امریکا کے چند اردو اخبارات اور کچھ خبریں

   
۲۸ ستمبر ۲۰۰۷ء

آج کے کالم میں امریکا کے مختلف شہروں میں شائع ہونے والے اردو اخبارات کا مختصر تعارف اور اس کے ساتھ ان کی شائع کردہ چند اہم خبریں قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہیں۔

امریکا میں میری معلومات کے مطابق ایک درجن کے لگ بھگ اردو اخبارات شائع ہوتے ہیں، جو اخبارات سے زیادہ اشتہارات کا مجموعہ کہلانے کے مستحق ہیں، تاہم ان میں خبریں بھی ہوتی ہیں اور مضامین بھی خاصی تعداد میں ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک ہفت روزہ اخبار ”نیویارک عوام“ کے نام سے شائع ہوتا ہے جو جہازی سائز کے بیس صفحات پر مشتمل ہوتا ہے، اس کا ۲۱ ستمبر تا ۲۷ ستمبر ۲۰۰۷ء کا شمارہ میرے سامنے ہے، جس میں کم و بیش تیرہ صفحات اشتہارات پر مشتمل ہیں، تین صفحات کے لگ بھگ خبریں اور ساڑھے تین چار صفحات کے قریب مضامین ہیں۔ اس کے ساتھ اٹھائیس صفحات کا میگزین بھی ہے، جس میں تقریباً اٹھارہ صفحات اشتہارات کے ہیں اور باقی میں مضامین ہیں۔ اس کے علاوہ جو اخبارات میری نظر سے گزرے ہیں، ان میں صدائے پاکستان، پاکستان پوسٹ، پاکستان نیوز، اردو ٹائمز، پاکستان ٹائمز، پاکستان جرنل، پاکستان ایکسپریس اور ایشیا ٹربیون شامل ہیں۔

یہ اخبارات مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتے اور نہ گھروں میں سپلائی کیے جاتے ہیں، بلکہ مفت تقسیم ہوتے ہیں۔ ان میں پاکستان کی خبریں زیادہ ہوتی ہیں، کچھ بین الاقوامی خبریں بھی ہوتی ہیں اور پاکستان کے قومی اخبارات میں سے معروف کالم نگاروں کی نگارشات کا ایک حصہ ان اخبارات کے ذریعے لوگوں کی نظر سے گزر جاتا ہے۔

ہفت روزہ ”نیویارک عوام“ کے مذکورہ شمارہ میں شائع ہونے والی ایک خبر، جسے میں نے اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے منتخب کیا ہے، ہیگ کی ڈیٹ لائن سے شائع ہوئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ دین اسلام کے مرتد نوجوانوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسلام کو ترک کرنے کے مسئلہ کو آسان بنانے کے لیے مہم چلائیں گے۔ برطانوی جریدے ”دی ٹائمز“ کی حالیہ اشاعت میں نائن الیون کی برسی پر شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس موقع پر سابق مسلمانوں کی ایک کمیٹی نے اپنے اس عزم کو دہرایا ہے کہ وہ آزادئ مذہب کے سلسلے میں تحریک چلائے گی۔ ایک خفیہ مقام پر مرتد مسلمانوں کی اس کمیٹی کی طرف سے ”دی ٹائمز“ سے گفتگو کرتے ہوئے اس کمیٹی کے بانی احسان جامی نے کہا کہ ہم اسلام کی عدمِ برداشت اور دہشت گردانہ حملوں کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔ ہالینڈ میں لیبر پارٹی کے کونسلر نے کمیٹی کی مہم کے آغاز پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ریڈیکل اسلام کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہب میں اصلاحات کی دعویدار اس طرح کی تنظیمیں پورے یورپ بالخصوص برطانیہ اور جرمنی میں ہماری مہم میں حصہ لیں گی۔ ایک اور خاتون لبنیٰ برادہ نے، جس نے اسلام ترک کر دیا ہے، کہا ہے کہ ہم اسلام کے ساتھ کوئی محاذ آرائی نہیں چاہتے، بلکہ ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام ترک کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور مرتد ہونے کے بعد انہیں قتل کی دھمکیاں نہیں ملنی چاہئیں۔

