۵ اکتوبر کو دن کا ایک حصہ چناب نگر اور چنیوٹ میں گزارنے کا موقع ملا۔ اسباق سے فارغ ہو کر ظہر تک عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکز چناب نگر پہنچا اور ’’تخصص فی الفقہ‘‘ کی کلاس میں فقہ اسلامی کے عصری تقاضوں اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی فکری ضروریات کے عنوان پر شرکاء کے ساتھ کم و بیش ایک گھنٹہ گفتگو ہوئی۔ جبکہ عالمی مجلس کے مرکزی راہنما مولانا عزیز الرحمان ثانی کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیالات کیا۔
اس کے بعد جامعہ انوار القرآن چنیوٹ میں مولانا قاری عبد الحمید حامد کے ہاں حاضری دی اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ پاکستان کے امیر مولانا محمد الیاس چنیوٹی ایم پی اے کے ساتھ ان کے گھر ملاقات کی جس میں مختلف دیگر امور کے علاوہ پنجاب اسمبلی کی طرف سے نصاب تعلیم کی تدوین نو کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹی کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں، جس کے مولانا موصوف بھی ممبر ہیں۔ معلوم ہوا کہ قومی نصاب کمیٹی کی طرح یہ کمیٹی پنجاب کے تعلیمی اداروں کے لیے نصاب کی تدوین و ترتیب کی ذمہ دار ہوگی۔
شام کو مولانا قاری محمد یامین گوہر کے ہاں ’’خدام فکر اسلاف‘‘ کے زیر اہتمام سالانہ درس قرآن کریم کا پروگرام تھا جس میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی مہمان خصوصی تھے اور علماء و عوام کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ خدام فکر اسلاف کے نام سے یہ جماعت کم و بیش دس سال سے مصروف عمل ہے اور مولانا قاری محمد یامین گوہر کے ساتھ مولانا محمد عمیر چنیوٹی، مولانا ابوبکر اور دیگر حضرات شریک عمل ہیں۔ جبکہ اگلے روز لاہور میں مجلس احرار اسلام کے مرکزی نائب امیر مولانا سید محمد کفیل شاہ بخاری سے دفتر احرار میں ملاقات کر کے متعلقہ امور پر تبادلۂ خیالات کیا۔ اس دوران مختلف مجالس میں جو امور زیر بحث آئے ان میں دینی مدارس کے بارے میں حکومتی طرز عمل کی تازہ ترین صورتحال کے علاوہ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے ۲۷ اکتوبر کو اسلام آباد میں آزادی مارچ کا حتمی اعلان اور تحریک ختم نبوت سے متعلقہ امور بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
حکومت کی طرف سے یکساں نصاب تعلیم کے حوالہ سے اس وقت ہونے والا کام یہ بتایا گیا کہ وفاقی وزارت تعلیم کی طرف سے مختلف گروپ نیا نصاب تعلیم مرتب کرنے میں مصروف ہیں جس کے بارے میں متعلقہ اداروں کا یہ ارادہ سامنے آیا ہے کہ اگلے سال سے اس کا عملی نفاذ شروع ہو جائے گا۔ اس حوالہ سے یہ بات ہم سب کے لیے باعث تشویش ہوئی کہ نیا نصاب مرتب کرنے والے ورکنگ گروپوں میں دینی اداروں کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے اور سارا کام بظاہر یکطرفہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یکطرفہ طور پر سارا کام مکمل کر کے دینی مدارس کے وفاقوں کے سامنے پیش کر دیا جائے گا جن کی قیادتوں کے پاس اس سارے نصاب کو دیکھنے کا وقت نہیں ہوگا اور وہ منظور کرنے یا نہ کرنے کے حوالہ سے مخمصہ کا شکار ہو جائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ نصاب مرتب کرنے والے ورکنگ گروپوں میں دینی تعلیم کے نمائندوں کی باقاعدہ شمولیت کے بغیر نئے نصاب کو قبول کرنا دینی حلقوں کے لیے آسان نہیں ہوگا، اس لیے ابھی سے اس کی کوئی تدبیر سوچ لینی چاہیے۔
ختم نبوت کے حوالہ سے نبیل اکرم قادیانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر کچھ عرصہ سے جاری مہم کے بارے میں یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ نبیل اکرم مذکور تو چار سال سے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب محترمہ ملیحہ لودھی کے نائب کے طور پر کام کر رہا تھا مگر اس کے بارے میں اس دوران کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ اب وہ اپنی مدت کر کے واپس آگیا ہے اور اس کی جگہ منیر اکرم نامی سفارتکار کو نیا مندوب بنا دیا گیا ہے جو قادیانی نہیں ہے، تو سوشل میڈیا پر یہ بے موقع بحث چھیڑ دی گئی ہے جو تحریک ختم نبوت کی عالمی صورتحال کے بارے میں ہمارے دینی حلقوں کی بے خبری، سطحیت اور عدم دلچسپی کا افسوسناک مطاہرہ ہے۔ حالانکہ ہم ایک عرصہ سے متعلقہ جماعتوں، اداروں اور حلقوں سے مسلسل گزارش کر رہے ہیں کہ قادیانی گروہ کی بین الاقوامی کمین گاہوں اور تحریک ختم نبوت کے عالمی مورچوں کے بارے میں ہماری عدم دلچسپی اور بے پروائی نے یہ میدان قادیانیوں کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے اور ہم میں سے کوئی بھی اس مسئلہ پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے بارے میں ہر جگہ سوال ہوا، میں نے عرض کیا کہ میں تو عملی، انتخابی اور تحریکی سیاست سے ۱۹۹۰ء سے لاتعلق ہوں اور ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کا دائرہ کار بھی صرف علمی اور فکری ہے۔ مگر یہ ضرور دیکھ رہا ہوں کہ مولانا موصوف جب یہ کہتے ہیں کہ دستور کی عملی بالادستی ضروری ہے اس لیے تمام ریاستی اداروں کو دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے اور کسی ادارے کو اپنی دستوری حدود سے باہر کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے تو یہ بات اصولی طور پر بالکل درست ہے بلکہ ہر آٹھ دس سال کے بعد قومی سیاست میں پیدا ہونے والے بھونچال کا علاج بھی یہی ہے کہ سب ریاستی ادارے اپنی اپنی حدود میں کام کریں اور دستور اور پارلیمنٹ کو اپنا کردار آزادی کے ساتھ ادا کرنے کا موقع دیں۔ میرے خیال میں اس موقف کی سب کو حمایت کرنی چاہیے اور اس صحیح موقف کو روبہ عمل لانے کے لیے محنت بھی کرنی چاہیے۔ ایک محفل میں مجھ سے اس حوالہ سے پوچھا گیا تو میں نے سوال کیا کہ مولانا فضل الرحمان جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا وہ درست ہے؟ ساتھیوں نے کہا کہ ہاں درست ہے۔ میں نے دوسرا سوال کیا کہ کیا یہ ضروری بھی ہے؟ جواب ملا کہ ضروری ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی اور قومی لیڈر یہ بات اس سطح پر کر رہا ہے؟ جواب ملا کہ نہیں۔ میں نے گزارش کی کہ پھر مولانا کو تو یہ باتیں کرنے دیں۔ باقی لیڈر بات نہیں کر رہے اور مولانا فضل الرحمان کو آپ حضرات نہیں کرنے دے رہے تو کیا دستور، پارلیمنٹ اور جمہوریت کو اسی طرح بھنور میں چکر کاٹتے چھوڑ دیا جائے؟