قرآن و سنت کا باہمی تعلق و تلازم

   
جامعہ اسلامیہ، صدر، راولپنڈی
۷ فروری ۲۰۲۳ء

۷ فروری کو جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں ختم بخاری شریف میں شرکت اور قرآن و سنت کے باہمی تعلق و تلازم کے موضوع پر چند گزارشات پیش کرنے کا اعزاز ملا۔ اس موقع پر کی گئی گفتگو کو عزیزم حافظ کامران حیدر نے محفوظ اور مرتب کیا، جسے ان کے شکریے کے ساتھ نذر قارئین کیا جاتا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعہ اسلامیہ میں میری حاضری اپنے بزرگوں کے ساتھ نسبت کو تازہ کرنے کے لیے اور پرانی یادوں کو باقی رکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ حضرت مولانا قاری سعید الرحمٰن نور اللہ مرقدہ ہمارے بزرگ، بڑے بھائی اور دوست تھے۔ دینی تحریکات اور دینی کاموں میں ہم ہمیشہ اکٹھے چلتے رہے اور یہ ہمارا مرکز تھا۔ میں اس مرکز کی اس مرکزیت کا عینی گواہ ہوں اور ذکر کرتا رہتا ہوں۔ اسی نسبت سے آج حاضری ہوئی ہے اور مجھے اس سے خوشی ہوئی ہے کہ ان کے فرزندان محترم جناب ڈاکٹر عتیق الرحمٰن اور عزیزم قاری انس اپنے بزرگوں کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بڑی سعادت، خوشی اور برکت کی بات ہے۔ اس تناظر میں چند باتیں عرض کروں گا۔

سب سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید اور حدیث رسولؐ کا باہمی تعلق کیا ہے؟ قرآن مجید اور حدیثِ رسولؐ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ آج کے دور میں قرآن مجید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور جوڑ کو نئی نسل کے ذہنوں میں واضح کرنا اور آج کی دنیا کے سامنے اس تعلق کو واضح کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ بات کے بہت سے پہلو ہیں، میں قرآن مجید اور حدیث رسولؐ کے درمیان چار باتوں کا جوڑ عرض کرتا ہوں۔

قرآن مجید اور حدیث رسولؐ کا آپس میں کیا تعلق ہے، اس حوالے سے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں قرآن مجید حدیث کے واسطے سے ہی ملا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی پہلی وحی سورۃ العلق کی پانچ آیتیں ہیں، یہ آیتیں ہمیں غار حرا سے ملی ہیں۔ غار حرا میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ آپ علیہ السلام نے وہ بیان فرمایا، جس میں سے یہ پانچ آیات ملیں۔ وہ واقعہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا وہ حدیث کہلاتا ہے، تو ہمیں قرآن مجید کی پہلی وحی ملنے کا سورس حدیث ہے۔ اگر وہ واقعہ ہے تو پانچ آیتیں بھی ہیں اور اگر وہ واقعہ نہیں ہے تو پانچ آیتیں کہاں سے لائیں گے؟ اور اگر حدیث ہے تو واقعہ بھی ہے، حدیث نہیں ہے تو واقعہ بھی نہیں ہے۔

یہ بات میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ آج کل یہ مغالطہ عام ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمارا قرآن مجید پر تو ایمان ہے، لیکن کیا قرآن مجید کے بعد حدیث پر ایمان لانا بھی ضروری ہے؟ میں ان کو جواب دیتا ہوں کہ قرآن مجید کے بعد نہیں، بلکہ قرآن مجید سے پہلے حدیث پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حدیث پر ایمان لائیں گے تو قرآن پر ایمان لائیں گے۔ غار حرا کا واقعہ جو حدیث میں آیا ہے اسے مانیں گے تو سورۃ العلق کی آیات کو مانیں گے، اگر غارحرا کا واقعہ نہیں مانیں گے تو یہ پانچ آیات کہاں سے ملیں گی؟ اس لیے قرآن مجید سے پہلے حدیث پر ایمان لانا ضروری ہے۔ دلائل کی ترتیب میں قرآن مجید پہلے ہے، حدیث بعد میں ہے، لیکن ایمان کی ترتیب میں حدیث پہلے ہے، قرآن مجید بعد میں ہے۔ قرآن مجید کا کوئی ایک جملہ، ایک سورت، ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو ہمیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بغیر ملا ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ جس کے بارے میں حضور نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے تو ہم نے اسے قرآن مجید کا جملہ مان لیا اور ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے“ یہی حدیث ہے۔ اس لیے میں نے پہلی بات یہ عرض کی ہے کہ حدیث پر ایمان لائے بغیر قرآن مجید کے کسی ایک لفظ پر بھی ایمان ممکن نہیں ہے۔

