رد قادیانیت کے لیے جدید اسلوب اپنانے کی ضرورت

   
تاریخ : 
۶ جون ۲۰۱۵ء

دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات کے دوران دیگر بہت سے موضوعات کے ساتھ ساتھ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے رد و تعاقب کے حوالہ سے بھی مختلف مقامات پر تربیتی کورسز کا سلسلہ جاری ہے۔ مجلس احرار اسلام پاکستان کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام دار بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان میں پانچ روزہ کورس کا انعقاد کیا گیا جس کی آخری نشست ۲۸ مئی کو پیر جی حافظ سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کی زیر صدارت منعقد ہوئی اور اس میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم اعلیٰ مولانا عزیز الرحمن جالندھری، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مجلس احرار اسلام کے راہ نماؤں پیر سید کفیل شاہ بخاری، حاجی عبد اللطیف چیمہ اور مولانا مفتی محمد زبیر شجاع آبادی کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔

سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مرکز دعوت و ارشاد چنیوٹ میں گزشتہ چھ عشروں سے مسلسل یہ سالانہ کورس ہو رہا ہے۔ ۳۱ مئی کو اس کی دو نشستوں میں گفتگو کا موقع ملا اور اسی روز جامعہ انوار القرآن چنیوٹ کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و دستار بندی میں بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جس کے مہتمم ہمارے فاضل دوست مولانا قاری عبد الحمید حامد (فاضل نصرۃ العلوم) ہیں۔ ضلع نارووال کے سرحدی قصبہ ظفروال کے نواحی گاؤں اونچہ کلاں میں مولانا افتخار اللہ شاکر گزشتہ ربع صدی سے سکولوں کی موسم گرما کی تعطیلات کے دوران تحفظ عقیدہ ختم نبوت کے سالانہ کورس کا اہتمام کر رہے ہیں۔ ان کا تعلق انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ سے ہے اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے خصوصی تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ۴ جون کو اس کی دو نشستوں میں گفتگو کی سعادت حاصل کی۔ ان نشستوں میں کی جانے والی گفتگو میں جن امور کی طرف راقم الحروف نے بطور خاص توجہ دلائی ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

  • فتنوں سے آگاہی حاصل کرنا اور امت کو ان سے خبردار کرنا دینی تقاضوں اور فرائض میں سے ہے اور معاشرہ میں کسی بھی حوالہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کر کے مسلمانوں کو ان سے بچانے کی کوشش کرنا ہماری دینی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اس لیے توحید و سنت، ختم نبوت، مقام صحابہ کرامؓ اور اہل سنت کے عقائد و مسلک کے تحفظ کے حوالہ سے مختلف مقامات پر اس قسم کے جو کورسز ہو رہے ہیں وہ دینی جدوجہد کا اہم حصہ ہیں اور ان کو کامیاب بنانے کی سب حضرات کو پوری کوشش کرنی چاہیے۔
  • جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں چار اشخاص (۱) مسیلمہ کذاب (۲) اسود عنسی (۳) طلیحہ اسدی اور (۴) سجاح نامی خاتون نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ ان میں اول الذکر دونوں مقابلہ میں قتل ہوگئے تھے۔ جبکہ طلیحہ اور سجاح نے توبہ کر لی تھی اور دوبارہ مسلمانوں کی صف میں شامل ہوگئے تھے۔ طلیحہ اسدیؓ کو محدثین نے صحابہ کرامؓ میں شمار کیا ہے اور وہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں جہاد کے ایک معرکہ میں شہید ہوگئے تھے۔ اور سجاحؒ نے حضرت معاویہؓ کے دور میں توبہ اور تجدید ایمان کی تھی، کوفہ میں ان کا انتقال ہوا تھا اور صحابی رسول حضرت سمرہ بن جندبؓ نے ان کا جنازہ پڑھایا تھا۔
    اس لیے میری گزارش ہے کہ قادیانیوں اور دیگر منکرین ختم نبوت کے دجل و فریب کو بے نقاب کرنے اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ توبہ اور اسلام میں ان کی واپسی کا دروازہ بھی کھلا رکھنا چاہیے۔ بلکہ سب کو توبہ کی دعوت دیتے ہوئے دعوت اور توبہ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
  • قادیانیوں کی دعوت اور سازشوں کا عمومی میدان دینی مدارس کے طلبہ اور مساجد کے نمازی نہیں ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جس شخص کا دینی مدرسہ، مسجد، علماء کرام اور مذہبی جماعتوں سے تھوڑا سا تعلق بھی ہے وہ ان کے دجل و فریب کا شکار نہیں ہوگا۔ جبکہ جو شخص دین سے اور دین کے علم و معلومات سے جس قدر دور ہوگا وہ ان کے فریب کا جلدی شکار ہوگا۔ اس لیے قادیانیوں کی محنت کا میدان مسجد و مدرسہ سے لا تعلق افراد و طبقات ہیں اور وہ لوگ ہیں جو دین کی معلومات سے بہرہ ور نہیں ہیں۔ جبکہ ہماری محنت کا میدان زیادہ تر ہمارا اپنا ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں بھی محنت کی ضرورت ہے کہ اس سے ایمان میں پختگی آتی ہے اور بیداری قائم رہتی ہے۔ لیکن اس محنت کا اصل میدان دین سے لا تعلق افراد و طبقات ہیں جن کی طرف ہماری توجہ بہت کم ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی جدوجہد اور ترجیحات کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔
  • قادیانیوں کی محنت کا طریق کار بدل چکا ہے، وہ مناظرہ و مجادلہ کا محاذ چھوڑ کر لابنگ اور بریفنگ کے ہتھیاروں سے کام لے رہے ہیں۔ ان کے دلائل انسانی حقوق کے جدید فلسفہ اور آج کے بین الاقوامی قوانین و رواجات پر مشتمل ہوتے ہیں اور وہ ان حوالوں سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میڈیا کے مختلف شعبوں صحافت، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا میں اپنی کمین گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور سیکولر این جی اوز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ فائل ورک اور لابنگ کی ان صلاحیتوں کو خوب استعمال کر رہے ہیں جن کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں اس صورت حال پر توجہ دینا ہوگی اور ان ہتھیاروں اور اسلوب میں مہارت حاصل کرنا ہوگی جو آج کے دور میں عام طور پر استعمال ہو رہے ہیں، اور جن کے بغیر کوئی جدوجہد آگے نہیں بڑھ سکتی۔

تحریک ختم نبوت کے حوالہ سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام بھی سالانہ تربیتی کورس مسلم کالونی چناب نگر میں منعقد ہوتا ہے اور اس سال بھی جاری ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ دس جون کو وہاں ایک دو نشستوں میں حاضری کا ارادہ رکھتا ہوں۔

   
2016ء سے
Flag Counter