میں طالبعلمانہ انداز میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن پاک اور حدیثِ رسول دونوں لازم و ملزوم ہیں، لیکن آج کے دور میں قرآن پاک اور حدیثِ رسول کے تعلق کو، جوڑ کو، نئی نسل کے ذہنوں میں واضح کرنا اور آج کی دنیا کے سامنے اس تعلق کو مبرہن کرنا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ بہت سے پہلو ہیں بات کرنے کے، میں قرآن پاک اور حدیثِ رسول کے درمیان چار باتوں کا جوڑ، آپ یوں سمجھ لیجیے کہ بطور سبق ہی عرض کر رہا ہوں۔ قرآن پاک اور حدیث کا تعلق کیا ہے آپس میں؟ ان میں سے چار باتیں۔
(۱) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں قرآن پاک حدیث کے واسطے سے ہی ملا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن پاک کی پہلی وحی کیا ہے؟ پانچ آیتیں ہیں۔ اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اقرأ باسم ربکم الذی خلق۔ خلق الانسان من علق۔ اقرأ وربک الاکرم۔ الذی علم بالقلم۔ علم الانسان ما لم یعلم۔ یہ پانچ آیتیں پہلی وحی ہیں۔ ہمیں غارِ حرا سے ملی ہیں۔ غار حرا میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک واقعہ پیش آیا، حضورؐ نے وہ بیان فرمایا، جس میں سے یہ پانچ آیتیں ملیں۔ وہ واقعہ جو بیان فرمایا وہ کیا کہلاتا ہے؟ حدیث۔ ہمیں قرآن پاک کی پہلی پانچ آیتیں کس ذریعے سے ملیں، سورس کیا ہے؟ حدیث۔ اگر وہ واقعہ ہے تو پانچ آیتیں بھی ہیں، واقعہ نہیں ہے تو پانچ آیتیں کہاں سے لائیں گے؟ اور اگر حدیث ہے تو واقعہ بھی ہے، اور حدیث نہیں ہے تو واقعہ کہاں سے ملے گا؟
یہ بات اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ آج کل یہ مغالطہ عام ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ مولوی صاحب! قرآن پاک پر تو ہمارا ایمان ہے، کیا قرآن پاک کے بعد حدیث پر ایمان لانا بھی ضروری ہے؟ آج کل ایک عام سوال ہے۔ میں ان سے کہا کرتا ہوں برخوردار! قرآن پاک کے بعد نہیں قرآن پاک سے پہلے۔ حدیث پر ایمان لائیں گے تو قرآن پہ لائیں گے۔ غار حرا کا واقعہ مانیں گے تو ’’اقرأ‘‘ کو مانیں گے نا۔ دلائل کی ترتیب میں قرآن پہلے ہے، حدیث بعد میں ہے۔ ایمان کی ترتیب میں حدیث پہلے ہے، قرآن بعد میں ہے۔
قرآن پاک کی کوئی ایک سورت، ایک آیت، ایک جملہ، ایک لفظ ایسا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بغیر ملا ہو کہ ’’اللہ نے یہ نازل کیا ہے‘‘؟ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ نازل ہوا ہے تو ہم نے مان لیا۔ اور ’’حضورؐ نے فرمایا ہے‘‘ یہ کیا ہے؟ حدیث ہے۔
اس لیے پہلی بات کہ حدیث پر ایمان لائے بغیر قرآن پاک کے کسی لفظ پر ایک حرف پر بھی ایمان ممکن نہیں ہے۔ پھر جملہ دہرا کر آگے چلوں گا کہ دلائل کی ترتیب میں قرآن پہلے ہے، حدیث بعد میں ہے۔ اور ایمان کی ترتیب میں حدیث پہلے ہے، قرآن بعد میں ہے۔
(۲) دوسری بات، قرآن پاک کس کا کلام ہے؟ اللہ پاک کا۔ کسی کلام میں کوئی الجھن ہو تو وضاحت کا سب سے پہلا حق کس کا ہوتا ہے؟ متکلم کا۔ میں بات کر رہا ہوں، میری کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تو آپ مجھ سے پوچھیں گے یا ہائی کورٹ میں رٹ کریں گے جا کر؟ مجھ سے پوچھیں گے، مولوی صاحب! آپ نے بات کی ہے، کنفیوژن ہے، بات کا مطلب کیا ہے؟ تو بات کی وضاحت کا حق کس کا ہے؟ متکلم کا۔ اور بات کی وضاحت میں اتھارٹی کون ہے؟ متکلم۔ کسی بھی گفتگو میں کسی بات کی وضاحت کا حق بھی متکلم کا ہے اور اس بات کی وضاحت کی اتھارٹی بھی کون ہے؟ متکلم کہہ دے کہ میری بات کا یہ مطلب ہے تو کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
قرآن پاک میں متکلم کون ہے؟ اللہ۔ اللہ پاک سے کوئی پوچھ سکتا ہے؟ اللہ سے تو نہیں پوچھ سکتے، اللہ کے رسول سے تو پوچھ سکتے ہیں نا۔ رسائی تھی، آج بھی ان کے ارشادات تک رسائی ہے۔ اور رسول کسے کہتے ہیں؟ رسول کا معنی کیا ہے؟ نمائندہ۔ کامن سینس کی بات ہے، جو نمائندہ ہوتا ہے، اس کی بات اپنی ہوتی ہے یا جس کا نمائندہ ہے اس کی ہوتی ہے؟ کوئی بھی نمائندہ ہو، کاروبار میں ہے، سیاست میں ہے، معیشت میں ہے، کسی معاملے میں ہے۔
میں مثال دوں گا ایک۔ آپ بہت بڑے تاجر ہیں، آپ کا کاروباری ادارہ ہے، اپنے آفس میں بیٹھے ہیں۔ کسی فرم کا نمائندہ آیا ہے کہ جناب آپ سے بات کرنے آیا ہوں۔ ٹھیک ہے۔ آپ کا حق ہے، چیک کریں نمائندہ ہے یا نہیں ہے۔ آپ کو یہ بھی حق ہے، انکار کر دیں کہ نہیں یار۔ لیکن آپ نے اپنی تسلی کر کے کاغذات چیک کر کے انٹرویو کر کے تسلی کر لی کہ نمائندہ تو ہے، اور نمائندہ مان لیا اور گفتگو شروع کی۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس کی کسی بات پر آپ یہ پوچھیں گے کہ اپنی طرف سے کر رہے ہو یا فرم کی طرف سے کر رہے ہو؟ مثلاً فرانس کا سفیر ہے، ہم یہ چیک کریں گے کہ سفیر ہے یا نہیں ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی بھی ہمارے صدر محترم وصول کریں گے سفارت (کے قواعد کے مطابق) سارا کنفرم کریں گے۔ لیکن جب تک وہ سفیر اس ملک میں ہے وہ جو بات بھی کرے وہ کس کی ہے؟ اس شخص کی یا اس حکومت کی؟ ایک مغالطہ اور دور کر لیں۔ فرانس کا سفیر اسلام آباد میں کوئی بات کرتا ہے تو وہ کس کی بات ہے؟ فرانس کی۔ پوچھ کر کرتا ہے تب فرانس کی ہے، بغیر پوچھے کرتا ہے تب کس کی ہے؟ نمائندہ نمائندہ ہوتا ہے۔
ایک بات اور شامل کروں گا۔ پہلی وحی کیا تھی؟ ’’اقرأ‘‘۔ آخری وحی کیا تھی؟ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، حضورؐ آرام فرما تھے، بیماری بڑھ رہی تھی، کمزوری ہو گئی تھی، یوں آخری وقت میں ہاتھ اٹھایا، جبریلؑ سامنے کھڑے تھے، وہ کچھ پوچھ رہے تھے، حضورؐ نے فرمایا ’’اللھم بالرفیق الاعلیٰ‘‘ اور ہاتھ یوں کر لیا۔ آخری لمحہ یہی تھا نا؟ تئیس سال بنتے ہیں۔ اس تئیس سال کے دوران جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازًا کتنی باتیں فرمائی ہوں گی؟ سینکڑوں میں یا ہزاروں میں ہیں یہ؟ کتنے کام کیے ہوں گے تئیس سال کے دوران؟ ذرا میری بات پہ غور فرمائیں۔ تئیس سال کی ہزاروں باتوں میں سے چار یا پانچ کے بارے میں اللہ نے یہ فرمایا کہ یہ نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔ ان پانچ باتوں کے نہ کرنے کی بات کر کے اللہ پاک نے باقی ساری کنفرم نہیں کر دیں؟
ہم حدیث کسے کہتے ہیں؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات فرمائی ہے، حدیث ہے۔ حضورؐ نے کوئی کام کیا، صحابیؓ نے روایت کیا، یہ حدیث ہے۔ صحابیؓ نے بات کی ہے، حضورؐ نے شاباش دی ہے، یا تائید کی ہے، یا کم از کم خاموشی اختیار کر لی ہے، یہ آخری درجہ ہے۔ وہ بات جو صحابیؓ نے کہی ہے اور حضورؐ نے خاموشی اختیار کر لی ہے، وہ حدیث میں شامل ہے یا نہیں؟ اور حدیث کس کی ہے، صحابیؓ کی یا حضورؓ کی؟ اگر صحابیؓ کی بات حضورؑ کی خاموشی سے رسول اللہ کی حدیث بنتی ہے، تو رسول اللہ کی بات اللہ کی خاموشی سے اللہ کا کلام (حکم) نہیں بنتا؟ اگر صحابیؓ کا عمل یا صحابیؓ کا قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے حدیث بنتی ہے، تو حضورؐ کی بات اللہ کے سکوت اختیار فرمانے سے اللہ کی بات نہیں بنتی؟ یہی معنی ہے ’’وما ینطق عن الھویٰ۔ ان ھو الی وحی یوحیٰ‘‘ (النجم) حضورؐ نے جو کام بھی کیا، جو بات بھی کی، یا وحی تھی، یا اللہ پاک کے خاموش رہنے سے وحی بن گئی ہے۔
جو بات میں عرض کر رہا ہوں کہ قرآن پاک کی کسی بات کی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی تو وضاحت کا حق کس کا ہے؟ اللہ کے نمائندے کا۔ اور اتھارٹی کون ہیں؟ میں ایک چھوٹی سی مثال دوں گا۔ بیسیوں آیات ہیں، صحاح ستہ میں بیسیوں سے بھی زیادہ ہوں گی کہ صحابہ کرامؓ کو سمجھنے میں الجھن پیش آئی ہے۔ رجوع کس سے کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ حضورؐ نے وضاحت کی ہے تو کسی نے نہیں پوچھا کہ یا رسول اللہ! اپنی طرف سے کر رہے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کر رہے ہیں۔ آپ نے احادیث میں وضاحتیں پڑھی ہیں کہ نہیں پڑھیں؟ صحابہؓ کو قرآن پاک کی آیت سمجھنے میں الجھن ہوئی، حضورؐ سے پوچھا، حضورؐ نے وضاحت کی تو کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اپنی طرف سے کر رہے ہیں یا اللہ کی طرف سے کر رہے ہیں؟
ایک چھوٹی سی مثال۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے بارے میں فرماتی ہیں، میں بہت سوال کیا کرتی تھی۔ ایک سوال کا ذکر کرتی ہیں، کہتی ہیں حضورؐ تشریف فرما تھے، تو مجلس میں حضورؐ نے ایک بات فرما دی۔ فرمایا ’’من حوسب عذب‘‘ جس کا حساب کتاب ہوا اس کو عذاب ہو گا۔ ’’من حوسب عذب‘‘ اس کا مطلب کیا بنتا ہے کہ جس کا حساب ہوا وہ نہیں بچتا۔ حضرت عائشہؓ چونک گئیں۔ یا رسول اللہ! کیا فرمایا آپ نے؟ قرآن پاک تو کہہ رہا ہے ’’فاما من اوتی کتابہ بیمینہ۔ فسوف یحاسب حسابا یسیرا۔ وینقلب الی اہلہ مسرورا۔