دوسری بات کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ کسی کے کلام میں کوئی الجھن ہو جائے تو اس کی وضاحت کا سب سے پہلا حق متکلم کا ہوتا ہے۔ جیسے میں بات کر رہا ہوں، آپ کو کوئی بات سمجھ نہیں آتی، کوئی الجھن ہوتی ہے تو آپ اس کی وضاحت مجھ سے ہی لیں گے۔ مجھ سے پوچھا جائے گا کہ آپ نے یہ بات کی ہے، اس میں یہ کنفیوژن ہے، آپ کی بات کا مطلب کیا ہے؟ تو میں اس کی وضاحت کروں گا، کیونکہ بات کی وضاحت کا حق متکلم کا ہوتا ہے اور اپنی بات کی وضاحت میں اتھارٹی بھی متکلم ہوتا ہے۔ کسی بھی گفتگو میں جب متکلم کہہ دے کہ میری بات کا یہ مطلب ہے تو کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید کے متکلم اللہ تعالیٰ ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ سے کسی کا براہ راست رابطہ نہیں ہے کہ پوچھ سکے کہ قرآن مجید کی فلاں بات سمجھ نہیں آ رہی، اس کی وضاحت کر دیں۔ کسی کی براہ راست اللہ تعالیٰ تک رسائی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نمائندے رسول بھیجے ہیں، ان سے اللہ تعالیٰ کے کلام کا وضاحت پوچھی جا سکتی ہے۔ وہ نمائندے اگرچہ اب ہم میں موجود نہیں، لیکن ان کے ارشادات تک رسائی ہے، جن سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔

رسول کسے کہتے ہیں؟ رسول کا معنی ہے نمائندہ۔ کامن سینس کی بات ہے کہ جو نمائندہ ہوتا ہے اس کی اپنی بات نہیں ہوتی، بلکہ وہ جس کا نمائندہ ہوتا ہے اس کی بات ہوتی ہے۔ کوئی بھی نمائندہ ہو، کاروبار، سیاست، معیشت یا کسی بھی معاملے میں نمائندہ جو بات کرتا ہے، وہ اس کی اپنی بات شمار نہیں ہوتی، بلکہ وہ جس کا نمائندہ ہوتا ہے اس کی بات سمجھی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ تاجر ہیں، آپ کا کاروباری ادارہ ہے، کسی فرم کا نمائندہ آپ سے بات کرنے کے لیے آیا ہے تو آپ کا حق ہے کہ آپ چیک کریں کہ وہ واقعی اس فرم کا نمائندہ ہے یا نہیں۔ آپ کا یہ بھی حق ہے کہ آپ اسے اس فرم کا نمائندہ ماننے سے انکار کر دیں۔ لیکن جب آپ نے کاغذات چیک کر کے، انٹرویو کر کے اپنی تسلی کر کے اسے اس فرم کا نمائندہ مان لیا اور گفتگو شروع کی، تو اب اس کی کسی بات پر آپ اس سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ یہ بات آپ اپنی طرف سے کر رہے ہیں یا اس فرم کی طرف سے کر رہے ہیں؟

یا جیسے کسی ملک کا سفیر ہوتا ہے۔ جب کوئی سفیر آتا ہے تو ملک کے صدر محترم اس کے کاغذات وصول کر کے چیک کرتے ہیں کہ یہ واقعی فلاں ملک کا سفیر ہے یا نہیں اور کنفرم کرتے ہیں کہ ہم نے آپ کو فلاں ملک کا سفیر تسلیم کیا۔ اس کے بعد وہ سفیر جب تک اس ملک میں ہے، وہ جو بات بھی کرے وہ اس سفیر کی بات نہیں، بلکہ اس ملک کی بات شمار ہوتی ہے جس کا وہ سفیر ہے۔ مثلاً فرانس کا سفیر اسلام آباد میں کوئی بات کرتا ہے تو وہ فرانس کی بات ہے، چاہے وہ فرانس سے پو چھ کر کرے یا پوچھے بغیر کرے۔ چونکہ وہ اس ملک کا نمائندہ ہے تو اس کی بات اسی ملک کی بات شمار ہوتی ہے۔

