اسلام آباد و راولپنڈی: کشمیر کا مسئلہ / پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ / دعا کی قبولیت

   
۲ دسمبر ۲۰۰۴ء

اسلام آباد اور رالپنڈی میں بہت سے احباب سے ملاقات اور گفتگو کو جی چاہا رہا تھا اس لیے مدرسہ میں اسباق کے آغاز سے قبل ہی دو روز کے لیے حاضری کا پروگرام بنا لیا۔ اس سے قبل جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی صدر کے سالانہ جلسہ کے موقع پر ۸ ستمبر کو حاضری ہوئی تھی جو اس لحاظ سے یادگار رہے گی کہ مفتی محمد جمیل خان شہید کے ساتھ میری آخری ملاقات اسی پروگرام میں ہوئی تھی بلکہ واپسی پر گوجرانوالہ تک کا سفر بھی ان کے ساتھ کیا تھا۔

۲۴ نومبر بدھ کو صبح ۱۱ بجے کے لگ بھگ بذریعہ ویگن سواں کیمپ کے اڈے پر پہنچا تو مولانا محمد رمضان علوی مجھے لینے آگئے۔ مولانا علوی مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فضلاء میں سے ہیں اور گزشتہ بیس سال سے جامع مسجد عثمان غنیؓ جی ٹین ون اسلام آباد میں خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اسلام آباد میں عام طور پر انہی کا مہمان ہوتا ہوں۔ جب تک اسلام آباد میں رہوں گاڑی سمیت میرے ساتھ رہتے ہیں اور بہت محبت کا معاملہ کا کرتے ہیں۔ ہم اڈہ سے سیدھے جامعہ اسلامیہ پہنچے، مولانا قاری سعید الرحمان صاحب موجود نہیں تھے البتہ ان کے فرزند مولانا عتیق الرحمن صاحب جامعہ کے اساتذہ کے ساتھ تعلیمی امور پر مشاورت میں مصروف تھے۔ قاری صاحب کے ساتھ فون پر اگلے روز ملاقات کا پروگرام طے کر کے ہم اسلام آباد روانہ ہو گئے۔

مولانا نذیر فاروقی بھی مدرسہ نصرۃ العلوم کے فضلاء میں سے ہیں اور میرے جیل کے ساتھی ہیں۔ ہم نے ۱۹۷۶ء کے دوران مسجد نور اور مدرسہ نصرۃ العلوم کو محکمہ اوقاف سے واگزار کرانے کی احتجاجی تحریک میں گوجرانوالہ جیل میں کم و بیش تین ماہ ایک بارک میں اکٹھے گزارے۔ آل جموں وکشمیر جمعیۃ علماء اسلام کے سینئر نائب امیر ہیں۔ ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ ہمیں سیدھے عثمانیہ ریسٹورنٹ لے گئے جہاں پر تکلف ظہرانے کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے حالات اور مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلہ میں ہونے والی سرگرمیوں کی تازہ ترین صورت حال پر ان سے تبادلۂ خیال ہوا۔ مولانا کا خیال ہے کہ اس وقت مسئلۂ کشمیر کے سلسلہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ آزادیٔ کشمیر کی جد و جہد سے ’’جہادی عمل‘‘ کو خارج کر دیا جائے اور کوئی نہ کوئی حل کشمیری عوام کے سر تھونپ دیا جائے تاکہ اس کے بہانے پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام معطل کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک کشمیر کے مسئلہ کا وجود اور اس کی طرف دنیا کی توجہ کی سب سے بڑی وجہ جہادی عمل اور کشمیری عوام کی قربانیاں ہیں۔ جس روز خدانخواستہ یہ کام ختم ہو گیا مسئلہ کشمیر ہوا میں تحلیل ہو جائے گا اور اس کے حل میں کشمیری عوام کی مرضی کو ملحوظ رکھنے کا دباؤ بھی باقی نہیں رہے گا۔

اس کے بعد ہم تینوں یعنی مولانا محمد نذیر فاروقی، مولانا محمد رمضان علوی اور راقم الحروف مرکزی جامع مسجد اسلام آباد پہنچے اور ظہر کی نماز وہاں پڑھی۔ مولانا عبد العزیز اور غازی عبد الرشید صاحب سے ملاقات کر کے انہیں مرکزی جامع مسجد میں ان کی دوبارہ بحالی اور بحران میں سرخروئی پر مبارک باد دی۔ جن دنوں یہ بحران چل رہا تھا میں بیرون ملک تھا، میں نے انہیں بتایا کہ ان کے بارے میں انٹر نیٹ کے ذریعے پاکستانی اخبارات میں روزمرہ صورتحال سے آگاہ رہتا تھا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ دونوں بھائیوں نے جس حوصلہ اور استقامت کے ساتھ اس بحران کا سامنا کیا ہے اور جمعیۃ اہل سنت اسلام آباد راولپنڈی کے راہنماؤں نے جس طرح باہمی اتحاد و اشتراک اور جرأت وتدبر کے ساتھ سلسلہ میں کام کیا اللہ تعالیٰ نے اس کا صلہ بحران میں باوقار سرخروئی کی صورت میں عطاء فرمایا ہے اور اس پر ہم سب کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

اسی دوران عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اسلام آباد کے امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالرؤف کا پیغام آگیا کہ ظہر کے بعد دفتر ختم نبوت میں پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ ختم کیے جانے کے حوالہ سے ایک مشاورتی اجلاس ہے اور مجھے بھی اس میں ضرور شریک ہونا ہے چنانچہ ہم سب اجلاس میں پہنچے اور دوسرے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب اور مولانا قاضی عبد الرشید صاحب سے بھی ملاقات ہوگئی۔ اس اجلاس میں ایک دوست نے ہمیں اسلام آباد سے جاری ہونے والے کمپیوٹرائزڈ ریڈایبل پاسپورٹ کی کاپی دکھائی جس میں مذہب کا خانہ موجود نہیں ہے، اس سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ واقعتاً پاسپورٹ میں گزشتہ ربع صدی سے چلا آنے والا مذہب کا خانہ ختم کردیا گیا ہے۔ ایک دوست نے کہا کہ یہ بھی چیک کر لیں کہ پاکستانی پاسپورٹ کے اسرائیل کے سفر کے لیے قابل قبول نہ ہونے کی عبارت بھی کہیں حذف تو نہیں کر دی گئی، اس لیے دوبارہ اسے دیکھا مگر وہ عبارت موجود تھی، اللہ کرے کہ وہ موجود رہے اور اچانک اس طرح کی کسی کاروائی کی نذر نہ ہو جائے۔

اجلاس میں اس سلسلہ میں مؤثر احتجاج کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے لیے پروگرام کی ترتیب طے کی گئی۔ مجھے اجلاس میں کچھ عرض کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے دو گزارشات پیش کیں۔ ایک تو اسلام آباد راولپنڈی کے سب علماء کرام کو مبارک باد دی کہ ان کے باہمی اتحاد اور مشترکہ محنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لال مسجد کے بحران میں انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ اور دوسری گزارش یہ کی کہ کسی بھی دینی مسئلہ کی جدوجہد میں اسلام آباد کے علماء کرام کو روایتی طریق کار مثلاً خطبات جمعہ، اخباری بیانات اور عوامی مظاہروں پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے بلکہ وفاقی دارالحکومت میں رہنے کی وجہ سے لابنگ اور فائل ورک کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ ان حضرات پر عائد ہوتی ہے اور وہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ متعلقہ مسئلہ کی نوعیت اور اس پر اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک مختصر سی بریفنگ رپورٹ تیار کی جائے اور اسے پارلیمنٹ، وفاقی سیکرٹری، عدالت عظمیٰ اور جی ایچ کیو کے ڈیڑھ دو سو ذمہ دار حضرات تک پہنچا نے کا اہتمام کیا جائے تاکہ فیصلہ کرنے والے حلقوں تک آپ کا موقف آپ کی زبان میں پہنچ جائے اور وہ اسے فیصلہ کرتے وقت ملحوظ رکھ سکیں۔

اجلاس میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے ایک اور فاضل مولانا محمد امین کشمیری بھی شریک تھے، وہ اصرار کر کے اپنی مسجد میں لے گئے، وہاں عصرکی نماز ادا کی اور ان کے ساتھ چائے میں شریک ہوئے۔ مغرب کی نماز کورڈ مارکیٹ کے ساتھ مسجد بلال میں ادا کی اور بہت سی پرانی یادیں تازہ کیں۔ اس مسجد کے ساتھ ایک زمانے میں جمعیۃ علماء اسلام فضل الرحمن گروپ نے ایک بڑی کو ٹھی میں مرکزی سیکٹریٹ قائم کیا تھا۔ اس کوٹھی کے حوالہ سے بڑی چہ میگو ئیاں ہوئیں اور جیسے ہمارے ہاں ہوتا ہے ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘۔ یہ کھسر پھسر ابھی جاری تھی کہ اسی روڈ پر ایک اور بڑی کوٹھی لے کر مولانا سمیع الحق نے جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ کا دفتر قائم کر لیا اور ’’ گھر لے لیا ہے میں نے ترے گھر کے سامنے‘‘ کی سی صورت پیدا ہو گئی۔ میں اس زمانے میں جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ کا ڈپٹی سیکرٹر ی جنرل تھا اس لیے ہفتہ میں ایک دن کے لیے اس دفتر میں آنے کا معمول بنا لیا۔ مگر بڑی کوشش اور تگ و دو کے باوجود دفتری ماحول پیدا نہ کر سکا اس لیے پھر آنا ہی چھوڑ دیا۔ یہ دفتر بھی ملک میں چہ میگوئیوں کا موضوع بنا اور دونوں کوٹھیوں کے بارے میں بہت سی داستانیں دوستوں میں عام ہوئیں مگر چند ماہ کے بعد جب گرد چھٹی تو دونوں کرائے کی کوٹھیاں نکلیں۔ مسجد بلال میں اس زمانے میں نماز پڑھنے کے لیے جایا کرتے تھے اس لیے پرانی یادیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔

اس کے بعد مولانا محمد رمضان علوی اور راقم الحروف روزنامہ اسلام کے دفتر پہنچے اور ایڈیٹر صاحبان سے ملاقات کی۔ مختلف امور پر بات چیت ہوئی، انہوں نے مجھ سے امریکہ اور برطانیہ کے سفر کے تاثرات اور وہاں مسلمانوں کے حالات کے بارے میں دریافت کیا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ میں جہاں بھی ہوتا ہوں ان سے رابطہ میں رہتا ہوں، ان کا کہنا تھا کہ اس سے ہمیں پتہ چلتا رہتا ہے کہ آپ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ آپ اسے میری کمزوری سمجھ لیں یا خوبی مگر میری شروع سے یہ عادت ہے کہ خفیہ سرگرمیوں کا نہ عادی ہو اور نہ قائل ہوں، جو کچھ کرتا ہوں اوپن طور پر کرتا ہوں اور کوئی بات صیغہ راز میں نہیں رہنے دیتا بلکہ اس امر کا اہتمام ضروری سمجھتا ہوں کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جائے جسے چھپانے کی ضرورت پڑے۔

عشاء کی نماز ہم نے مولانا محمد رمضان علوی کے ہاں مسجد سیدنا عثمانؓ میں ادا کی رات وہیں قیام تھا۔ نماز فجر کے بعد مختصر سا درس دیا، ناشتہ سے فارغ ہوئے تو احمد یعقوب چودھری صاحب آگئے۔ چودھری صاحب جمعیۃ علماء اسلام کے پرانے نظریاتی کارکنوں میں سے ہیں، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک عرصہ تک جمعیۃ کے ذمہ دار حضرات میں شامل رہے ہیں، دیگر بہت سے نظریاتی اور مشنری کار کنوں کی طرح موجودہ صورتحال اور دینی سیاست کے رجحانات سے غیر مطمئن ہیں، ان کا تعلق صحافت سے بھی رہا ہے اور اچھا لکھنے والوں میں سے ہیں، کچھ عرصہ سے راولپنڈی میں قیام پذیر ہیں، دینی جد و جہد کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ اب بھی رکھتے ہیں مگر نظریاتی اور مشنری ماحول نہ پاکر اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں۔ میں جب اسلام آباد آتا ہوں انہیں بتا دیتا ہوں اور وہ ایک آدھ دن میرے ساتھ گزار لیتے ہیں، پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، کچھ آپس میں دکھ سکھ بانٹ لیتے ہیں اور اگر کوئی کام باہمی مشورہ سے کرنا ہو تو اس کی ترتیب بن جاتی ہے۔

جمعرات کا دن مولانا محمد رمضان علوی ،احمد یعقوب چودھری اور راقم الحروف نے اکٹھے گزارا، اس روز اسلامی یونیورسٹی میں بہت سے احباب سے ملاقاتوں کا پروگرام تھا۔ یونیورسٹی کے نئے کیمپس پہنچے جو میں نے پہلی بار دیکھا، بلند و بالا عمارات میں مغلیہ طرز تعمیر کی جھلک ہے، مختلف بلاکوں میں طلبہ اور اساتذہ کی آمد ورفت کا منظر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ جس دوست سے ملنا تھا وہ موجود نہیں تھے اس لیے ہم فیصل مسجد میں چلے گئے وہاں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کا شمار عالم اسلام کے ممتاز علماء اور دانش وروں میں ہوتا ہے، ہمارے پرانے دوست ہیں، ورلڈ اسلامک فورم کے کاموں کی سرپرستی کرتے ہیں اور اہم مسائل پر ہمارے درمیان مشاورت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان کے گھر رمضان المبارک کے دوران ڈکیتی کی واردات ہوئی تھی اس کی تفصیلات معلوم کیں اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ اس واردات میں ان کے بہنوئی جو اسی روز عمرہ سے واپس آئے تھے اور بھتیجے زخمی ہوئے۔ گھر کی ایک محترم خاتون کو بھی ڈاکوؤں نے زدوکوب کیا۔ ڈاکوؤں کا اصرار تھا کہ اس گھر میں زیورات کے ڈبے پڑے ہوئے ہیں وہ کدھر ہیں؟ گھر والے کہتے کہ ہمارے ہاں کوئی غیر معمولی زیور نہیں ہے معمول کے مطابق جو ہے وہ استعمال میں ہے، انہوں خواتین سے زیور اتروا لیا اور زیورات کے ڈبوں کے لیے اصرار کرتے رہے کہ ہماری اطلاع کے مطابق زیورات کے بہت سے ڈبے اس گھر میں موجود ہیں مگر وہاں کسی کو کیا ملنا تھا؟ بعد میں پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب کو مختلف یو نیورسٹیوں کی طرف سے جو تمغے اور شیلڈز ملتی رہی ہیں ان کے ڈبے ایک الماری میں پڑے ہیں جو دیکھنے میں زیورات کے ڈبے لگتے ہیں۔ غالباً انہی ڈبوں کی مخبری پر چار مسلح ڈاکوؤں نے ایک صاحب علم وفضل کے گھر میں ڈکیتی کا پروگرام بنا لیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ نقصان تو جو کچھ ہوا وہ ہمارے مقدر میں تھا مگر گھر کے افراد مسلسل اس احساس کا شکار ہیں کہ جب ہم اپنے گھر میں ہی محفوظ نہیں ہیں تو اور کہاں ہو سکتے ہیں؟

اس کے بعد ہم دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد علوی صاحب سے ملے، ان سے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کیا بالخصوص آغا خان تعلیمی بورڈ کے ساتھ ملک کے تعلیمی اداروں کو منسلک کرنے کی مہم کے بارہ میں تازہ ترین صورتحال پر گفتگو ہوئی اور مختلف مذاہب کے درمیان مکالمہ کی تجویز اور اس سلسلہ میں کیے جانے والے اقدامات پر ہم نے باہمی مشاورت کی۔ ہمارا ارادہ ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب سے ملاقات کا بھی تھا مگر وہ موجود نہیں تھے اس لیے وزارت مذہبی امور کا رخ کیا جہاں ہم کچھ دوستوں سے ملنا چاہ رہے تھے جو موجود نہیں تھے۔ وہاں سے اسلامی نظریاتی کونسل گئے مگر کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کراچی گئے ہوئے تھے اس لیے ان کے بجائے سیکرٹری جناب غلام مرتضیٰ آزاد صاحب سے ملاقات ہوئی اور ہم نے ان سے پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کے خاتمہ کی طرف توجہ کرنے کی گزارش کی۔

ظہر کی نماز وفاقی سیکرٹریٹ کی جامع مسجد میں ادا کی جس کے خطیب مولانا احمد الرحمان مدرسہ نصرۃ العلوم کے فضلاء میں سے ہیں، صاحب مطالعہ اور صاحب ذوق نوجوان ہیں، حالات پر نظر اور آج کے مسائل پر گفتگو کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ ان کی فرمائش پر نمازیوں کو ایک حدیث کا مفہوم بتایا کہ مسند احمدؒ میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی مسلمان جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اگر اس میں کوئی گناہ یا قطع رحمی کی بات نہ ہو تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے البتہ قبولیت کی صورتیں مختلف ہیں۔ ایک شکل یہ ہے کہ جو کچھ اس نے مانگا ہے اسے وہی مل جائے۔ دوسری صورت قبولیت کی یہ ہے کہ وہ کچھ اسے نہیں ملتا مگر وہ دعا آخرت کے لیے ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ اور قبولیت کی تیسری صورت یہ بھی ہے کہ اس دعا کی برکت سے کوئی مصیبت اور بلا اس سے ٹل جاتی ہے۔ جبکہ ایک اور روایت میں چوتھی صورت بھی بیان ہوئی ہے کہ جو چیز اس نے مانگی ہے وہ اگر اس کے لیے نقصان دہ ہے تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ اسے اس کے فائدہ کی اور کوئی چیز دے دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ سمجھ کر دعا سے ہاتھ نہیں کھینچ لینا چاہیے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں کیونکہ جناب نبی اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق مومن کی جو دعا گناہ اور قطع رحمی سے خالی ہو وہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول ہوتی ہے۔

یہاں سے فارغ ہوکر ہم بھارہ کہو میں ادارہ علوم اسلامی گئے۔ یہ ادارہ مولانا فیض الرحمان عثمانی کی سرکردگی میں دینی و عصری علوم کی معیاری تعلیم کا ماحول قائم کیے ہوئے ہے اور اس کے مشاورتی نظام میں انہوں نے میرا نام بھی لکھ رکھا ہے اس لیے اسلام آباد آتا ہوں تو تھوڑی دیر کے لیے وہا ں حاضری کی کوشش ضروری کرتا ہوں۔ ادارہ علوم اسلامی میں چند لمحوں کی حاضری کے بعد راولپنڈی روانگی ہوئی اور عصر کی نمازجامعہ اسلامیہ میں ادا کی۔ مولانا قاری سعید الرحمن صاحب انتظار میں تھے، ان سے مختلف امور پر مشاورت ہوئی۔ دینی اور سیاسی معاملات میں میرا اور قاری صاحب کا ذوق ملتا جلتا ہے اور ہم ایک دوسرے سے مشورہ بھی کرتے رہتے ہیں، وہ جس تدبر اور حوصلہ کے ساتھ جمعیۃ اہل سنت والجماعت راولپنڈی کی قیادت کر رہے ہیں اور دینی جدوجہد میں اپنے اسلاف اور اکابر کی روایات کا بھرم رکھے ہوئے ہیں اسے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور دل سے ان کے لیے دعا نکلتی ہے۔ ان کے ساتھ مجلس میں مفتی جمیل خان شہید کا تذکرہ چلتا رہا اور ہم دونوں نے ایک دوسرے سے تعزیت کی۔ آغا خان تعلیمی بورڈ کو ملک کے تعلیمی اداروں پر مسلط کرنے کی تدریجی مہم کا جائزہ لیا اور اس سلسلہ میں دینی حلقوں کو بیدار اور منظم کرنے کے خطوط پر مشاورت ہوئی۔

مغرب کے بعد واپسی کے لیے روانگی ہوئی اور جب ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ گھر پہنچا تو میرا دو سالہ پوتا طلال خان میرے انتظار میں جاگ رہا تھا جو روزانہ رات سونے سے پہلے میرے ساتھ آدھ پون گھنٹہ کھیلنا ضروری سمجھتا ہے، اس لیے وہ مجھے دیکھتے ہی دابو دابو (دادا ابو دادا ابو) کہتے ہوئے چمٹ گیا اور ہم دادا پوتا حسب معمول کھیل میں مصروف ہوگئے۔

   
2016ء سے
Flag Counter