‘‘ (الانشقاق) جس کو دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال ملا ہے، حساب اس کا ہو گا، تھوڑا بہت ہو گا، لیکن گھر آ کر خوشخبری دے گا۔ آدمی جب کامیاب ہوتا ہے تو سب سے پہلے خوشخبری کس کو دیتا ہے؟ ’’وینقلب الیٰ اہلہ مسرورا‘‘۔ اور یہ بھی فرمایا، وہ اپنا رزلٹ کارڈ لوگوں کو پڑھاتا پھرے گا ’’ھآؤم اقرءوا کتابیۃ۔ انی ظننت انی ملٰق حسابیۃ۔ فھو فی عیشۃ راضیۃ‘‘ (الحاقہ) وہ لوگوں کو اپنا رزلٹ کارڈ پڑھاتا پھرے گا کہ دیکھو یار میرا کارڈ، کیسے نمبر آئے ہیں۔ ’’ھآؤم اقرءوا کتابیۃ‘‘ پھر کمنٹس بھی کرے گا۔ ’’انی ظننت انی ملٰق حسابیۃ‘‘ مجھے اندازہ تھا نمبر ٹھیک آئیں گے۔ ’’فھو فی عیشۃ راضیۃ‘‘ بڑے مزے میں ہو گا۔
اماں جان فرماتی ہیں کہ اللہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ حساب بھی ہو گا، خوش خوش گھر بھی واپس آئے گا، لوگوں کو اپنا نتیجہ بھی بتائے گا، تبصرہ بھی کرے گا، بڑے مزے میں ہو گا۔ اور آپؐ کیا فرما رہے ہیں؟ ’’من حوسب عذب‘‘۔ اشکال سمجھ میں آیا ہے؟ یہ کس کے ذہن میں آیا ہے؟ ایک جملے میں بات نمٹا دی حضورؐ نے۔ فرمایا ’’ذاک العرض یا عائشۃ! اما من نوقش فقد عذب‘‘۔ وہ پیشی ہے صرف۔ وہ جس حساب کی تم بات کر رہی ہو، وہ کیا ہے؟ پیشی ہے۔ سرکار بنام فلان، آؤ بھئی۔ پیش ہوا، دیکھا، جا یار! ’’اما من نوقش فقد عذب‘‘ جس کا ریکارڈ طلب ہو گیا وہ مارا گیا۔
قرآن پاک کی آیت کی یہ وضاحت کس نے کی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ اور یہ حضورؐ نے اپنی طرف سے کی ہے یا اللہ کی طرف سے کی ہے؟ لیکن اگلی بات، یہ وضاحت یا وضاحتیں حضورؐ نے قرآن پاک کی تشریح کے لیے کی ہیں، ہمیں کس ذریعے سے ملی ہیں؟ حدیث سے۔
(۳) ہمیں قرآن پاک کا متن حدیث کے ذریعے ملا ہے۔ قرآن پاک میں کس جملے سے کس آیت سے اللہ کی منشا کیا ہے؟ یہ ہمیں حدیث کے ذریعے ملا ہے۔ بہت سی آیات ایسی ہیں جو پس منظر معلوم کیے بغیر سمجھ نہیں آتیں۔ ہم اسے پس منظر کہتے ہیں، بیک گراؤنڈ کہتے ہیں، مفسرین شانِ نزول کہتے ہیں۔ جس کا شانِ نزول یا بیک گراؤنڈ سامنے نہ ہو تو بات سمجھ میں نہیں آتی۔ بہت سی آیات ہیں ان میں سے ایک کا ذکر کرتا ہوں۔
قرآن پاک کی آیت کریمہ ہے ’’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ، فمن حج البیت اواعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بہما۔‘‘ (البقرہ) صفا مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہے، جو آدمی حج کرے یا عمرہ کرے، کوئی حرج نہیں کہ صفا مروہ کی سعی کر لے۔ یہ ’’کوئی حرج نہیں کہ چکر لگا لے‘‘ یہ اباحت کا جملہ ہے یا وجوب کا جملہ ہے؟ یہ وجوب کدھر سے آیا؟
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے باقاعدہ سوال ہوا۔ اور سوال کیا بھانجے نے۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے۔ شاگرد بھی ہیں، جانشین بھی ہیں اور بھانجے بھی ہیں۔ اماں جان! یہ وجوب کہاں سے آیا ہے؟ اماں جان نے بڑا مزے کا جواب دیا۔ بیٹا، تمہیں نہیں کہا نا اس لیے تمہیں سمجھ نہیں آیا۔ میں اپنی زبان میں تشریح کر رہا ہوں۔ جن کو کہا تھا سمجھ میں آ گیا تھا۔ پھر پس منظر بیان کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ حج کے لیے آتے تھے، طواف سارے کرتے تھے، سعی سارے نہیں کرتے تھے۔ سعی سارے قبائل نہیں کرتے تھے، ان میں انصار کے دونوں قبیلے بھی تھے، اوس اور خزرج دونوں صفا مروہ کی سعی نہ کرنے والوں میں تھے۔ اور اس کی وجہ انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں، بخاری کی روایت ہے ’’کنا نتحرج ۔۔۔‘‘ ہم صفا مروہ کی سعی کو حرج سمجھتے تھے، گناہ کی بات سمجھتے تھے، جاہلیت کی بات سمجھتے تھے، نہیں کیا کرتے تھے۔
اب جب فتح مکہ کے بعد حج کا موقع آیا، انصارِ مدینہ کو کنفیوژں ہوئی کہ جناب یہ تو حج میں جائیں گے، ہم بھی ساتھ جائیں گے، یہ تو طواف بھی کریں گے اور اس کے بعد کیا کریں گے؟ سعی بھی کریں گے۔ تو ہم کیا کریں گے؟ انہوں نے سوال کیا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ یارسول اللہ! ہم کیا کریں گے؟ اللہ نے جواب دیا، کوئی حرج کی بات نہیں یار۔ یہ ’’لا جناح علیہ‘‘ کن کو کہا؟ جو کہتے تھے ’’کنا نتحرج ۔۔۔‘‘ ہم اس کو حرج سمجھتے تھے گناہ کی بات سمجھتے تھے، ان کو جواب دیا۔
جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں، اس آیت کریمہ کا یہ بیک گراؤنڈ اور پس منظر سامنے نہ ہو تو صحیح مطلب آپ بیان کر لیں گے؟ یہ صحیح پس منظر کس نے بیان کیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے۔ اور ہم سے نقل حدیث کے ذریعے ہوا ہے۔
قرآن پاک کے متن تک رسائی حدیث کے ذریعے، قرآن پاک میں اللہ کی منشا تک رسائی حدیث کے ذریعے، قرآن پاک کی آیات کے شانِ نزول تک رسائی حدیث کے ذریعے۔ ایک بات اور کر کے بات سمیٹتا ہوں۔
(۴) قرآن پاک کے بہت سے احکام، ان کی تشکیل بھی سنت سے ہوتی ہے، تکمیل بھی سنت سے ہوتی ہے۔ حکم قرآن پاک کا ہے، تشکیل کون کرتی ہے؟ سنت۔ اور قرآن پاک کا حکم بظاہر ایک حصہ نظر آتا ہے، تکمیل کون کرتا ہے؟ سنت۔ بہت سے واقعات ہیں، ایک واقعہ عرض کروں گا۔
قرآن پاک میں قصر کا ذکر ہے ’’اذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰۃ‘‘ (النساء) قصر کا حکم کہ سفر میں ہو، وقت اور مسافت دونوں شرعی ہیں تو چار کی بجائے دو پڑھو۔ لیکن ساتھ شرط ہے ’’ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا‘‘ اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں آزمائش میں ڈال دیں گے۔ میدان جنگ ہے، خوف کی کیفیت ہے، کافروں کے حملے کا ڈر ہے، تو چار کی بجائے دو پڑھ لو۔ یہ قصر جو قرآن پاک نے بیان کی ہے وہ ’’ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا‘‘ کی شرط کے ساتھ ہے، حالتِ خوف کا ہے، حالتِ جنگ کا ہے۔ یہ حالتِ امن کا قصر کدھر سے آیا؟ سوال ذہن میں آیا ہے؟ یہ اشکال بھی سب سے پہلے صحابی کے ذہن میں آیا تھا۔