درمیان میں یہ بات کہ قرآن مجید کی پہلی وحی ”اقرا“ اور آخری وحی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما تھے، بیماری اور کمزوری بڑھ رہی تھی، آخری وقت میں آپ علیہ السلام نے ہا تھ اٹھایا۔ حضرت جبریلؑ سامنے تھے، وہ کچھ پوچھ رہے تھے اور حضور علیہ السلام فرما رہے تھے ”اللهم بالرفيق الاعلی“ اور پھر آپؐ کا ہاتھ گر گیا۔ اس تئیس سال کے وحی کے نزول کے عرصہ کے دوران جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزاروں باتیں ارشاد فرمائی ہوں گی، ہزاروں کام کیے ہوں گے۔ ان تئیس سالوں کی باتوں اور کاموں میں سے چند ایک پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور وہ تقریباً صرف چار پانچ باتیں ہیں۔ ”لم تحرم ما احل اللہ لك“، ”لم اذنت لھم“، آپ نے عبد اللہ بن ابی کا جنازہ کیوں پڑھایا؟ آپ کو نہیں پڑھانا چاہیے تھا، آپ نے بدر کے قیدیوں سے فدیہ کیوں لے لیا؟ آپ کو فدیہ نہیں لینا چاہیے تھا۔ تئیس سال کی ہزاروں باتوں میں صرف چار پانچ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ ان پانچ باتوں کے نہ کرنے کی بات کر کے اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی ساری زندگی کی باتوں اور کاموں کو کنفرم کر دیا۔

حدیث کسے کہتے ہیں؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات ارشاد فرمائی یا آپ نے کوئی کام کیا اور صحابی نے اسے روایت کر دیا تو وہ حدیث ہے۔ صحابی نے کوئی بات کی یا کام کیا، اس پر حضور علیہ السلام نے اس صحابی کو شاباش دی یا تائید کی یا کم از کم خاموشی اختیار کر لی تو یہ بھی حدیث ہے اور وہ حدیث صحابی کی نہیں، بلکہ حدیثِ رسولؐ ہے۔ اگر صحابی کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے نبی کریم علیہ السلام کی حدیث بنتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اللہ تعالیٰ کی خاموشی سے اللہ تعالیٰ کا کلام بھی بنتا ہے۔ یہی معنی ہے ”وما ينطق عن الھوى ان ھو الا وحی یوحی“ کا۔ حضور نبی کریم علیہ السلام نے جو کام بھی کیا اور جو بھی بات کی وہ وحی تھی، یا اللہ تعالیٰ کے خاموش رہنے کی وجہ سے وحی بن گئی۔

میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ قرآن مجید کی کسی بات کی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کی وضاحت کا حق اللہ تعالیٰ کے نمائندے کا ہے اور اس کی وضاحت کی اتھارٹی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ بیسیوں مثالیں ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو کسی آیت کے سمجھنے میں الجھن پیش آئی تو صحابہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کیا۔ حضورؐ نے اس کی وضاحت فرما دی تو کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ یہ وضاحت اپنی طرف سے کر رہے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کر رہے ہیں؟ بیسیوں مثالوں میں سے ایک مثال دیتا ہوں۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ”کنت سؤولا“ میں بہت زیادہ سوال کیا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ مجلس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ نے ارشاد فرمایا ”من حوسب عذب“ جس کا حساب کتاب ہوا اس کو عذاب ہو گا۔ یہ شرط جزا کا جملہ ہے اور شرط جزا میں لزوم ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جس کا بھی حساب ہو گا وہ عذاب سے نہیں بچ سکے گا۔ حضرت عائشہؓ چونک گئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ارشاد فرما رہے ہیں ”من حوسب عذب“ جبکہ قرآن مجید تو کچھ اور کہہ رہا ہے۔ قرآن مجید میں ہے ”فاما من اوتی کتابہ بیمینہ فسوف يحاسب حسابا يسيرا و ينقلب الى اھلہ مسرورا“ جس کو دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملا اس کا آسان حساب ہو گا اور وہ گھر آ کر خوشخبری دے گا۔ (جب آدمی خوش ہوتا ہے تو سب سے پہلے خوشخبری گھر آ کر دیتا ہے۔) ”فیقول ھاؤم اقرءوا کتابیہ“ وہ اپنا رزلٹ کارڈ لوگوں کو دکھاتا پھرے گا۔ اس پر تبصرہ بھی کرے گا ”انی ظننت انی ملٰق حسابیہ“ کہ مجھے اندازہ تھا کہ میرے نمبر ٹھیک آئیں گے، ”فھو فی عیشۃ راضیۃ“ وه بڑے مزے میں ہو گا۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ قرآن مجید تو یہ کہہ رہا ہے کہ اس کا حساب کتاب بھی ہو گا اور حساب کتاب کے بعد وہ خوشی خوشی گھر آئے گا، لوگوں کو اپنا نتیجہ دکھائے گا، اس پر تبصرہ بھی کرے گا اور وہ بڑے مزے میں ہو گا، جبکہ آپ فرما رہے ہیں ”من حوسب عذب“ یہ اشکال حضرت عائشہؓ کے ذہن میں آیا تو انہوں نے یہ اشکال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا۔ حضور نبی کریمؐ نے ایک جملے میں بات نمٹا دی، فرمایا ”ذاك العرض یا عائشۃ! فاما من نوقش فقد عذب“ کہ عائشہ! جس حساب کی تم بات کر رہی ہو اس سے مراد صرف پیشی ہے، البتہ جس کا ریکارڈ طلب ہو گیا وہ مارا گیا۔

قرآن مجید کی آیت کی یہ وضاحت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی اور یہ آپؐ نے اپنی طرف سے نہیں کی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی ہے۔ یہ وضاحت اور دیگر وضاحتیں جو حضور نبی کریمؐ نے قرآن مجید کی آیات میں کی ہیں، ہمیں حدیث کے ذریعے سے ملی ہیں۔

قرآن مجید کی بہت سی آیات ایسی ہیں جن کا پس منظر معلوم کیے بغیر ان کی سمجھ نہیں آتی۔ جب تک ان کا پس منظر، بیک گراؤنڈ، جس کو مفسرین شان نزول کہتے ہیں سامنے نہ ہو تو آیت کا صحیح مفہوم سمجھ نہیں آتا۔ ان میں سے مثال کے طور پر ایک کا ذکر کرتا ہوں۔

قرآن مجید کی آیت کریمہ ہے ”ان الصفا والمروة من شعائر اللہ فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح علیہ ان يطوف بھما“ صفا مروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں، جو آدمی حج یا عمرہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ صفا مروہ کی سعی بھی کر لے۔ ”کوئی حرج نہیں کہ صفا مروہ کا چکر لگا لے“ یہ اباحت کا جملہ ہے، وجوب کا جملہ نہیں ہے تو حج اور عمرہ میں صفا مروہ کی سعی کا وجوب کہاں سے آیا؟

حضرت عروہ بن زبیرؓ نے حضرت عائشہؓ کے سامنے یہ اشکال رکھ کر سوال کیا کہ یہ سعی کا وجوب کہاں سے آیا ہے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ بیٹا! یہ تم سے نہیں کہا گیا اس لیے تمہیں سمجھ نہیں آیا، جن کو کہا گیا تھا ان کو سمجھ آ گیا تھا۔ پھر حضرت عائشہؓ نے اس آیت کا پس منظر بیان کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ حج کے لیے آتے تھے تو طواف بھی کرتے تھے، لیکن بعض لوگ صفا مروہ کی سعی نہیں کرتے تھے۔ انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج بھی صفا مروہ کی سعی نہ کرنے والوں میں سے تھے اور اس کی وجہ حضرت انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں۔ بخاری شریف کی روایت ہے حضرت انسؓ فرماتے ہیں ”کنا نتحرج، كنا نتاثم، كنا نعدھا فی الجاھلیۃ“ ہم انصار صفا مروہ کی سعی کو حرج کی بات، گناہ کی بات اور جاہلیت کی بات سمجھتے تھے کہ یہاں ماں دوڑی تھی تو ہم قیامت تک دوڑتے ہی رہیں۔ اس لیے ہم سعی نہیں کیا کرتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب حج کا موقع آیا تو انصار مدینہ کو کنفیوژن ہوئی کہ ہم حج کے لیے جائیں گے، طواف تو کریں گے، باقی لوگ طواف کے بعد سعی بھی کریں گے تو ہم کیا کریں گے؟ انہوں نے سوال کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ صفا مروہ کی سعی میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ یہ ”لا جناح علیہ“ ان کو کہا گیا ہے جو کہتے تھے ”کنا نتحرج، کنا نتاثم“ ہم اسے حرج اور گناہ کی بات سمجھتے تھے۔ ان کو جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

اس لیے میں نے عرض کیا کہ بہت سی آیات کا پس منظر اور بیک گراؤنڈ سامنے نہ ہو تو ان کا صحیح مطلب سمجھ نہیں آتا۔ اس آیت کا یہ پس منظر حضرت عائشہؓ نے بیان کیا ہے اور ہم سے حدیث کے ذریعے نقل ہوا ہے۔ ہمیں قرآن مجید کا متن حدیث کے ذریعے ملا ہے، قرآن مجید کے کس جملے یا کس آیت سے اللہ تعالیٰ کی منشا کیا ہے یہ بھی ہمیں حدیث کے ذریعے ملا ہے اور قرآن مجید کی آیات کے پس منظر اور بیک گراؤنڈ تک رسائی بھی حدیث کے ذریعہ ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید کے بہت سے احکام کی تشکیل بھی سنت رسولؐ سے ہی ہوتی ہے اور تکمیل بھی سنت رسولؐ سے ہوتی ہے۔ حکم قرآن مجید میں آیا ہے، لیکن اس کی پریکٹیکل شکل کیا ہے، اس کی عملی صورت کیا ہے، اس کی تشکیل حدیث ہی کرتی ہے اور ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ حکم کیسے عمل پذیر ہو سکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کا کوئی حکم بظاہر ادھورا معلوم ہوتا ہے تو اس کی تکمیل بھی سنت کرتی ہے۔ اس پر بھی بہت سے واقعات موجود ہیں، جن میں سے ایک کا ذکر کرتا ہوں۔

قرآن مجید میں قصر نماز کا ذکر ہے۔ اس سلسلے میں ارشاد ہے: ”واذا ضربتم فی الارض فليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلوة ان خفتم ان يفتنكم الذين كفروا“ (النساء: ۱۰۱) یعنی اگر سفر میں ہوں اور شرعی مسافت ہو تو چار رکعات کی بجائے دو رکعتیں پڑھنے کا حکم ہے، لیکن ساتھ شرط ذکر کی ”ان خفتم ان يفتنكم الذين كفروا“ کہ اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں آزمائش میں ڈال دیں گے۔ یعنی میدان جنگ میں ہو، خوف کی کیفیت ہو، کافروں کے حملے کا ڈر ہو تو نماز قصر کر لو۔ قرآن مجید نے جو قصر بیان کیا ہے وہ ”ان خفتم ان يفتنكم الذين كفروا“ کی شرط کے ساتھ ہے۔ یہ حالتِ خوف اور حالتِ جنگ کا قصر ہے۔ حالتِ امن کا قصر کہاں سے آیا ہے؟ یہ اشکال سب سے پہلے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر حضرت عمر فاروقؓ کے ذہن میں آیا۔

حجۃ الوداع حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ اس وقت پورے جزیرۃ العرب پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کنٹرول ہو چکا تھا اور کہیں کوئی لڑائی نہیں تھی۔ مدینہ منورہ سے قصر کرتے آ رہے ہیں اور اب مدینہ واپس جا رہے ہیں تب بھی قصر کرتے جا رہے ہیں، حالانکہ نہ کوئی خوف، نہ کوئی خطرہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ اشکال آیا تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، کیونکہ وضاحت اتھارٹی ہی کیا کرتی ہے، وضاحت ہر آدمی کا حق نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر ہمارے ملک کے قانون میں کوئی اشتباہ ہو تو اس کی وضاحت کی اتھارٹی ہائی کورٹ ہے اور اگر دستور کی دفعہ میں اشتباہ ہو تو اس کی وضاحت کی اتھارٹی اس سے بھی اعلیٰ عدالت یعنی سپریم کورٹ ہے۔ جو کوئی بھی وضاحت کر دے وہ قبول ہو جائے ایسا نہیں ہے، بلکہ جو اتھارٹی موجود ہے اسی کو وضاحت کا حق ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کی وضاحت کی اتھارٹی اور اس کے مطلب کی تعیین کی اتھارٹی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