ہفت روزہ ”صدائے پاکستان نیویارک“ کی ۲۰ ستمبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور حکومت حالات بہتر بنانے میں ناکام رہتی ہے، جبکہ حکومتی کوششوں کے باوجود ملک میں انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے بے ضابطہ دینی مدارس فروغ پا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دینی مدارس مسلمانوں کے وہ روایتی ادارے ہیں جو انہیں خالصتاً مذہبی تعلیم فراہم کر رہے ہیں اور بڑی تعداد میں دیہی اور غریب عوام کے لیے تعلیم کے حصول کا واحد ذریعہ بھی ہیں، تاہم گزشتہ کئی سالوں سے یہ مدارس خالصتاً دینی تعلیم کی بجائے دہشت گردی کو تعاون فراہم کرنے کے لیے انتہا پسندانہ نظریات پر مبنی تعلیمات دے رہے ہیں۔

ہفت روزہ ”پاکستان پوسٹ“ کی ۲۰ تا ۲۶ ستمبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ انٹرفیتھ کمیونیٹز یونائیٹڈ فار جسٹس اینڈ پیس کے تحت ۱۸ اکتوبر کو عراق جنگ کے خلاف ”انٹرفیتھ روزہ“ کا اہتمام کیا جا رہا ہے، اس خاص موقع پر واشنگٹن کے علاوہ نیویارک، شکاگو اور سان فرانسسکو میں انٹرفیتھ روزے کا بندوبست کیا جا رہا ہے، جس میں مختلف مذاہب کے افراد حصہ لیں گے۔ یہودی شیلوم سینٹر کے رہنما ربی آرتھر واسکو نے کہا ہے کہ یہ مہینہ بڑا مقدس ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمان رمضان المبارک مناتے ہیں اور صبح سے مغرب تک کچھ کھائے پیے بغیر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہیں، اسی مہینے یہودیوں کا مقدس مہینہ بھی منایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام، یہودیت اور عیسائیت سمیت ہر مذہب میں امن کی تعلیم دی جاتی ہے اور ۸ اکتوبر کو انٹرفیتھ روزے کا مقصد امن کی حمایت اور جنگ کے خلاف پرامن طریقہ سے اپنی مخالفت کا اظہار کرنا ہے۔

”پاکستان پوسٹ“ کے اسی شمارے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ کے دو نوجوان افسروں نے اسلام کی سادگی اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ مین ہٹن فارتھ لے زون کے ڈیڈکٹو جیف فالکنز اور کمیونٹی افیئرز کے لیفٹیننٹ لیمونٹی جیسپر نے اکنا کے مرکزی ہیڈ کوارٹر جمیکا کوئینز میں ایک افطار ڈنر کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ افطار کا اہتمام پاکستان کمیونٹی کے ممتاز رکن ڈاکٹر طارق ابراہیم نے کیا۔ پولیس افسران کے قبولِ اسلام کے وقت کافی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ وہاں موجود بڑی تعداد میں لوگوں نے اس موقع پر اللہ اکبر کے نعرے بھی لگائے۔ ڈیڈیکٹو جیف فالکنز اور لیفٹیننٹ لیمونٹی جیسپر نے ”پاکستان پوسٹ“ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عیسائیت کے مقابلے میں اسلام ایک سادہ اور قابلِ قبول مذہب لگا۔ قرآن مجید میں زندگی کے معاملات کی بہت اچھے انداز میں تشریح کی گئی ہے جو بائبل میں کہیں نہیں ہے۔ معروف نومسلم افریقی امریکن رہنما امام عبد الباقی کے ہاتھوں یہ مقدس فریضہ سرانجام پایا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کس بات نے انہیں سب سے زیادہ متاثر کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم بچپن سے ہی محمد علی کلے اور مالکم ایکس سے متاثر تھے، ان کی تعلیمات اور زندگی کے معاملات ہمیں بہت متوجہ کرتے تھے۔

ہفت روزہ ”پاکستان جرنل“ نیویارک نے ۲۱ ستمبر کے شمارے میں یہ خبر شائع کی ہے کہ کینیڈا کے الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے باپردہ مسلمان خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی ہے، جبکہ اس سے قبل یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تھی کہ کینیڈا کے ایک صوبے کی عدالت نے مسلمان خواتین کو اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے باپردہ پولنگ اسٹیشن جا سکتی ہیں، مگر وزیر اعظم نے اس کی مخالفت کی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی مسلم خواتین کو باپردہ ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا ہے۔

”پاکستان جرنل“ کے اسی شمارے میں ملائیشیا کی فتویٰ کونسل کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ خلا میں جانے والے مسلمانوں کے لیے نماز میں تشہد کے لیے گھٹنوں کے بل بیٹھنا ضروری نہیں ہے، اس لیے کہ خلا میں کشش ثقل ختم ہو جانے کے باعث ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ ملائیشیا کے دو خلاباز روسی خلائی ادارے کے تعاون سے خلا میں جا رہے ہیں، جن کا مشن ۱۰ اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے۔ ایک خلاباز ڈاکٹر ہے، جبکہ دوسرا آرمی ڈینٹسٹ ہے۔ گزشتہ دنوں ملائیشیا کی قومی خلائی ایجنسی اس بات کا پتہ چلانے کی کوشش میں مصروف تھی کہ مسلم خلاباز خلا میں کس طرح اسلامی شعائر کی پابندی کر سکتے ہیں۔ یہ خلاباز اس تجسس کا شکار تھے کہ وہ دورانِ پرواز کس طرح نماز پنجگانہ ادا کر سکیں گے؟ ان کا خلائی جہاز اس سفر کے دوران نوے منٹ میں زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرے گا اور اس طرح ان خلابازوں کے پاس پانچ نمازوں کی ادائیگی کے لیے صرف نوے منٹ کا وقت ہو گا۔ اسی طرح ان خلابازوں کو درپیش ایک اور مسئلہ وضو کا ہے، کیونکہ خلائی جہاز میں کشش ثقل کی مکمل موجودگی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کا اعضاء پر بہانا ممکن نہیں ہے۔

چنانچہ ان مسائل کا جائزہ لینے کے لیے ملائیشیا میں ایک اجلاس ہوا، جس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ علماء کرام، خلاباز اور اساتذہ شریک ہوئے اور اس میں ان مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ وضو کی جگہ تیمم کیا جائے اور تشہد کے لیے اس حالت میں گھٹنوں کے بل بیٹھنا غیر ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ اٹھائیس ہزار کلومیٹر کی رفتار سے خلا میں سفر کرنے والے اس جہاز میں قبلہ کی سمت ہر لمحہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

اور آخر میں ہفت روزہ ”پاکستان ٹائمز“ میں ۶ ستمبر ۲۰۰۷ء کو شائع ہونے والی یہ خبر بھی ملاحظہ فرما لیجئے کہ ترکی کے نومنتخب صدر عبد اللہ گل نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد کمال اتاترک کے مزار پر حاضری دی، جبکہ ان کے انتخاب کے بعد حجاب کی بحث نے شدت اختیار کر لی ہے۔ عبد اللہ گل نے گیارہویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد اپنی تقریر میں کہا کہ ان کا کوئی اسلامی ایجنڈا نہیں ہے اور وہ کمال اتاترک کی تعلیمات کے مطابق سیکولر روایات سے مخلص رہیں گے۔ بی بی سی کے مطابق عبد اللہ گل نے کہا کہ انہوں نے سیاسی اسلام سے اپنے تمام رشتے توڑ لیے ہیں۔ سر پر اسکارف پہننے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے اور لوگوں کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ۵۵۰ رکنی پارلیمنٹ میں عبد اللہ گل ۳۳۹ ووٹ لے کر صدر منتخب ہوئے ہیں، امریکا نے عبد اللہ گل کو صدر بننے پر مبارکباد دی ہے اور یورپی یونین نے بھی ان کے انتخاب کا خیر مقدم کیا ہے، جبکہ ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد خواتین کے اسکارف پہننے پر پابندی کی بحث شدت اختیار کر گئی ہے۔ عبد اللہ گل کی اہلیہ خیر النساء اسکارف پہننے والی پہلی خاتون اول ہوں گی۔ حالانکہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ صدارتی محل میں ایسا کیسے ممکن ہو گا، کیونکہ سرکاری اداروں میں سر پر اسکارف پہننے پر پابندی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter