وجدانیات اور نفسیات کے حوالہ سے مغرب کا طرز عمل

   
تاریخ : 
۱۱ دسمبر ۲۰۱۹ء

۲۸ نومبر ۲۰۱۹ء کو معہد الخلیل الاسلامی کراچی میں ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کے درس کے دوران وجدانیات اور نفسیات کے حوالہ سے مغرب کے طرز عمل پر کچھ گفتگو ہوئی تو درجہ ثانیہ عربی کے طالب علم محمد معاذ الحسینی نے ایک دلچسپ سوال تحریری صورت میں کیا جس کا سرسری جواب تو وہاں زبانی دے دیا مگر بعد میں تحریری جواب بھی بھجوایا۔ سوال و جواب دونوں قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

سوال: آپ کے آج کے بیان سے جو ذہن کے دریچے کھلے ہیں اور بہت سے سوالوں کی تفشی ہوئی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر آپ کو زیادہ وقت ملتا تو کچھ بھی تشنہ نہ رہتا۔ لیکن میں ایک جرات طفلانہ کر رہا ہوں جسے آپ اپنی شفقت سے کام لیتے ہوئے نظرانداز کریں گے اور مجھ طفل مکتب کے سوال کا جواب عطا فرمائیں گے۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ مغرب نے وجدانیات (روحانیات) کو ترک کر کے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کو اپنایا اور ایک زمانے میں مغرب میں اس کا بڑا زور تھا۔ نظر، ارتکاز نظر اور اس کے علاوہ تفکر اور مراقبے کی اور بہت سے کئی فنی روشیں اور مہارتی طریقے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر تفہیم ذات کا ڈول ڈالا جا سکتا ہے اور سکون کی نعمت سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ مسلمان صوفیائے کرام نے ان اعمال سے صرف خدا تک پہنچنے کا راستہ بنایا ہے، لیکن ہندو، عیسائی، اور بہت سے جعلی پیر بھی ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہندو جوگی یوگا کے ذریعے گیان ذات حاصل کرتے ہیں تو مغرب میڈیٹیشن کرتا ہے اور بہت سے جعلی پیر اور عامل اپنی دکان سجاتے ہیں۔ کیونکہ جو جو جس جس مقصد کے لیے اسے استعمال کرتا ہے تو دنیاوی فائدے سے سرفراز ہوتا ہے تو اہل مغرب وجدانیات سے سائیکالوجی کی طرف کیوں گئے؟ کیا عوامل اور وجوہات تھیں؟ کیا ان کے مقاصد پورے نہیں ہوئے یا قحط الرجال ہوگیا تھا؟

جواب: آپ کے سوال کا مختصر جواب اس روز معہد الخلیل کراچی کی نشست کے بعد ملاقات میں دے دیا تھا، اب تحریری طور پر بھی بھجوا رہا ہوں۔

دراصل مغرب نے بادشاہت، جاگیرداری اور مذہب کے مشترکہ جبر کے خلاف بغاوت کے بعد انقلاب فرانس کی صورت میں جس نئے دور کا آغاز کیا ہے اس میں مذکورہ پس منظر کے باعث مذہب کے حوالہ سے کوئی بات بھی مغرب کے لیے قابل قبول نہیں رہی، اور انہوں نے ہر شعبہ میں اس کا متبادل تلاش کرنے کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ میرے خیال میں اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہب سے مغربی معاشرہ کے تنفر کے اسباب کو سمجھا جائے اور اسے یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ اسلام کا مزاج اور مسلمانوں کا ماضی ان کے ماضی سے مختلف ہے۔ جبکہ وہ اپنے پس منظر کو ہی مسلمانوں کا پس منظر سمجھتے ہوئے اپنا ردعمل ان پر مسلط کرنے میں مصروف ہیں جو غلط بات ہے اور اس پر نظرثانی ضروری ہے۔ یہ بات اگر تقابل کی بجائے مفاہمت کی فضا میں سمجھائی جا سکے تو زیادہ بہتر ہے مگر سوءِ اتفاق سے ہم بھی مغرب کی طرح ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوگئے ہیں جو لمحۂ فکریہ ہے۔

آپ کی سوچ اور فکر کا انداز میرے لیے خوشی کا باعث بنا ہے اور میرے جیسے بوڑھوں کے لیے اب امید کا یہی ایک سہارا باقی رہ گیا ہے کہ آپ جیسے نوجوان اپنی علمی، روحانی اور فکری استعداد میں ثبات و استحکام سے بہرہ ور ہو کر اس محاذ کو سنبھالیں۔ و ما ذٰلک علی اللہ بعزیز۔

نوشہرہ ورکاں میں شادی کی تقریب

یکم دسمبر کو نوشہرہ ورکاں گوجرانوالہ میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا اور ماضی کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ جس دور میں جمعیۃ علماء اسلام ضلع گوجرانوالہ کے امیر تھے ان کے ساتھ ظفر آباد نوشہرہ ورکاں کے ڈاکٹر غلام محمد صاحب مرحوم نے خاصا عرصہ ضلعی سیکرٹری جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ وہ جمعیۃ کے باشعور، حوصلہ مند، متحرک اور سرگرم راہنما تھے۔ میری ان کے ساتھ طویل رفاقت رہی اور ہم نے جماعتی اور تحریکی دور کا سرگرم ترین دور اکٹھے گزارا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ان کا انتقال ہوگیا تھا، ان کے فرزند محمد قاسم ضیاء نے اپنی سب سے چھوٹی ہمشیرہ اور بھائی کے نکاح اور ولیمہ میں شرکت کی دعوت دی تو مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، مولانا قاری عبید اللہ عامر، سید احمد حسین زید، حافظ شاہد میر اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ حاضری کا موقع ملا۔ اللہ رب العزت ڈاکٹر صاحب مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے خاندان کو دونوں جہانوں کی خوشیوں سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

ضروری نوٹ: دینی مدارس کے سالانہ پروگراموں کا سلسلہ رجب اور شعبان کے دوران ہوتا ہے مگر ابھی سے ملک کے مختلف حصوں سے احباب کے تقاضے شروع ہوگئے ہیں، جبکہ میری پوزیشن یہ ہے کہ عمر، صحت اور متنوع مصروفیات کے باعث اب طویل اسفار کا متحمل نہیں ہوں۔ جامعہ نصرۃ العلوم میں اسباق مکمل ہونے کے بعد الشریعہ اکادمی میں دورۂ تفسیر شروع ہونے تک صرف چند ایام کی گنجائش ہوتی ہے جن کی ترتیب اس سال کے حوالہ سے طے پا چکی ہے اس لیے احباب سے بصد معذرت گزارش ہے کہ اس سلسلہ میں مجھے معذور سمجھ کر دعاؤں میں یاد رکھیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter