تحریک پاکستان اور علماء کرام

   
اکتوبر ۱۹۹۷ء

پاکستان کے قیام کو نصف صدی گزر چکی ہے مگر ابھی تک اس کے نظریاتی اہداف کے حصول کے لیے کوئی سنجیدہ پیشرفت نہیں ہوئی، بلکہ قیام پاکستان کے نظریاتی مقاصد کو دھندلانے کے لیے اس پراپیگنڈا میں دن بدن شدت پیدا کی جا رہی ہے کہ پاکستان تو علماء کے موقف کے علی الرغم قائم ہوا تھا، اس لیے اس ملک میں علماء کی راہنمائی اور ان کے نظریاتی موقف و پروگرام کی پذیرائی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ حالانکہ یہ محض ایک دھوکہ ہے جس کا مقصد صرف پاکستان کو اسلامی تشخص سے دور رکھنے کی راہ ہموار کرنا ہے ورنہ تاریخ سے واقفیت رکھنے والا کون شخص یہ نہیں جانتا کہ پاکستان کا قیام دراصل علماء حق کی اس تاریخی جدوجہد اور قربانیوں کا منطقی نتیجہ ہے جس میں انہوں نے فرنگی استعمار کی ہمہ گیر یلغار کے مقابلے میں ملت اسلامیہ کے نظریاتی تہذیبی اور تعلیمی تشخص کو محفوظ رکھا، اور ملت اسلامیہ کا یہی جداگانہ تشخص قیام پاکستان اور تقسیم ملک کے لیے وجہ جواز بنا۔

پھر قیام پاکستان کی تحریک بھی علماء کرام کی عملی جدوجہد سے خالی نہیں ہے اور اس میں تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے ساتھ ساتھ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا اطہر علیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ، مولانا عبد الحامد بدایونیؒ، پیر صاحبؒ مانکی شریف، اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ جیسے اکابر علماء اور ان کے ہزاروں رفقاء کو نظرانداز کر کے تحریک پاکستان کی تاریخ کا کوئی باب بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء کرام کے مختلف گروہ تحریک پاکستان میں اپنے کردار اور خدمات کو گوشہ گمنامی سے نکال کر قوم کے سامنے لائیں اور نئی نسل کو یہ بتائیں کہ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کی تمام تر گہماگہمی انہی اکابر کی رہین منت رہی ہے اور قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل بھی انہی بزرگوں کے ارشادات و تعلیمات کی روشنی میں ممکن ہے۔

مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا عبد الحامد بدایونیؒ، اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ کے خوشہ چینوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر خودساختہ تاریخ کے اس فریب کا پردہ چاک کریں اور پاکستان کو اسلامی ریاست کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے قوم کو مشترکہ دینی قیادت فراہم کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter