روزنامہ خبریں لاہور ۲۱ دسمبر ۱۹۹۷ء کی خبر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ نے سپاہ صحابہؓ کے راہنما اور پنجاب اسمبلی کے رکن مولانا محمد اعظم طارق کی اس درخواست پر ڈی آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے کہ انہیں اپنا علاج جیل سے باہر کرانے کی اجازت دی جائے۔
مولانا محمد اعظم طارق چند ماہ قبل لاہور سیشن کورٹ کے احاطہ میں بم کے اس دھماکہ میں شدید زخمی ہو گئے تھے جس میں مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی شہید ہوئے تھے۔ اس حادثے میں مولانا محمد اعظم طارق کا پورا وجود چھلنی ہو گیا تھا مگر ان کی جان بچ گئی اور وہ مسلسل صاحبِ فراش ہیں۔ اسی دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا اور بعض اطلاعات کے مطابق انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے علاوہ علاج کی مناسب سہولتوں سے بھی مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے۔ بعض قریبی حلقوں کے مطابق ان کے خلاف جن مقدمات میں ملوث ہونے کا الزام ہے ان میں سے بیشتر میں وہ پولیس کی تفتیش کے مطابق بے گناہ ثابت ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ابھی تک زیرحراست ہیں اور حکومت جان بوجھ کر ان کی گرفتاری کا سلسلہ دراز سے دراز تر کرتی جا رہی ہے۔
یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے اور اسے کسی طرح بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر مولانا محمد اعظم طارق کے خلاف واقعی کوئی سنجیدہ کیس ہے تو اسے سامنے لایا جائے، بلکہ ہم یہ گزارش کریں گے کہ ایک عدالتی کمیشن قائم کر کے مولانا محمد اعظم طارق کے خلاف درج تمام مقدمات کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیا جائے۔ اور اگر یہ کیس محض خانہ پُری کے لیے ہیں تو ایک زخمی اور زیرعلاج مذہبی راہنما اور رکن اسمبلی کو بلاوجہ جیل میں رکھنا سراسر زیادتی ہے جس پر ہر منصف مزاج شخص کو احتجاج کرنا چاہیے۔ ہم حکومت سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ مولانا محمد اعظم طارق کو رہا کیا جائے ورنہ کم از کم انہیں اپنا علاج ان کی خواہش کے مطابق جیل سے باہر کرانے کی سہولت مہیا کی جائے کہ یہ تو ایک عام سا انسانی حق اور جائز مطالبہ ہے جسے نظرانداز کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