مفسرینؒ نے لکھا ہے، ابن کثیرؒ نے بھی لکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجۃ الوداع سے واپس جا رہے ہیں۔ حجۃ الوداع حضورؐ کا زندگی کا سب سے بڑا اجتماع تھا، اس وقت تک پورے جزیرۃ العرب پر کنٹرول ہو چکا تھا اور کہیں کوئی لڑائی نہیں تھی۔ مدینہ کو چلے ہیں قصر کرتے آ رہے ہیں۔ مدینہ سے واپس آئے ہیں قصر کرتے آ رہے ہیں۔ نہ کوئی خوف، نہ کوئی جنگ، نہ کوئی خطرہ، کوئی شے نہیں۔ یہ اشکال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں آیا واپسی پر۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ واپسی پر ایک جگہ ذہن میں آیا کہ قرآن پاک نے تو ’’ان خفتم‘‘ کہا ہے اور ہمیں تو کوئی خوف نہیں ہے، ہم قصر کیوں کر رہے ہیں؟ جناب نبی کریم صلی اللہ کی خدمت میں سیدھے پہنچے۔
میں ایک بات اور درمیان میں شامل کروں گا کہ وضاحت اتھارٹی ہی کرتی ہے۔ مثلاً ہمارے ملک کے کسی قانون میں کوئی اشتباہ ہے تو وضاحت کی اتھارٹی ہائی کورٹ ہے۔ قانون میں کوئی الجھن ہے کہ یوں مطلب ہے کہ یہ مطلب ہے؟ تو وضاحت کون کرے گا؟ ہائی کورٹ۔ اور دستور کی کسی دفعہ میں اشتباہ ہے تو اتھارٹی کون ہے؟ سپریم کورٹ۔ جو وہ وضاحت کر دے قبول ہو جائے۔
قرآن پاک کی وضاحت اور اس کے مطلب کی تعین کی اتھارٹی کون ہے؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ سیدھے گئے، یا رسول اللہ! ہم قصر کرتے آ رہے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کر رہے ہیں تو کر رہے ہیں۔ قرآن پاک نے تو ’’ان خفتم‘‘ کہا ہے، ہمیں تو کوئی خوف نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کا ارشاد یہ ہے کہ یا رسول اللہ! اتنے امن میں ہم کبھی تھے ہی نہیں جتنے آج ہیں، ہم قصر کیوں کر رہے ہیں؟ بڑا مزے کا جواب دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ عمر! اللہ کا صدقہ واپس کیوں کرتے ہو؟ بس اتنا ہی جملہ ہے، تشریح میں کروں گا کہ اللہ نے حالتِ خوف میں قصر کا کہا ہے، ہم حالتِ امن میں کر رہے ہیں، بولنا کسے چاہیے؟ اللہ کو۔ اللہ نے خاموشی اختیار کر لی، بات ختم۔ اللہ نے مہربانی کر دی ہے تو چپ رہو یار۔
اس کا مطلب کیا ہے؟ میں جو بات عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ حالتِ خوف کا قصر کہاں ہے؟ قرآن میں۔ اور حالتِ امن کا قصر کہاں ہے؟ سنت میں۔ اور آخری بات سوال کر کے کہ اس حالتِ خوف کے قصر میں اور حالتِ امن کے قصر میں کوئی گریڈ کا فرق ہے کہ اِس کے نمبر انیس ہیں اُس کے اٹھارہ ہیں۔ جو درجہ اُس کا ہے وہی درجہ اِس کا ہے۔
میں نے چار باتیں عرض کی ہیں:
(۱) قرآن پاک کے متن تک رسائی کس کے ذریعے ہے؟ حدیث کے ذریعے۔
(۲) قرآن پاک میں اللہ کے منشا تک رسائی کس کے ذریعے ہے؟ حدیث کے ذریعے۔
(۳) قرآن پاک کی آیات کے نزول کے بیک گراؤنڈ اور شان نزول تک رسائی کس کے ذریعے ہے؟ حدیث کے ذریعے۔
(۴) اور قرآن پاک کی کسی بات میں اللہ کے رسول نے جو وضاحت کی ہے، اس وضاحت تک رسائی کس کے ذریعے ہے؟ حدیث کے ذریعے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