۲۶ جون کو جامعہ نصرۃ العلوم میں اسباق سے فارغ ہوا تو دورۂ حدیث کے چند طلبہ نے گھیر لیا اور ایک عزیز شاگرد نے ہمدردی اور افسوس کے لہجے میں کہا، استاذ جی! آپ کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے کہا سود کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ میں نے کہا اس سے ہماری محنت پر کیا اثر پڑا ہے؟ سودی نظام کے خلاف جو لوگ جدوجہد کرتے رہے ہیں ان کے اجر و ثواب میں کوئی فرق نہیں پڑا اور اب بھی وہ اپنی جدوجہد پہلے کی طرح جاری رکھیں گے، ان شاء اللہ تعالٰی۔
اس موقع پر میں نے انہیں بتایا کہ میں بھی ان حوالوں سے ایک دور میں بہت پریشان ہوا کرتا تھا کہ کسی کام کے لیے محنت کرتے ہیں اور جان لڑا دیتے ہیں مگر وہ کام ہوتا نہیں۔ ایک روز والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے مجھے بٹھا کر یہ سمجھایا کہ میں تمہاری سرگرمیاں دیکھتا رہتا ہوں کہ دینی جدوجہد میں خوب محنت کرتے ہو اس لیے ایک بات تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ کبھی کوئی کام اس خیال سے نہ کرنا کہ ہمارے کرنے سے وہ ضرور ہو جائے گا، بلکہ یہ سمجھ کر کرنا کہ کام ضروری ہے، میں اس کے لیے جو کر سکتا ہوں وہ مجھے کرنا ہے، ہونا نہ ہونا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، اگر ہوگیا تو بہت خوب اور اگر نہ ہوا تو بھی تمہارے ثواب و اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ میں نے طلبہ سے کہا کہ اس بات کو کم و بیش تیس سال ہوگئے ہیں، میری ساری ٹینشن ختم ہو گئی ہے، میں بڑے بڑے کاموں میں ہاتھ ڈال دیتا ہوں اور بحمد للہ اس کے لیے محنت بھی بساط کی حد تک کرتا ہوں مگر مجھے کبھی یہ پریشانی نہیں ہوتی کہ کام نہ ہوا تو کیا ہو گا؟ نتائج اللہ تعالیٰ کے حوالے کر کے اپنا کام کرتا رہتا ہوں، اس لیے مجھے کوئی مایوسی یا الجھن پریشان نہیں کرتی، فالحمد للہ علٰی ذالک۔
سودی نظام کے خاتمہ کے لیے جدوجہد قیامِ پاکستان کے بعد سے شروع ہو گئی تھی اور سب سے پہلے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام کو مغرب کے اصولوں پر نہیں بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر استوار دیکھنا چاہتے ہیں، مگر ان کی وفات ہو گئی اور سارا پروگرام تلپٹ ہو کر رہ گیا۔
اس کے بعد سودی نظام کے خاتمہ کے لیے مسلسل جدوجہد جا رہی اور مختلف طبقات اور جماعتیں اس کے لیے سرگرم عمل رہیں حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں حکومت کو واضح طور پر ہدایت دی گئی کہ وہ جلد از جلد ملک کو سودی نظام سے نجات دلا کر اسلامی اصولوں پر ملک کے نظام معیشت کو استوار کرے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ المیہ بھی شروع سے ہمارے ساتھ چلا آرہا ہے کہ ہمیں بتدریج ایسے بین الاقوامی معاہدات میں الجھا دیا گیا جن کے ذریعے قومی معیشت بیرونی مداخلت کا شکار چلی آ رہی ہے، اور اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے پاکستانی معیشت کے کم و بیش تمام شعبوں کو اپنے جال میں جکڑ رکھا ہے اور اس سب کی بنیاد سودی نظام و قوانین پر ہے۔
ہمارے قومی المیہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قومی معاملات حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی بیرونی مداخلت سے آزاد نہیں رہ سکی، حتیٰ کہ ریاستی بینک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی نگرانی بھی اس وقت بیرونی مالیاتی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے ہمارا اصل مسئلہ قومی خودمختاری کی بحالی اور بیرونی مداخلت کی روک تھام کا ہے جس کے بغیر
- نہ ہم سود سے نجات حاصل کر سکتے ہیں،
- نہ ملک میں دستور کے مطابق قرآن سنت کے احکام و تعلیمات کا عملی نفاذ ممکن ہے،
- اور نہ ہی معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کا کوئی راستہ دکھائی دے رہا ہے۔
اس ماحول میں سودی نظام کے خاتمہ کے لیے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ امید کی ایک کرن بن کر سامنے آیا تھا جو کم و بیش تین عشروں کی عدالتی جنگ کے بعد قوم کو میسر آیا، جس میں ملک کے پورے معاشی نظام کو دستور کے مطابق اسلامی تعلیمات کے دائرے میں لانے کے لیے حکومت کو پانچ سال کا وقت دیا گیا تھا۔ جبکہ حکومتِ وقت کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے اس فیصلے کے خیر مقدم اور اس پر عملدرآمد کے عزم کے اظہار نے عوام کو اس حوالے سے روشن مستقبل کی امید دلائی تھی۔ مگر واقفانِ حال کا کہنا تھا کہ جن سے سودی نظام کے خاتمہ کے لیے کہا جا رہا ہے وہ خود اس سسٹم سے نجات حاصل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں تو اس فیصلے پر عملدرآمد آخر کیسے ہو سکے گا؟
اس لیے اصل بات قرآن و سنت اور دستور و قانون کی نہیں بلکہ بیرونی مداخلت اور ڈکٹیشن سے چلنے والے نظام کی ہے، جب تک اس سے چھٹکارا نہیں ملے گا خیر کے کسی کام کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں توقع نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال اس سب کے باوجود ہم مایوس نہیں ہیں اور نہ ہی بحمداللہ بے حوصلہ ہوئے ہیں، مختلف دینی حلقوں اور قومی طبقات میں مشاورت کا عمل جاری ہے اور امید ہے کہ ہم عید الاضحی تک سودی نظام کے خاتمہ کے لیے مربوط اور متواتر جدوجہد کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لیں گے، قارئین سے اس سلسلہ میں مسلسل دعاؤں کی گزارش ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