کراچی میں تین چار دنوں کی مصروفیات

   
تاریخ : 
۱۱ جنوری ۲۰۲۰ء

کراچی میں تین چار دن گزار کر رات گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا ہوں۔ میں حسب معمول جامعہ انوار القرآن میں سالانہ کورس کے لیے گیا تھا، اس دفعہ کورس کا موضوع ’’قرآن کریم اور انسانی سماج‘‘ تھا اور شرکاء دورۂ حدیث اور تخصص فی الافتاء کے طلبہ پر مشتمل تھے۔

جاتے ہوئے عجیب اتفاق ہوا کہ مجھے ۵ جنوری کو رات پی آئی اے سے سفر کرنا تھا، لاہور سے ساڑھے آٹھ بجے کی فلائیٹ پر سیٹ کنفرم تھی، لاہور پہنچا تو پتہ چلا کہ موسم کی خرابی کے باعث فلائیٹ کینسل ہو گئی ہے جبکہ متبادل کسی ایئرلائن سے آٹھ جنوری تک کوئی سیٹ میسر نہیں۔ چنانچہ کچھ سوچ بچار کے بعد زمینی سفر کا فیصلہ کر لیا جس کے لیے ڈائیوو کی سلیپر بس کا انتخاب ہوا، اور لمبے سفر کے باعث میں نے لاہور سے قاری محمد عثمان رمضان کو ساتھ لے لیا۔ سلیپر بس پر اس سے پہلے دو سال قبل دہلی سے امرتسر کا سفر کر چکا ہوں اور میں نے اس حوالہ سے اپنے ایک کالم میں خواہش کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان میں بھی کوئی کمپنی اس طرح کی سروس شروع کر دے تو لوگوں کو بہت سہولت ہوگی۔ ڈائیوو کی سروس دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہ سہولت اب یہاں بھی میسر ہو گئی ہے۔ سنگل اور ڈبل بیڈ کی صورت میں اس کے برتھ ڈیزائن کیے گئے ہیں اور آرام سے اس میں بیٹھ کر یا لیٹ کر سفر کیا جا سکتا ہے۔

رات نو بجے ہم لاہور سے روانہ ہو کر اگلے روز ظہر تک کراچی پہنچ گئے۔ اس دفعہ میرے لیے نئی اور صدمہ کی بات یہ تھی کہ پاکستان شریعت کونسل کے امیر اور جامعہ انوار القرآن کے مہتمم حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستیؒ موجود نہ تھے، جبکہ انہی کی دعوت پر ہر سال حاضر ہوتا تھا، اور اب بھی دو تین روز قبل اسلام آباد کی ملاقات میں ان سے عرض کر چکا تھا کہ ۵ جنوری کو ان شاء اللہ تعالٰی کراچی میں ملاقات ہوگی، مگر وہ اپنا وقت مکمل کر کے اللہ تعالٰی کے حضور جا چکے تھے، اللہ تعالٰی ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ان کے صدقات جاریہ کو دوام اور تسلسل کے ساتھ قبولیت سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

اس دفعہ معہد الخلیل بہادر آباد میں حجۃ اللہ البالغہ کی ہفتہ وار کلاس ہوئی جو ہر منگل کو بعد نماز ظہر آن لائن ہوتی ہے، مگر اس ہفتہ بالمشافہہ اس کا موقع مل گیا۔

کراچی میں دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریجنل سنٹر میں ڈاکٹر سید عزیز الرحمان نے سالانہ سیرت کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا جو آٹھ جنوری کو ہمارے محترم بزرگ ڈاکٹر سید سلمان ندوی (جنوبی افریقہ) کی صدارت میں منعقد ہوئی اور مجھے اس میں مہمان خصوصی کے اعزاز سے نوازا گیا۔ سیرت کانفرنس کی ایک نشست خطابات اور دوسری نعتیہ مشاعرہ کی صورت میں تھی۔ دونوں میں شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی اور بہت سے دوستوں اور بزرگوں سے ملاقات کا موقع مل گیا۔

جامعۃ الرشید میں بھی حسب معمول حاضری ہوئی، اساتذہ کی عصر کے بعد معمول کی نشست میں بعض اہم مسائل پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا، مغرب کے بعد طلبہ سے خطاب کیا، اور سوشل میڈیا میں جامعۃ الرشید کے نشریاتی ادارے جے ٹی آر میں دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالہ سے مختصر انٹرویو بھی ریکارڈ کیا گیا۔

اس کے علاوہ مدرسہ معاذ بن جبلؓ، مسجد الہدٰی بفر زون، اور محمدی مسجد آدم ٹاؤن میں درس قران کریم کے عنوان سے مجالس میں شرکت ہوئی۔ واپسی کے روز جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن، نارتھ کراچی) میں حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستیؒ کی یاد میں تعزیتی جلسہ جاری تھا اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان وہاں پہنچنے والے تھے کہ میری فلائیٹ کا وقت قریب آگیا ،میں اپنی گزارشات پیش کرنے کے بعد وہاں سے آگیا اور میری ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔

اس طرح شش ماہی امتحانات کی تعطیلات کے آخری چار پانچ مصروف دن کراچی میں گزار کر واپس آگیا ہوں اور معمول کی مصروفیات شروع ہو گئی ہیں۔ اس دوران پیش آنے والے اہم واقعات میں ایران اورا امریکہ کے درمیان عسکری حملوں کا تبادلہ اور پاکستان میں نیب کے قوانین پر اسلامی نظریاتی کونسل کا تبصرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب کے قوانین میں سے بعض کو اسلامی شریعت کے منافی قرار دیا ہے جو اس کی ذمہ داری اور حق ہے کہ اس کا قیام ہی اس غرض سے کیا گیا ہے کہ وہ ملک میں رائج قوانین کا جائزہ لے کر ان کی شرعی حیثیت کو واضح کرے، اور اگر کوئی بات شریعت کے خلاف سامنے آئے تو اس کی نشاندہی کرے۔ اس پر بحث و مباحثہ کی گنجائش موجود ہے کہ کونسل نے جو سفارشات پیش کی ہیں ان پر علمی اور فقہی طور پر پھر سے غور کر لیا جائے، مگر وفاقی وزیر فواد چودھری کا یہ فوری تبصرہ خلاف توقع نہ ہونے کے باوجود عجیب سا لگا کہ سرے سے اسلامی نظریاتی کونسل کو ہی تشکیل نو کی سان پر چڑھا دیا جائے۔

دراصل ہمارے ہاں اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ جیسے دستوری اداروں کا مصرف ہی یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کو اسی طرح سند جواز فراہم کرتے رہیں جس طرح یورپ میں بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی مشترکہ حکمرانی کے دور میں جاگیرداری اور بادشاہت کے اقدامات کو مذہبی پاپائیت کی طرف سے سند جواز فراہم کی جاتی تھی، ورنہ ان اداروں کا وجود ہمارے ان مہربانوں کے نزدیک بیکار ہے۔ مجھے اس پر قرآن کریم کی وہ آیت یاد آگئی ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ لوگوں نے مطالبہ کر دیا تھا کہ ’’ائت بقرآن غیر ھذا او بدلہ‘‘ اس کے بغیر کوئی قرآن لے آئیں یا اس کو ہماری خواہش کے مطابق بدل دیں۔ یہی طرز عمل ہمارے ہاں بھی ہے کہ اول تو شرعی احکام کو بدل دیا جائے اور اگر یہ ممکن نہیں ہے تو شرعی احکام پیش کرنے والوں کو ہی بدل دیا جائے۔

بہرحال اس پر بات چلتی رہے گی جبکہ امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشمکش پر سردست کچھ کہنا شاید قبل از وقت ہو، البتہ افغانستان اور عراق کی تباہی کے بعد امریکہ نے اب کئی سال کی تیاری کے بعد ایران کا رخ کیا ہے تو عمومی جذبات وہی نظر آ رہے ہیں جو ان مسلم ممالک پر حملوں سے قبل تھے کہ اب تو امریکہ کو اپنی دھونس کا سبق مل ہی جانا چاہیے، اس لیے فی الوقت صرف اس حوالہ سے اطمینان کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ کسی نے جواب تو دیا ہے اور امریکہ کو اقوام متحدہ سے کہنا پڑا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
   
2016ء سے
Flag Counter