الحاج سید امین گیلانی کے ساتھ ایک شام

   
۲۲ مارچ ۲۰۰۳ء

پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمان اختر نے ۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء کو باغبانپورہ لاہور میں اپنی رہائشگاہ پر تحریک آزادی کے نامور شاعر الحاج سید امین گیلانی کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا۔ قاری صاحب نے نیا مکان تعمیر کیا ہے جس میں وہ منتقل ہوئے ہیں، اس سے قبل وہ مسجد کی رہائشگاہ میں رہتے تھے، یہ تقریب نئے مکان کی خوشی میں بھی تھی اور الحاج سید امین گیلانی کے اعزاز میں بھی تھی، جس میں لاہور کے سرکردہ علماء کرام مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا امجد خان، مولانا میاں عبد الرحمان، مولانا حاجی انیس الرحمان قریشی، حافظ ذکاء الرحمان اختر اور دیگر بہت سے دینی رہنماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی۔ الحاج سید امین گیلانی اور ان کے فرزند سید سلمان گیلانی نے جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے مخصوص انداز میں ہدیۂ نعت پیش کر کے حاضرین کے جذبات کو گرمایا اور ایمان کو حرارت بخشی۔ سچی بات ہے ایک عرصہ کے بعد اس طرح کی ایک محفل نصیب ہوئی جس طرح کی مجالس میں بلاشبہ ایمان کو تازگی ملتی ہے۔

سید امین گیلانی اس وقت ۸۰ برس سے اوپر عمر کے پیٹے میں ہیں لیکن ان کی یادداشت اور طرز ابھی تک پوری طرح کام کر رہی ہے، انہوں نے متعدد واقعات اور لطائف سنائے اور دو تین مختلف نعتیں سنا کر پرانی یادیں تازہ کیں۔ الحاج سید امین گیلانی کا شمار ان حضرات میں ہوتا ہے جنہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم پر برصغیر میں برطانوی استعمار کے خلاف تحریک آزادی میں سرگرم کردار ادا کیا۔ خواجہ عبد الرحیم عاجز مرحوم، سید امین گیلانی، جانباز مرزا مرحوم اور سائیں محمد حیات پسروری مرحوم اس دور کے معروف شعراء تھے، جنہوں نے نہ صرف جبر و استبداد کے اس دور میں آزادی کے ترانے گائے اور مجاہدین آزادی کی مدح خوانی کی بلکہ قادیانیت کے بارے میں مجلس احرار اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد میں بھی پرجوش حصہ لیا۔

مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا محمد امجد خان اور مولانا قاری جمیل الرحمان اختر نے اپنے خطابات میں سید امین گیلانی کی دینی و ملی خدمات کا ذکر کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ مجھے بھی اظہار خیال کے لیے کہا گیا اور میں نے چند معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب سے جب فراغت حاصل کی اور قریش مکہ بہت سے عرب قبائل کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر بھی مدینہ منورہ کے محاصرہ میں کامیابی حاصل نہ کر سکے تو صحابہ کرامؓ کے ایک اجتماع میں جناب نبی اکرمؐ نے اس صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے دو باتیں فرمائیں:

  • ایک یہ کہ اب قریش مکہ کو مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوگی اور اب وہ ادھر نہیں آئیں گے، بلکہ اب ہم مکہ مکرمہ کی طرف جائیں گے۔
  • دوسری بات یہ فرمائی کہ اب قریش تمہارے خلاف تلوار کی جنگ نہیں لڑیں گے بلکہ زبان کا ہتھیار استعمال کریں گے اور ان کے خطباء و شعراء عرب قبائل میں تمہارے خلاف شعر و خطابت کے ذریعے نفرت کی آگ بھڑکائیں گے۔

یہ کہہ کر جناب نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ تلوار اور نیزے کی جنگ میں تو تم میرے ساتھ تھے، اب زبان کی اس جنگ میں کون میرا ساتھی ہو گا؟ روایات میں آتا ہے کہ اس پر تین صحابیؓ کھڑے ہوئے، تینوں کا تعلق انصار مدینہ سے ہے، تینوں اچھے شاعر تھے۔ انہوں نے کھڑے ہو کر جناب رسول اکرمؐ کو یقین دلایا کہ یہ جنگ وہ لڑیں گے۔ یہ تین بزرگ (۱) حضرت حسان بن ثابتؓ، (۲) حضرت کعب بن مالکؓ، اور (۳) حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ تھے جنہوں نے شعر و ادب کی یہ جنگ لڑی۔

میں اسے میڈیا کی جنگ کہا کرتا ہوں کیونکہ اس دور کا میڈیا یہی تھا۔ ان تین صحابہ کرامؓ نے یہ جنگ اس شان سے لڑی کہ حضرت کعب بن مالکؓ کفار کی ہجو کیا کرتے تھے، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ رزمیہ شاعری کرتے تھے، اور حضرت حسان بن ثابتؓ جناب نبی اکرمؐ کی نعت و مدح کے ساتھ کافروں کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے۔

بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ بسا اوقات حضرت حسان بن ثابت مسجد نبویؐ میں نبی کریمؐ کی موجودگی میں منبر پر کھڑے ہو کر اشعار پڑھتے تھے اور کافروں کی خرافات کا جواب دیتے تھے، جبکہ حضورؐ اور سامنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ بیٹھے داد دیا کرتے تھے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ایک موقع پر جناب رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ حسانؓ اور پڑھ! جبریلؑ تمہاری مدد کے لیے پشت پر کھڑے ہیں۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے، اونٹ کی ناقہ کی مہار حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کے ہاتھ میں تھی اور وہ ساتھ ساتھ اپنے اشعار اور رجز پڑھتے جا رہے تھے۔ جب کعبہ سامنے آیا تو حضرت عمرؓ نے آگے ہو کر آہستہ آواز میں ان سے کہا کہ اب شعر پڑھنا روک دو کعبۃ اللہ سامنے ہے۔ آنحضرتؐ نے یہ بات سن لی اور حضرت عمرؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ عمرؓ! اسے چھوڑ دو اور اشعار پڑھنے دو، بخدا اس کے اشعار کافروں کے سینوں میں تیروں سے زیادہ نشانے پر لگ رہے ہیں۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ میڈیا کی یہ جنگ شعر کے محاذ پر ان تین بزرگوں نے اور خطابت کے محاذ پر حضرت ثابت بن قیسؓ نے لڑی جو انصار کے خطیب تھے، انہیں بارگاہ رسالت کے سرکاری خطیب ہونے کا شرف حاصل تھا، اور سب سے پہلے انہیں خطیب الاسلام کا خطاب دیا گیا تھا۔

میں نے ان بزرگوں کا واقعہ اس لیے اس محفل میں عرض کیا ہے کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو تحریک ختم نبوت کا محاذ گرم تھا اور مجھے اپنے بچپن کے واقعات میں جو سب سے پہلا واقعہ اب تک یاد ہے وہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی گرفتاری کا ہے جو انہوں نے تحریک ختم نبوت کے لیے خود پیش کی تھی۔ وہ منظر ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے، مجھے اس کے بعد تحریک ختم نبوت، تحریک نفاذ شریعت اور مختلف فتنوں کے تعاقب کی جدوجہد کے کئی مراحل سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ اس دور میں تین شاعر ہمارے تحریکی اسٹیجوں پر سب سے نمایاں تھے، اور الحاج سید امین گیلانی، الحاج جانباز مرزا مرحوم، اور سائیں محمد حیات پسرور مرحوم شعر کی زبان میں ہمارے جذبات کو گرمایا کرتے تھے۔

مجھے وہ وقت یاد ہے جب ایوبی آمریت کے خلاف ہمارے شیخ و مرشد حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ اور ان کے رفقاء کو، جن میں حضرت مولانا محمد ابراہیم آف انارکلی اور دیگر علماء شامل تھے، لاہور پولیس نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور جمعۃ الوداع کے روز جلوس نکالنے پر نہ صرف انہیں گرفتار کر لیا تھا بلکہ شدید لاٹھی چارج کیا تھا جس سے حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی تھی اور پھر ساری عمر ریڑھ کی ہڈی کی انہیں تکلیف رہی۔ پولیس کے اس تشدد پر احتجاج کے طور پر اس سے اگلے جمعہ کو حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی قیادت میں شیرانوالہ گیٹ لاہور سے باہر جمعیۃ علماء اسلام نے زبردست مظاہرہ کیا تھا جس نے ایوبی آمریت کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اس موقع پر الحاج سید امین گیلانی نے منظوم جذبات کا جس طرح اظہار کیا اس کا منظر ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے اور ان کا یہ شعر میرے کانوں میں گونج رہا ہے کہ:

نور دیدہ وہ احمد علی کا
خود ولی اور بیٹا ولی کا
ماریں ظالم اسے تازیانہ
اٹھ بھی اب قوم کے نوجوان
اٹھ بھی اٹھ کر بدل دے زمانہ

ہماری دینی و ملی تحریکات میں ان شعراء کا بڑا کردار ہے اور ان کی جدوجہد تاریخ کے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالٰی مرحوم بزرگوں کی مغفرت فرمائیں اور الحاج سید امین گیلانی کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter