روزنامہ جنگ لندن نے ۶ اپریل ۱۹۹۸ء کی اشاعت میں برطانوی اخبار ’’نیوز آف ورلڈ‘‘ کے حوالے سے ایک نئے پاکستانی مہدی کے بارے میں رپورٹ شائع کی ہے جس کا نام نہیں لکھا گیا، مگر مذکورہ برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ شخص پاکستان کے شہر گجرات کے رہنے والا ہے، پہلی بار ۱۹۸۳ء میں برطانیہ آیا اور کچھ عرصہ رہ کر امریکہ چلا گیا۔ پھر دوبارہ ۱۹۹۲ء میں لندن آیا اور برطانوی ہوم آفس کو درخواست دی کہ وہ مسیح بن مریم اور مہدی ہے اور اسے جبریل علیہ السلام کے ذریعے عجیب و غریب زبانوں میں پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ اس نے درخواست میں لکھا کہ وہ اگر پاکستان گیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا اس لیے اسے سیاسی پناہ دی جائے۔ چنانچہ اسے سیاسی پناہ دے دی گئی، وہ ایسٹ لندن کے علاقہ لیٹن سٹون میں رہائش پذیر ہے اور سوشل سروسز سے بینیفٹ وصول کر رہا ہے۔ بلکہ اس نے باقاعدہ آفس قائم کر رکھا ہے جس کے ذریعے وہ جعلی پناہ گزینوں کو اپنا پیروکار ظاہر کر کے سیاسی پناہ دلواتا ہے اور اس کام کی فیس وصول کرتا ہے۔
’’نیوز آف ورلڈ‘‘ نے اپنا رپورٹر اس کے پاس ایک جعلی پناہ گزین کے طور پر بھیجا جسے اس نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ اسے سیاسی پناہ مل جائے گی، سوشل سروسز سے رقم ملے گی، مکان کے لیے پیسے ملیں گے، اور چھ ماہ کے بعد کام کرنے کی اجازت بھی مل جائے گی، البتہ اسے فائل کھولنے کے لیے دو سو پونڈ دینا پڑیں گے جو اس وقت ادا کرنا ہوں گے جب اس کے ساتھ وکیل کو ہوم آفس بھیجا جائے گا۔
مغربی ملکوں میں مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کے نام پر مختلف ممالک کے شہریوں کو سیاسی پناہ دینے کا عمل ایک عرصہ سے جاری ہے اور اب اس نے ایک باقاعدہ پیشہ اور کاروبار کی صورت اختیار کر لی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سے یورپ کے کسی ملک میں آ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ خود کو ایم کیو ایم کا کارکن ثابت کر دیا جائے، یا پاکستان کے کسی پولیس اسٹیشن کی ایف آئی آر پیش کر دی جائے کہ متعلقہ شخص کے خلاف اس کے قادیانی ہونے کی وجہ سے مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ اس قسم کی دستاویزات تیار کروا لیتے ہیں اور سیاسی پناہ حاصل کر کے مفادات کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
۱۹۸۷ء میں امریکہ کے شہر نیویارک میں راقم الحروف نے خود ایک نوجوان کو دیکھا جو مرکزی جامع مسجد شہر گوجرانوالہ کے ساتھ ایک گلی کا رہنے والا ہے، جامع مسجد میں نمازیں ادا کرتا رہا ہے، لیکن اس نے خود کو قادیانی ظاہر کر کے سیاسی پناہ حاصل کر رکھی تھی۔ یہ راز نہ کھلتا مگر ہوا یوں کہ اس نے مجھے ایک ٹرین میں سفر کرتے ہوئے دیکھ کر پہچان لیا اور بتایا کہ وہ فلاں گلی کا رہنے والا ہے اور میرے پیچھے کئی سال جمعہ اور نمازیں پڑھتا رہا ہے۔ اس نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی، اور جب میں اپنے ہم زلف محمد یونس صاحب کے ہمراہ، جو نیویارک میں رہتے ہیں، اس کے گھر گیا تو اس کی تمام تر احتیاط کے باوجود اس کے کمرے میں پڑا قادیانی لٹریچر اور قادیانی رائل فیملی کے مختلف افراد کی تصویریں مجھ سے چھپی نہ رہ سکیں۔ اور اس نے ہمارے اصرار پر بتایا کہ وہ اب بھی پکا مسلمان ہے لیکن اس نے قادیانیوں کے ذریعے سیاسی پناہ حاصل کی ہے اس لیے اسے یہ لٹریچر اور تصویریں گھر میں رکھنا پڑتی ہیں۔
مذکورہ بالا ’’گجراتی مسیح’’ کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا لگتا ہے کہ اس نے سیاسی پناہ حاصل کرنے اور دوسروں کو دلوانے کے لیے یہ روپ اختیار کیا ہے۔ مگر برطانوی ہوم آفس کے حکّام کے حوصلہ کی بھی داد دینا پڑتی ہے کہ انہیں نازبرداری کے لیے مذہبی اقدار سے بغاوت کرنے اور دینی معتقدات و روایات کا مذاق اڑانے والے افراد چاہئیں، خواہ وہ یہ سب کچھ دھوکہ اور فراڈ کے طور پر ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