وفاق المدارس العربیہ کا کنونشن

   
تاریخ : 
۱۳ مئی ۲۰۰۵ء

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام ۱۵ مئی ۲۰۰۵ء کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقد ہونے والا دینی مدارس کنونشن اس حوالے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے حالیہ اجلاس کے بعد دینی مدارس کے بارے میں حکومت کی نئی پالیسی اور حکمت عملی سامنے آگئی ہے۔ چنانچہ ۱۵ مئی کے مذکورہ کنونشن کی کارروائی اس لیے بھی ملک بھر کے عوام کی توجہ کا مرکز ہوگی کہ نئی حکومتی پالیسی کا ردعمل دینی مدارس کے اس سب سے قدیمی اور سب سے بڑے وفاق کی طرف سے کیا سامنے آتا ہے؟

’’دینی مدارس کنونشن‘‘ بظاہر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سالانہ امتحانات میں گزشتہ سال اور اس سے پیوستہ سال اول، دوم، سوم آنے والے فضلاء اور فاضلات میں انعامات کی تقسیم کے لیے انعقاد پذیر ہو رہا ہے اور اس میں ملک کے مقتدر طبقات اور مختلف مکاتب فکر کے زعماء کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ جبکہ وفاق کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد حنیف جالندھری نے ایک اخباری اشتہار میں کنونشن کے لیے جن عنوانات کا اعلان کیا ہے اور ان پر ملک بھر کے ارباب علم و دانش کو اپنے مضامین کے ذریعے سے خامہ فرسائی کی دعوت دی ہے، ان عنوانات کا تنوع اور ان کی وسعت اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ وفاق کی قیادت ملک کے مقتدر حلقوں اور بین الاقوامی لابیوں کے سامنے اپنے پروگرام اور پالیسیوں کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ واضح کرنا چاہتی ہے، اور اس کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ دینی مدارس کے کردار اور سرگرمیوں کے بارے میں اعلیٰ حلقوں میں جو ابہام پایا جاتا ہے وہ دور ہو، اور جو مختلف قسم کے شکوک و شبہات پھیلائے جاتے ہیں ان کا ازالہ ہو۔ اس لیے اس اجتماع کے لیے اسلام آباد شہر اور ملک کے سب سے معروف کانفرنس ہال کا انتخاب کیا گیا ہے اور میرے خیال میں اگر وفاق المدارس اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور ان حلقوں تک اپنا پیغام براہ راست پہنچانے کا یہ ہدف کسی بھی سطح پر پا لیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ وقت کی ضروریات میں شمار ہوگا اور وفاق کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ مگر اس کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے اور صرف کنونشن سنٹر کی بکنگ، دعوت ناموں، اشتہارات اور خبروں پر قناعت کرنے کے بجائے ذاتی رابطوں اور مختلف طبقات کی اہم شخصیات کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ہوم ورک پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔

  • وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ملک میں دینی مدارس کو ایک فورم پر متحد کرنے، ان کے تعلیمی و امتحانی نظام کو مربوط بنانے، اور ان کی آزادی و خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وفاق دیوبندی مکتب فکر کے مدارس پر مشتمل ہے جس نے اس سمت میں جدوجہد کا آغاز کیا جبکہ اس کی پیروی کرتے ہوئے دوسرے مکاتب فکر نے بھی اپنے اپنے وفاق قائم کیے اور دینی مدارس کی تنظیم و ارتباط کا سلسلہ دن بدن وسیع ہوتا چلا گیا۔
  • پھر وفاق المدارس العربیہ نے یہ کریڈٹ بھی حاصل کیا کہ دینی مدارس کی آزادی و خودمختاری کے لیے خطرات کی بو سونگھتے ہوئے اس نے مختلف مکاتب فکر کے وفاقوں کو ایک فورم پر متحد کرنے میں پہل کی اور آج تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کے نام سے متحد ہیں اور ان کے اتحاد اور باہمی اعتماد و تعاون ہی کا ثمرہ ہے کہ عالمی استعماری حلقے ان مدارس کے آزادانہ تعلیمی کردار اور مالیاتی و انتظامی خود مختاری ختم کرنے کے ہر حربے میں ناکام ہوئے ہیں۔
  • وفاق المدارس العربیہ کا یہ امتیاز بھی ہے کہ اس کے ساتھ مدارس کی سب سے بڑی تعداد منسلک ہے اور شاید اس بات میں مبالغہ نہ ہوگا کہ وفاق المدارس سے الحاق رکھنے والے مدارس کی تعداد دوسرے تمام وفاقوں سے منسلک مدارس کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے اس سطح پر تقسیم انعامات کی تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ پہلی بار کیا ہے اور اس طرح ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی ہے جس سے ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ نے خاصی اہمیت اختیار کر لی ہے، جبکہ ہمارے خیال میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کی ان سفارشات نے اس کنونشن کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے جو حال ہی میں سامنے آئی ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت، لاہور کی ۹ مئی کی اشاعت میں شامل ایک رپورٹ کے مطابق نیشنل سیکیورٹی کونسل کے گزشتہ اجلاس میں ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے اور اعتدال پسندی کو فروغ دینے کے عنوان سے دینی مدارس کے کردار کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے اور متعدد سفارشات مرتب کی گئی ہیں جو عملدرآمد کے لیے صوبائی حکومتوں کو بھجوا دی گئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے دینی مدارس میں اصلاحات کے لیے صوبائی حکومتوں کو جو فنڈز دیے تھے، وہ روک لیے ہیں اور حکومتی انتظام کے تحت جو مدارس قائم کیے گئے تھے، انہیں بند کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں پروگرام اپنے مقاصد کے حوالے سے ناکام ہوگئے ہیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ:

  1. اگر دینی مدارس کو وسیع مالی امداد دی جائے گی تو وہ حکومتی پروگرام کے تحت چلنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور اپنے آزادانہ تعلیمی کردار سے دستبرداری اختیار کر لیں گے۔
  2. ماڈل مدارس قائم کر کے اساتذہ اور طلبہ کو جب مختلف مفادات اور مراعات کی ترغیب دی جائے گی تو وہ اپنے معاشی مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے اس طرف دوڑے چلے آئیں گے۔

لیکن یہ دونوں توقعات نقش بر آب ثابت ہوئیں اور تمام تر ترغیبات اور دھمکیوں کے باوجود پورے ملک میں نصف درجن ماڈل مدارس بھی قائم نہیں ہو سکے اور جو چند مدارس وجود میں آگئے، وہ خطیر رقوم صرف کرنے کے باوجود نہیں چل سکے۔ اس لیے حکومت کو بالآخر یہ دونوں فیصلے واپس لینے پڑے ہیں اور یہ بلاشبہ دینی مدارس کے وفاقوں کے اتحاد اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ البتہ مذکورہ بالا رپورٹ میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ حکومت مالی ترغیبات اور مراعات و مفادات کی تحریص کے حربے میں ناکامی کے بعد اب رجسٹریشن کے نام سے مدارس کو قانونی شکنجے میں کسنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان کے دینی مدارس کی اکثریت سوسائٹی ایکٹ، ٹرسٹ ایکٹ، سوشل ویلفیئر اور والنٹیئر ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے، لیکن حکومت نے ماڈل دینی مدارس کے نام پر مدرسہ بورڈ قائم کر کے ان کی متبادل رجسٹریشن کا جو پروگرام بنایا تھا، اس کے تحت اب تک صرف ایک سو پانچ مدرسے رجسٹرڈ ہوئے ہیں، اس لیے اسے ناکام پروگرام قرار دے کر بند کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

رجسٹریشن کے حوالے سے دینی مدارس اور حکومت کے درمیان اسی نکتے پر تنازع چلا آرہا ہے کہ حکومت مذکورہ بالا قوانین کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کو کافی نہ سمجھتے ہوئے رجسٹریشن کا نیا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے، جس کا مقصد مدارس کے نظام میں حکومتی مداخلت کی راہ ہموار کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دینی مدارس حکومت کی مقرر کردہ حدود سے ہٹ کر کوئی تعلیمی پروگرام جاری نہ رکھ سکیں۔ یہ صورتحال دینی مدارس کے لیے قابل قبول نہیں:

  1. اس لیے کہ یہ ان کی گزشتہ ڈیڑھ سو صدی کی روایات کے خلاف ہے،
  2. اس لیے بھی کہ وہ اس صورت میں معاشرے میں دینی تعلیم کے فروغ اور اسلامی روایات و اقدار کے تحفظ کے حوالے سے اپنے اساسی مقاصد و اہداف کے حصول میں کامیابی کو مشکوک سمجھتے ہیں،
  3. اور اس لیے بھی کہ دینی مدارس پر سرکاری کنٹرول کے اس پروگرام کے پیچھے انہیں عالمی استعمار کے عزائم اور ایجنڈا صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے جو سرے سے دینی مدارس کے وجود اور ان کے جداگانہ تشخص کے خاتمہ کے درپے ہے۔

اس لیے دینی مدارس نے پہلے سے چلنے والے رجسٹریشن کے قوانین کے تحت خود کو رجسٹریشن کرانے سے کبھی انکار نہیں کیا، مگر سرکاری مداخلت اور کنٹرول کی راہ ہموار کرنے والے رجسٹریشن کے کسی نئے قانون کو وہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ رجسٹریشن کا نیا قانون آرڈیننس کے بجائے پارلیمنٹ سے منظور کرا کے نافذ کیا جائے اور اس کے عملی نفاذ میں سختی سے کام لیا جائے۔ اس سفارش میں یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ رجسٹریشن نہ کرانے والے مدارس کی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، کسی نئے دینی مدرسہ کے لیے حکومت سے این او سی کو لازمی قرار دیا جائے گا، دینی مدارس کو فنڈز انٹر مدارس بورڈ کے ذریعے سے دیے جائیں گے، اور قانوناً تمام مدارس کو رجسٹریشن کا پابند بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایک سفارش یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں دینی مدارس زیادہ ہیں، وہاں ان کے قریب ٹیکنیکل تعلیم کے ادارے بنائے جائیں تاکہ علاقہ کے لوگوں کو متبادل تعلیم کے ذرائع میسر آسکیں۔

ان سفارشات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہ بھولے بادشاہ ابھی تک اسی غلط فہمی میں ہیں کہ دینی مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے غربت کی وجہ سے مجبوراً ایسا کر رہے ہیں، اس لیے اگر انہیں ڈگری کا لالچ دیا جائے تو وہ حکومتی پروگرام کو قبول کر لیں گے، اور اگر انہیں متبادل ٹیکنیکل تعلیم فراہم کر دی جائے تو وہ دینی تعلیم سے دستبرداری اختیار کر لیں گے۔ خدا جانے ہمارے یہ بزرجمہر کس فضا میں بیٹھے یہ باتیں سوچتے رہتے ہیں اور کون انہیں یہ احمقانہ مشورے دیتا ہے۔ ان خدا کے بندوں کی سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی کہ دینی تعلیم غربت یا ڈگری کا مسئلہ نہیں، ایمان اور عقیدے کا مسئلہ ہے، اور جسے یہ بھولے بادشاہ مذہبی انتہا پسندی سے تعبیر کر رہے ہیں، اس کی جڑیں مسلمانوں کی حمیت و غیرت میں پیوست ہیں، بلکہ جوں جوں امریکی استعمار اور اس کے ہمنواؤں کی طرف سے اس کی مخالفت بڑھ رہی ہے، اس کے فطری ردعمل کے طور پر دینی تعلیم کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، اور جوں جوں دین کے ساتھ وفادارانہ وابستگی کو انتہا پسندی کا نام دے کر اس کی نفی کی جا رہی ہے، دین کے ساتھ مسلمانوں کی کمٹمنٹ میں مزید مضبوطی اور استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ یہ فطری ردعمل ہے جسے ڈگری کے لالچ اور ٹیکنیکل تعلیم کے ذریعے سے روکا نہیں جا سکتا۔

بہرحال اس فضا میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام ۱۵ مئی کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقد ہونے والا ’’دینی مدارس کنونشن‘‘ خاصی اہمیت کا حامل ہے جو دینی مدارس کی جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا اور دینی مدارس کا یہ قافلہ معاشرہ میں دینی تعلیم کے فروغ اور اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے نئے حوصلے اور اعتماد سے سرشار ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter