جوں جوں بین الاقوامی معاہدات کا حصار تنگ ہوتا جا رہا ہے، ان معاہدات سے آگاہی اور ان پر بحث و تمحیص کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور مختلف علمی مراکز میں ان کے حوالہ سے آگاہی و بیداری کا ماحول دیکھنے میں آرہا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی شریعہ اکادمی ملک بھر کے اصحاب فکر و نظر کے شکریہ اور تبریک کی مستحق ہے کہ وہ اس فکری و علمی مہم کی قیادت میں پیش پیش ہے جس میں پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر حبیب الرحمان اور ان کے رفقاء کی دلچسپی اور تگ و دو علماء و طلبہ کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ اکادمی نے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ۱۰ تا ۱۲ دسمبر کو اس سلسلہ میں تین روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا جس سے مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ و طلبہ نے استفادہ کیا۔
اس ورکشاپ کا بنیادی موضوع ’’حقوق انسانی کا قانون اور پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریاں‘‘ تھا، اس دائرہ میں بین الاقوامی قوانین و معاہدات کے بہت سے پہلو زیربحث آئے اور جسٹس (ر) رضا خان، ڈاکٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر زاہد صدیق مغل، ڈاکٹر حبیب الرحمٰن، ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمان، ڈاکٹر عدنان خان، پروفیسر عطاء المصطفٰی جمیل، پروفیسر عبد الرؤف کھٹانہ اور دیگر فاضل مقررین کے علاوہ راقم الحروف نے بھی ایک نشست میں تفصیلی گفتگو کی۔ ان اصحاب فکر کی گفتگو میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی اہمیت، اس کے مختلف دائرے اور اس سلسلہ میں پاکستان کے اہل علم اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دینی و تہذیبی حوالوں سے مسلمانوں اور پاکستانی قوم کے تحفظات کو زیربحث لایا گیا، اور بین الاقوامی معاہدات کی تشکیل و نفاذ میں مغربی اقوام و ممالک کے دوہرے معیار اور طرز عمل کی طرف توجہ دلائی گئی۔ جبکہ راقم الحروف نے حسب معمول بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں اپنا کیس ارباب علم و دانش کی عدالت میں ایک بار پھر پیش کیا جس کا خلاصہ چند نکات کی صورت میں درج ذیل ہے۔
- اس وقت دنیا میں حکومتوں سے زیادہ بین الاقوامی معاہدات کی حکمرانی کا ماحول ہے، صرف ایک فرق کے ساتھ کہ طاقتور اور مالدار ممالک اپنے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں مگر کمزور اور غریب اقوام و ممالک کو ان پر ہر حال میں عملدرآمد کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔
- بہت سے معاہدات بالخصوص انسانی حقوق کے چارٹر کے بارے میں اہل اسلام کو دینی و تہذیبی حوالوں سے بعض سنجیدہ تحفظات درپیش ہیں جن پر بین الاقوامی ماحول میں بات کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اقوام متحدہ میں باقاعدہ اس مسئلہ کو اٹھا کر اس قسم کے معاہدات پر نظرثانی کا ماحول پیدا کرنا ضروری ہوگیا ہے، جو مسلم ممالک کی حکومتوں کا کام ہے اور اسلامی کانفرنس کی عالمی تنظیم (او آئی سی) کو اس سلسلہ میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
- اس کے ساتھ عالم اسلام کے علمی و دینی مراکز بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یونیورسٹیوں اور بڑے دینی مدارس کو بھی تعلیم، بریفنگ، تقابلی مطالعہ اور اپنے تحفظات کی نشاندہی کا اہتمام کرنا ہوگا۔ کیونکہ اسی صورت میں ہم اسلام اور امت مسلمہ کے دینی موقف اور تہذیبی شناخت کو دنیا کے سامنے واضح کر سکیں گے۔
شریعہ اکادمی اسلام آباد کی یہ ورکشاپ اس سلسلہ میں اہم فکری پیشرفت کی حیثیت رکھتی ہے جس کے تسلسل کو جاری رکھنے اور اس کے دائرہ کو وسیع کرنے کے لیے دیگر جامعات اور دینی مدارس کو بھی آگے آنا چاہیے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بین الاقوامی معاہدات کے پس منظر میں ایک اور معاہدہ بھی اس وقت ہمارے علمی حلقوں بالخصوص سوشل میڈیا پر زیربحث ہے جسے ’’لوازن معاہدہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔۱۹۲۳ء میں ترکی اور یورپی قوتوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی مدت سو سال تھی جو ۲۰۲۳ء کو ختم ہو رہی ہے اور اس کے بعد عالمی صورتحال میں ترکی کے کردار کے حوالہ سے کسی بڑی تبدیلی کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں۔ اس معاہدہ کے تحت ترکی نے خلافت ختم کر دی تھی، شرعی قانون منسسوخ کر دیا تھا، ترکی کو سیکولر ریاست بنانے کا اعلان کیا تھا اور خلافت عثمانیہ کے دوران جن ممالک پر ترکی کا قبضہ رہا ہے ان سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ بعض دوستوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے تو اس کے علاوہ کسی تبدیلی کی توقع دکھائی نہیں دے رہی کہ اگر معاملات کی ترتیب اسی طرح رہی جیسے بیان کی جا رہی ہے تو ہو سکتا ہے کہ ’’لوازن پیکٹ‘‘ کی مبینہ مدت ختم ہونے کے بعد یورپی پارلیمنٹ اس کی مدت میں توسیع کی قرارداد پاس کر دے۔ اس وقت تک اگر ترکی میں موجودہ حکومت قائم رہی تو ہمارے خیال میں یہ اس کی توثیق نہیں کرے گی اور اگر خدانخواستہ کوئی اور حکومت ترکی میں آگئی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی توثیق کر دے۔ اس لیے میں حافظ رجب طیب اردگان اور ان کی حکومت کے لیے اس حوالہ سے مسلسل دعاگو رہتا ہوں۔
بہرحال ’’لوازن معاہدہ‘‘ اور اس کے ساتھ مشرق وسطٰی کے خلیجی ممالک کے ساتھ یورپی قوتوں کے جو معاہدات اب سے ایک صدی قبل ہوئے تھے اور اب تک کا سارا نظام انہی کے مطابق چل رہا ہے، انہیں ایک بار پھر سامنے لانا ضروری ہے اور ان کے بارے میں علمی، فکری اور دینی حوالوں سے مباحثہ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیونکہ مستقبل میں جو نئی علاقائی تبدیلیاں عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کا حصہ نظر آرہی ہیں اور حالات کا رخ ان تبدیلیوں کی طرف دکھائی دے رہا ہے ان کے بارے میں ہم کوئی صحیح اور متوازن موقف اور طرز عمل طے کر سکیں۔ البتہ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ضروری تو ہے مگر ’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟‘‘