چنانچہ یہ اشکال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا کہ قرآن مجید نے ”ان خفتم ان يفتنكم الذين كفروا“ کی شرط بیان کی ہے، حالت خوف میں قصر کی اجازت دی ہے اور ہمیں تو کوئی خوف نہیں ہے تو ہم دورانِ سفر کیوں قصر کر رہے ہیں؟ اتنے امن میں تو ہم کبھی نہیں تھے جتنے امن میں آج ہیں، لیکن پھر بھی ہم کیوں قصر کرتے آ رہے اور قصر کرتے جا رہے ہیں؟ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑے مزے کا جواب دیا، فرمایا: ”عمر! اللہ کا صدقہ واپس کیوں کرتے ہو؟“ میں اس جملے کی تشریح یوں کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے حالت خوف میں قصر کا کہا ہے اور ہم حالتِ امن میں قصر کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو بولنا چاہیے تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نہیں بولے تو اے عمر! آپ کیوں بولتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار کر لی تو بات ختم ہو گئی، سوال جواب کر کے اللہ تعالیٰ کا صدقہ واپس کرنا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے مہربانی کر دی ہے تو چپ چاپ اسے قبول کرو۔

میں یہ بات عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ حالت خوف کا قصر قرآن مجید میں ہے اور حالتِ امن کا قصر سنت میں ہے، لیکن کیا حالتِ خوف کے قصر اور حالتِ امن کے قصر میں گریڈ کا کوئی فرق ہے؟ نہیں ہے! بلکہ جو درجہ اس کا ہے وہی درجہ اس کا ہے۔

میں نے قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے باہمی تعلق کے حوالے سے چار باتیں عرض کی ہیں:

  1. قرآن مجید کے متن تک رسائی حدیث کے ذریعہ ہے۔
  2. قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی منشا تک رسائی حدیث کے ذریعہ ہے۔
  3. قرآن مجید کی آیات کے پس منظر اور بیک گراؤنڈ تک رسائی حدیث کے ذریعہ ہے۔
  4. اور قرآن مجید کی کسی آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو وضاحت کی ہے، اس وضاحت تک رسائی بھی حدیث کے ذریعہ ہے۔

آخر میں علمائے کرام سے ایک گزارش کروں گا۔ امام ربیعہ الرائےؒ جو تابعین میں سے ہیں، ان کی عظمت کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ آپ امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کے استاد ہیں، ان کا ایک جملہ امام بخاریؒ نے بخاری شریف میں نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ”لا ينبغی لاحد عنده شیء من العلم ان يضيع نفسہ“ کہ جس کے پاس تھوڑا سا بھی علم ہے اسے اپنے آپ کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ علم کا تقاضا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے کچھ علم دیا ہے وہ اپنے آپ کو ضائع نہ کرے، بلکہ اپنی حیثیت پہچانے اور اپنا کردار ادا کرے۔ میں اس ارشاد کی روشنی میں علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ کسی عالم دین کا دین کی جدوجہد سے لاتعلق رہنا جائز نہیں ہے۔ فتویٰ کی بات نہیں، ذوق کی بات کرتا ہوں کہ میں اسے کبیرہ گناہ سے بھی بڑی چیز سمجھتا ہوں۔ اگر دین کی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے تو کیوں؟ پڑھا کس لیے ہے؟

دوسری بات کہ آپ جدوجہد وہیں کریں جہاں آپ کا ذوق ملتا ہے۔ ختم نبوت کا ذوق ہے یا نفاذ شریعت کا، تبلیغی جماعت کا ذوق ہے یا تعلیم و تدریس کا، دفاع صحابہ کا ذوق ہے یا افتاء کا، آپ اپنے ذوق کے مطابق اپنے دائرے میں کام کریں، لیکن کسی دوسرے کی نفی مت کریں۔ آج کل ہماری سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ ہم کوئی کام کرتے ہیں تو دوسرے سارے کاموں کی نفی کر کے کرتے ہیں۔ اس لیے آپ دین کا کام کریں، اس سے لاتعلق نہ رہیں، لیکن یہ سارے کام ہمارے ہیں، اس لیے کسی دوسرے کام کے تحقیر نہ کریں، اس کی نفی نہ کریں ورنہ اپنا کام ضائع کر لیں گے۔ اگر آپ دوسرے کام میں تعاون کر سکتے ہیں تو ضرور کریں، ورنہ کم از کم اپنی زبان بند رکھیں۔

یہ ہماری ذمہ داری اور دینی جدوجہد کا تقاضا ہے کہ ہم میں سے ہر آدمی اپنے اپنے دائرے میں متحرک ہو اور جدوجہد کرے، قربانی دے۔ دینی جدوجہد کو ہر شعبے کے رجال کار کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہم ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ، ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دینی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۰، ۲۱، ۲۲ فروری ۲۰۲۳ء)
2016ء سے
Flag Counter