ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار پر کیسے قبضہ کیا تھا؟

   
۲۴ و ۲۵ مارچ ۲۰۲۱ء

تجارت اور صنعتوں پر کمپنی کی اجارہ داری قائم ہو جانے کی وجہ سے کمپنی اپنی من مانی شرائط پر کاریگروں اور دستکاروں سے مال تیار کرواتی تھی۔ کمپنی کے ایجنٹ منڈی کے مقابلے میں نہایت کم معاوضے اور بہت کم وقت میں مصنوعات تیار کرنے کا کہتے تھے۔ کاریگر اس صورتحال میں سخت نالاں تھے، مگر کمپنی کے سامنے اُف تک نہ کر سکتے تھے۔ اگر کوئی کاریگر احتجاج کرتا تو اسے سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ چونکہ کاریگروں کا کوئی بھی پرسان حال نہ تھا، انہوں نے اپنے آپ پر مسلط ظلم کی اصل وجہ یعنی ان کے فن کو ہی ختم کر دینا مناسب سمجھا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کاریگروں کو ان کے اعلیٰ فن کی وجہ سے ہی کمپنی کے ظلم سہنا پڑتے تھے۔ اس ضمن میں بنگال کی مشہور ململ کے کاریگروں کا ردعمل بڑا افسوسناک تھا، انہوں نے اپنے انگوٹھے ہی کٹوا دیے جن سے وہ ململ تیار کرتے تھے۔ واضح رہے کہ انگوٹھوں سے ہی وہ اپنے روزگار بھی حاصل کرتے تھے۔ اس طرح ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کاریگروں نے اپنے روزگار کے ذریعے کو بھی ترک کر دیا۔

کاریگروں پر ظلم کا ایک اور پہلو جو سامنے آتا ہے وہ کاریگروں کا صدیوں پرانے فن کو ترک کرنے سے متعلق ہے، اس سے نہایت اعلیٰ دستکاریوں کا فن ہی ختم ہونے لگا۔ کاریگروں نے اب کاشت کاری کو بطور پیشہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ کاشت کاری میں غیر ترقی یافتہ طریقوں کے رواج کے باعث اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھپانے کی اہلیت اور گنجائش نہ تھی، اس سے عام لوگوں کے مسائل مزید بڑھنے لگے اور وہ معاشی طور پر سخت پریشان ہو گئے۔ دیہات کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے انگریزوں نے کسی طور پر کوئی بہتر پالیسی نہ اپنائی۔

۱۷۹۳ء میں ”دوامی بندوبست“ کے نظام کو کچھ صوبوں میں نافذ کر دیا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت زمینوں کی کاشت کی ذمہ داری جاگیرداروں کے سپرد کر دی گئی۔ زمینداروں کو مستقل بنیادوں پر ایک رقم بطور مالیہ حکومت کو ادا کرنا ہوتی تھی۔ اس نظام میں حکومت کا براہ راست تعلق اور واسطہ زمینداروں تک محدود تھا۔ زمیندار اپنی مرضی سے کاشتکاروں سے رقم وصول کرتے اور حکومتی مالیہ ادا کرنے کے بعد بقیہ رقم خود رکھ لیتے تھے۔ اس نظام میں یہ طے نہ کیا گیا تھا کہ زمیندار کسانوں سے زیادہ سے زیادہ کس قدر رقم وصول کریں، اس سے زمینداروں کو کھلی چھٹی مل گئی اور وہ کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے۔ بعض مقامات پر مالیے کا تعین زمین کی پیداواری صلاحیت سے مطابقت نہ رکھتا تھا، ایسی جگہوں پر کسانوں کو دوہری دھار سے ذبح کیا جا رہا تھا۔

”دوامی بندوبست“ کے نفاذ اور اس کے تحت زمینداروں کو کھلی چھٹی دینے کا مقصد ان زمینداروں کی کمپنی کے لیے وفاداریاں حاصل کرنا تھا۔ مقامی زمیندار اپنے علاقے میں وہاں کی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اپنا اثر اور عمل دخل رکھتے تھے۔ ان کے علاقے میں کوئی شخص بھی ان کے سامنے دم نہ مار سکتا تھا۔ کمپنی نے اپنے طاقت اور اثر کو انہی زمینداروں کی معرفت دیہاتی علاقوں کے چھوٹے سے چھوٹے یونٹ تک پھیلایا۔

انگریز سامراج کے مسند نشین اور منصب دار تھے، اس لیے انہوں نے ہندوستان پر سیاسی و انتظامی کنٹرول کے بعد یہاں کے سرمایہ اور تمام پیداواری ذرائع پر قبضہ کرنے پر اکتفا نہ کیا۔ سامراجیت میں چونکہ کوئی قوم کسی دوسرے ملک یا قوم کو اپنی طاقت اور چالبازیوں سے اپنے اثر میں لاتی ہے، اس لیے اسے ہمیشہ مقامی لوگوں کی مزاحمت اور ردعمل کا خوف رہتا ہے۔ مقامی لوگوں کی قوت مزاحمت اور ان کے اداروں کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سامراجی قوتیں معاشرتی سطح پر ایسا ماحول استوار کرتی ہیں جس سے مقامی لوگ ایک نفسیاتی خلفشار کا شکار کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے آپ سے، اپنے صدیوں پرانے ریت رواج اور معاشرتی اداروں سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ اس سے پوری قوم میں بے عملی کا ایک احساس پیدا ہو جاتا ہے اور ان میں زندگی بسر کرنے کی قوت تک ختم ہو جاتی ہے۔

انگریزوں نے اپنے سامراجی عزائم کے حصول میں معاشرتی سطح پر جو حربے اپنائے، ان میں سے چند ایک کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

  1. انگریزوں نے اپنے رویوں اور پالیسیوں سے مقامی لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ مقامی لوگوں کے مقابلے میں ایک اعلیٰ تہذیب اور ثقافتی ورثے کے نمائندہ ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ ہندوستان میں اعلیٰ تہذیبی روایات کے فروغ کے لیے آئے ہیں۔ اس تاثر کے فروغ میں انگریزوں کا بنیادی مقصد زندگی کے ہر شعبے میں انگریز نسل اور اس سے وابستہ لوگوں کی برتری قائم کرنا تھا۔ مقامی لوگ جب ان لوگوں کی برتری کو تسلیم کر لیں گے تو وہ انہی لوگوں کے سیاسی، انتظامی اور معاشرتی اقدامات کو بھی اعلیٰ سمجھتے ہوئے قبول کر لیں گے۔ اس طرح مجموعی طور پر معاملاتِ حکومت انگریزوں کی مرضی کے مطابق چل سکیں گے۔

    نسلی اور تہذیبی برتری کے اس نظریے کے تحت جو معاشرتی تبدیلیاں آئیں، ان میں انگریزوں کے حلیف ایک طبقے کا پیدا ہونا سب سے اہم تھا۔ یہ طبقہ انگریزوں کے حکومتی طبقے سے قرب پیدا کر کے ایک طرف تو ان سے مراعات حاصل کرنے کا خواہشمند تھا تو دوسری طرف اپنی روایات سے تعلق توڑ کر اپنے آپ کو انگریزی اندازِ معاشرت کے رنگ میں ڈھالنا چاہتا تھا۔ انگریزوں کو بھی چونکہ ہندوستان میں اپنے ایک حلیف طبقے کی ضرورت تھی، اس لیے انہوں نے اس طبقے کو مراعات بھی دیں اور انہیں اپنا سیاسی اور انتظامی اثر پھیلانے میں ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔

    بعد ازاں اسی طبقے نے مقامی روایات، لباس اور رسوم و رواج کے بارے میں کمتری کا احساس پیدا کرنے میں ایک مذموم کردار ادا کیا۔ انگریزی تہذیب کی برتری کو انگریزوں کی معاشرت کے حوالے سے اچھالا جاتا تھا۔ اس میں ان کی معاشرت میں استعمال ہونے والی اشیاء کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اب کوئی بھی شخص اپنے آپ کو حکومتی طبقے سے قریب تر لانے یا ان سے ربط و تعلق کے اظہار کے لیے ایسی اشیاء اور لباس استعمال کرتا تھا جیسا کہ انگریز خود کرتے تھے۔ اس نئے انداز معاشرت سے انگریزی مصنوعات کی مانگ بڑھنے لگی، عام لوگوں میں مقامی طور پر تیار کردہ چیزوں کے مقابلے میں انگلستان کی تیار کردہ اشیاء کو زیادہ بہتر اور پائیدار سمجھا جانے لگا۔ اس سے ”ولایتی مال“ کی کھپت بڑھی اور انگریزی صنعتوں کو فائدہ ہوا۔ اس تناظر میں نسلی برتری کے نظریے کو معاشی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔

    ہر غاصب اپنی مفتوحہ قوم پر اپنی نسلی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا مقصد سیاسی اور معاشی استبداد کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ تاریخی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ تہذیب و ثقافت کا تعلق کسی بھی معاشرے کے حالات اور تاریخی ورثے سے ہوتا ہے اور اس کی اصلیت کے لیے یہی عناصر بنیادی ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک علاقے کی ثقافت اور تہذیب کے سرچشمے کسی دوسرے علاقے یا کسی دوسرے گروہ سے متعلق ہوں۔ چونکہ تہذیب اور ثقافت کی استواری اور تشخص میں وہاں کے خاص مزاج اور ورثے کا ہی اہم کردار ہوتا ہے، اس لیے کسی تہذیب یا ثقافت کی دوسروں پر برتری یا کمتری ثابت کرنا حقیقت کے خلاف جانے کے مترادف ہے۔ کوئی تہذیب نہ تو اعلیٰ ہوتی ہے اور نہ ہی کم تر۔ رسم و رواج یا اندازِ معاشرت کی بجائے مادی ترقی اور ایجادات وغیرہ کو تقابل کرنے کے لیے ایک معیار سمجھا جا سکتا ہے۔ انگریزی تہذیب اپنی مادی ترقی کے اعتبار سے ہندوستانی تہذیب کے مقابلے میں بہتر مقام رکھتی تھی۔ انہوں نے اس برتری کو دوسرے ممالک اور علاقوں پر ایک آلہ استبداد کے طور پر استعمال کیا اور اس سے ان علاقوں کے وسائل کو نہ صرف اپنے حق میں استعمال کیا، بلکہ یہاں کی معاشرت کو ادنیٰ قرار دے کر یہاں کے بسنے والوں میں شدید نفسیاتی اور تہذیبی بحران پیدا کر دیا۔

  2. انیسویں صدی کے اوائل میں انگریزوں نے ہندوستان میں انگریزی تعلیم کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ اس ضمن میں ان کی تیار کردہ پالیسی میں مقامی تعلیم اور انداز تربیت کو نہایت منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے بارے میں لارڈ میکالے نے ۱۸۳۵ء میں جو رپورٹ پیش کی، اس میں لکھا ہے کہ ”انگریزی ادب کی ایک اوسط درجہ کی کتاب ہندوستانی ادب کے تمام تر ذخیرہ کے مقابلہ میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔“

    ۱۸۳۷ء میں فارسی زبان کی سرکاری حیثیت کو ختم کر کے انگریزی کو نافذ کر دیا گیا۔ ایسے اقدامات سے صدیوں پرانا نظام دھڑام سے نیچے گر گیا۔ نئے نظام کے تحت پرانے تعلیم یافتہ لوگ سرکاری طور پر ان پڑھ قرار دے دیے گئے اور ان کی سرکاری اداروں میں ضرورت ختم ہو گئی۔ چونکہ ہندوستان کی اکثریتی آبادی انگریزوں کے قائم کردہ نظام میں بد سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہی تھی، اس لیے ان کے دلوں میں انگریزوں کے لیے شدید نفرت بھی پل رہی تھی۔ وہ انگریزوں اور ان سے متعلق کسی بھی چیز کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ ان حالات میں فوری طور پر نئے نظام کو قبول کرنا ان کے لیے مشکل تھا۔

    نئے نظام تعلیم میں انگریزوں نے عیسائی مشنری سکولوں کے قیام کو فروغ دیا۔ ان سکولوں میں عیسائیت کی مذہبی کتب کا مطالعہ لازمی ہوتا تھا اور اسے نصاب کا اہم حصہ تصور کیا جاتا تھا۔ عام لوگ پہلے ہی انگریزوں سے متنفر تھے، وہ ایسے سکولوں سے وحشت زدہ ہونے لگے، کیونکہ انہیں صاف نظر آ رہا تھا کہ اب ان کے مذاہب بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔ ایسے حالات میں خاص طور پر مسلمانوں میں شدید ردعمل ہوا اور مسلمان علماء نے ان اسکولوں میں تعلیم کے خلاف فتوے جاری کر دیے۔ انہی ایام میں حکومت نے کسی بھی سرکاری نوکری کے لیے انگریزی تعلیم کی بنیادی سند کو لازمی قرار دے دیا۔ مسلمانوں کے لیے یہ صورتحال دوہری تلوار کی طرح تھی۔ اگر وہ انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تو انہیں ان کے خیال کے مطابق اپنی ثقافت اور مذہب سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا، وگرنہ دوسری صورت میں بے روزگاری کا زہر حلق سے اتارنا پڑتا تھا۔

  3. ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں عیسائیت کے فروغ کے لیے خصوصی کوششیں کی گئیں۔ ۱۸۳۷ء میں ایک خوفناک قحط میں یتیم ہونے والے مقامی بچوں کو عیسائی مشنریوں کے سپرد کر دیا گیا، تاکہ وہ ان کی پرورش ایک عیسائی کے طور پر کریں۔ اس کے علاوہ عیسائی مشنری مقامی آبادی کی مالی مشکلات کو بھی عیسائیت کی تبلیغ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتے تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی قوانین کے مطابق اگر کوئی شخص اپنا مذہب بدل لے تو وہ وراثت کے حقوق سے محروم ہو جاتا تھا، انگریزوں نے اس قانون کو بدل دیا اور تبدیلی مذہب سے قانونِ وراثت کو علیحدہ کر کے عیسائیت کے فروغ کے لیے راہیں صاف کر دیں۔
(ماخوذ از ”تاریخِ پاکستان“ مرتبہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ، لاہور)
   
2016ء سے
Flag Counter