر آئے ہو تو تمہیں خالی واپس نہیں بھیجتا، میں ان سے بات کرتا ہوں۔ مگر تم ایک چیز اختیار کر لو یا قیدی واپس لے لو یا مال واپس لے لو۔ دونوں چیزیں واپس نہیں ملیں گی۔ انہوں نے کہا اگر دونوں چیزیں واپس نہیں کرتے تو پھر ایسے کریں کہ ہمیں قیدی واپس کر دیں، مال واپس نہ کریں۔ آپؐ نے فرمایا جن کی وہ ملکیت ہو چکی ہے میں ان سے پوچھوں گا۔ چنانچہ آپؐ نے لشکر اکٹھا کر لیا، بارہ ہزار کا لشکر تھا۔ آپؐ نے فرمایا یہ تمہارے بھائی آئے ہیں، توبہ کر کے ایمان قبول کرنے آئے ہیں۔ میں ان کا انتظار کرتا رہا ہوں، یہ وقت پر نہیں آئے، اب میں نے ان سے وعدہ کر لیا ہے کہ ایک چیز واپس کروں گا۔ ان کا کہنا ہے کہ قیدی واپس کر دیں۔ لیکن قیدی اب تمہاری ملکیت ہوچکے ہیں، تم قیدی خوشی سے واپس کر دو تو تمہاری مرضی اور اگر نہیں جی چاہتا تو بھی واپس کر دو، میرے ذمے قرضہ رہا۔ اگلی جنگوں میں پہلے تمہارے قیدی ادا کروں گا، پھر تقسیم کروں گا۔ لشکر سے آواز آئی، یارسول اللہ ہم راضی ہیں خوشی سے واپس کرتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا، اس طرح تمہاری رضا، عدمِ رضا کا صحیح پتہ نہیں چل سکتا کہ سارے راضی ہیں یا نہیں ہیں۔ اس لیے سب اپنے خیموں میں جاؤ، تمہارے نمائندے (عرفاء) رات خیموں میں تم سے بات کریں گے اور مجھے صبح بتائیں گے کہ کون راضی ہے کون راضی نہیں ہے، تب فیصلہ کروں گا۔ ساری رات مشورے چلتے رہے۔ صبح کو سارے نمائندوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! سب راضی ہیں، تب حضورؐ نے فیصلہ کیا اور ان قیدیوں کو واپس کر دیا۔

    اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام صحابہ کرامؓ سے رائے لیتے تھے، مشورہ لیتے تھے، جہاں سب سے اکٹھی رائے لینا ممکن نہیں ہوتا تھا وہاں نمائندوں کے ذریعے رائے لیتے تھے۔ آپؐ نے حکومتی معاملات میں عام لوگوں کو مشورے کا اور رائے دینے کا حق دیا، اور جائز مشورہ ہو تو اس کو مانا بھی ہے، جبکہ مشورہ میں سب راضی ہیں یا نہیں اس کی تسلی بھی کرتے تھے۔

  2. دوسرا بڑا سیاسی حق جو حضورؐ نے دیا جس پر آج تک بحث ہو رہی ہے، نبی کریمؐ سے پہلے حکمرانی کا نظام وحی کے ذریعے چلتا تھا، پیغمبر ہی حکمران ہوتا تھا اور پیغمبر وحی سے بنتا ہے۔ حضورؐ کے بعد وحی بند ہو گئی، اب پورے جزیرۃ العرب کی حکومت ہے، اس پر جو خلافت قائم ہوئی اس کا حاکم کون ہو گا؟ اس پر حضورؐ نے اشارے تو بہت کیے کہ میرے بعد ابوبکر صدیقؓ خلیفہ ہوں گے، مصلے پر بھی کھڑا کیا، اشاروں میں کسر نہیں چھوڑی، لیکن مقرر نہیں کیا اور فرمایا کہ امت فیصلہ کرے گی۔ بخاری شریف کی روایت ہے ایک دفعہ آپؐ نے حضرت عائشہؓ سے کہا، اپنے ابا جان کو اور بھائی عبد الرحمٰن کو بلا لاؤ کہ میں لکھ دوں تاکہ بعد میں خواہ مخواہ کوئی جھگڑا نہ کھڑا ہو جائے۔ پھر فرمایا، چھوڑو رہنے دو۔ اور ایک جملہ فرمایا ’’یابی اللہ والمؤمنون الّا ابابکر‘‘ اللہ بھی کسی اور کو نہیں بننے دے گا اور مسلمان بھی ابوبکر کے سوا کسی کو نہیں بنائیں گے۔ یہ حکم نہیں تھا، خبر تھی کہ مسلمان خود ہی فیصلہ کریں گے اور ان کا فیصلہ درست ہوگا، اور یہ مسلمانوں کی عمومی رائے پر اعتماد کا اظہار بھی تھا۔

    پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد خلافت کا فیصلہ کس نے کیا؟ حضرت ابوبکرؓ نے خلافت نہ قبضہ کر کے سنبھالی اور نہ خاندان کی بنیاد پر کہ میرے خاندان کا حق ہے، بلکہ مشورے سے آپ خلیفہ بنائے گئے۔ آپؓ کی حکومت کا جواز مشورہ تھا اور سقیفہ بنی ساعدہ میں صرف مشورہ نہیں ہوا بلکہ سامنے دوسرا امیدوار بھی موجود تھا اور وہ تھے سید الانصار حضرت سعد بن عبادہؓ جو خزرج کے سردار تھے۔ انصارِ مدینہ تقریبًا فیصلہ کر چکے تھے کہ حضرت سعدؓ کو خلیفہ بنانا ہے، صرف بیعت باقی تھی۔ یہ تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ وقت پر پہنچ گئے اور معاملہ سنبھال لیا ورنہ گڑبڑ ہو گئی تھی۔ وہاں مذاکرات ہوئے، بحث مباحثہ ہوا۔ حتٰی کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے کہا، خلیفہ تو قریش میں سے ہو گا تو حباب بن منذر نے کہا ’’منا امیر و منکم امیر‘‘ ایک امیر تمہارا ہو گا اور ایک امیر ہمارا ہو گا۔ تم اپنا منتخب کرو، ہم اپنا منتخب کرتے ہیں، دونوں مل کر حکومت کریں گے۔ جب اس کو تسلیم نہیں کیا گیا تو اگلی پیشکش بھی ہوئی، سعد بن عبادہؓ نے کہا ’’انتم الامراء ونحن الوزراء‘‘ امیر آپ ہو جائیں اور وزیر ہم ہوں گے۔ اس ماحول میں بات ہوئی۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالی تو امت کے اعتماد کے ساتھ۔ یہ دوسرا سیاسی حق دیا کہ حکومت اب وحی سے نہیں بنے گی، اب امت کے اجتماعی اعتماد پر حکومت بنا کرے گی۔

آج میں نے یہ بیان کیا کہ حضورؐ نے اپنی ریاست میں لوگوں کو سیاسی حقوق کی کیا بنیادیں فراہم کیں۔ آپؐ نے ان کو رائے کا حق بھی دیا، مشورے کا حق بھی بحال کیا اور حکومت کے قیام کا حق بھی دیا۔

2016ء سے
Flag Counter