آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل صاحب نے اپنی قائم کردہ ’تحریکِ اتحادِ پاکستان‘‘ کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے ایک حالیہ مضمون میں اس بات پر زور دیا ہے کہ آج کے دور میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔ میثاقِ مدینہ کے بارے میں ان کے علاوہ بھی بہت سے دانشور کچھ عرصے سے یہ بات کہتے آ رہے ہیں اور مختلف حوالوں سے میثاقِ مدینہ پر تحقیقات سامنے آ رہی ہیں جو بلاشبہ علمی و تحقیقی کاوشوں کی حیثیت سے انتہائی قابلِِ قدر ہیں۔
میثاقِ مدینہ اس معاہدے کا نام ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے بعد وہاں کے یہودی قبائل کے ساتھ کیا تھا، اور جس میں مدینہ منورہ کو ایک باقاعدہ ریاستی شکل دیتے ہوئے یہود کے ساتھ کچھ باہمی معاملات طے کیے گئے تھے۔ مدینہ منورہ میں، جو اس وقت یثرب کہلاتا تھا، یہود کے تین بڑے قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنوقریظہ آباد تھے اور تینوں اس معاہدے میں شریک تھے۔ اس لحاظ سے یہ ایک تاریخی دستاویز ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خود جناب نبی اکرمؐ کے دور میں طے پانے والا تحریری معاہدہ ہے، اور اس اعتبار سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ اسے اسلامی ریاست کی سب سے پہلی اور بنیادی دستاویز بننے کا شرف حاصل ہے۔ لیکن اسے آج کے دور میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے حتمی اور فیصلہ کن بنیاد کے طور پر قبول کرنے کے نظریے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا اور آج کی صحبت میں اسی پہلو پر کچھ عرض کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ ہجرت کے پہلے سال ہوا، جبکہ اسلامی احکام و قوانین کا بیشتر حصہ ابھی نازل نہیں ہوا تھا، کیونکہ مکی زندگی میں وحی الٰہی کا زیادہ حصہ دعوت، عقائد اور فکری تطہیر سے متعلق تھا، اور عملی زندگی سے متعلق احکام و قوانین اکثر و بیشتر ہجرت کے بعد مدنی زندگی کے دس سالہ دور میں نازل ہوئے، جو اس معاہدے کے بعد تھے۔ اس لیے میثاق مدینہ کو اسلامی ریاست کی تشکیل میں حتمی دستاویز قرار دینے سے اس کے بعد نازل ہونے والی وحی الٰہی سے ہم عملاً لاتعلق ہو جاتے ہیں، اور ان احکام و قوانین کو اس دستاویز کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی جو اس معاہدے کے بعد مسلسل دس سال تک نازل ہوتے رہے۔
پھر عملی صورتحال بھی یہ ہے کہ ہجرت کے بعد ابتدائی طور پر نافذ ہونے والے متعدد احکام مستقل طور پر باقی نہیں رہے اور انہیں دوسرے احکام کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان ابتدائی قوانین کی حیثیت عبوری اور عارضی اقدامات کی تھی، جو مستقل قوانین کے نفاذ کے بعد خودبخود ختم ہو گئے، مثلاً:
- ہجرت کے بعد اہلِ اسلام کا قبلہ بیت المقدس قرار پایا تھا اور مسلمان کم و بیش سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا کرتے رہے، لیکن اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا اور مسلمانوں کو کعبۃ اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا، جو مکہ مکرمہ میں ہے اور اس وقت سے مسلسل مسلمانوں کا یہی قبلہ چلا آ رہا ہے۔ اب بیت المقدس ہمارا قبلۂ اول ہے، اس کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کرنے کا ڈیڑھ سالہ دور ہماری تاریخ کا ایک یادگار دور ہے اور بیت المقدس کے ساتھ ہماری عقیدت و محبت کی ایک بڑی وجہ ہے، لیکن بیت المقدس اب ہمارا قبلہ نہیں ہے اور اگر کوئی شخص اس دور کے حوالے سے یہ کہہ کر کہ ہجرت کے بعد بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا گیا تھا، بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرے گا، تو کسی مسلمان کو اس میں تردد نہیں ہے کہ اس کی نماز نہیں ہو گی۔
- اسی طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد اپنے ساتھ آنے والے مہاجرین کی مدینہ منورہ میں آباد کاری کا یہ انتظام فرمایا کہ مقامی آبادی یعنی انصارِ مدینہ کے ساتھ ان کی مواخاۃ کرا دی، اور ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا کر مہاجرین کو انصارِ مدینہ میں تقسیم کر دیا۔ جس کی وجہ سے مہاجرین مقامی آبادی پر کوئی بوجھ بنے بغیر اس کے ساتھ ضم ہو گئے۔ لیکن یہ ایک عارضی انتظام تھا جو زیادہ دیر باقی نہ رہا، حتیٰ کہ اس مواخاۃ کی صورت میں جن حضرات کو آپس میں بھائی بھائی بنایا گیا تھا وہ ابتدائی انتظام میں ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے، مگر قرآن کریم میں وراثت کے مستقل احکام کے نفاذ کے بعد یہ عارضی صورتحال باقی نہ رہی اور مواخاۃ اور اس سے متعلقہ احکام عملی زندگی سے نکل کر اسلامی تاریخ کا ایک قابلِ قدر اور یادگار حصہ بن گئے۔
میثاقِ مدینہ کی حیثیت بھی اس سے مختلف نہیں ہے اور وہ نزولِ وحی کے تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عبوری اور عارضی انتظام ہی قرار پاتا ہے جسے حتمی اور فیصلہ کن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ اس کی بہت سی شقیں بعد میں باقی نہیں رہیں جن میں سے ایک دو کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے، مثلاً:
- یہ معاہدہ اصولی طور پر یہود کے ساتھ ’’دوستی کا معاہدہ‘‘ کہلاتا ہے، اور سیرت کی بعض کتابوں میں اسے معاہدہ کی ایک شق کے طور پر بھی درج کیا گیا ہے کہ ’’مسلمان اور یہودی آپس میں دوست رہیں گے‘‘۔ لیکن بعد میں قرآن کریم نے واضح طور پر یہود کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیا اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ کسی درجے کی دوستی سے صریحاً منع کر دیا۔
- اسی طرح اس معاہدہ کی ایک شق میں یہودیوں کو مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں جان و مال کے ساتھ شرکت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، لیکن بعد میں یہ صورتحال برقرار نہیں رہی اور جہاد میں شرکت سے غیر مسلموں کو مستثنیٰ قرار دینے کا حکم نازل ہو گیا۔
- اس کے علاوہ حالات کی یہ تبدیلی بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جس وقت یہود کے ساتھ یہ معاہدہ ہو رہا تھا، مالیات کے شعبہ میں اسلامی احکام کا بہت بڑا حصہ ابھی نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اس معاہدہ میں مالی معاملات سے تعرض نہیں کیا گیا، لیکن اس کے آٹھ سال بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس کی زبان میثاقِ مدینہ سے بالکل مختلف ہے، اور اس میں یہ شرط بھی موجود ہے کہ اگر نجران کے عیسائیوں نے سودی لین دین کیا تو یہ معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
اس لیے محترم جنرل حمید گل صاحب اور میثاقِ مدینہ پر کام کرنے والے دیگر اہلِ دانش سے گزارش ہے کہ وہ اس تاریخی دستاویز پر ضرور کام کریں لیکن ایک ’’یادگار‘‘ کے طور پر، کیونکہ تاریخ میں اس کی حیثیت یہی ہے۔ زندہ قومیں اپنی یادگاروں کو تاریخ کے ایوان میں پوری اہمیت و عقیدت کے ساتھ محفوظ رکھا کرتی ہیں اور یہ یادگاریں قوموں کا قابلِ فخر سرمایہ ہوتی ہیں، لیکن مدینہ منورہ کے یہودیوں کے ساتھ کیے گئے اس عبوری معاہدے کو آج کے دور میں اسلامی ریاست کی تشکیل کی حتمی بنیاد قرار دے کر اس کے بعد دس سالہ مدنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلسل نازل ہونے والے احکام و قوانین کی نفی نہ کریں، کیونکہ اسلامی ریاست کی مکمل اور حتمی شکل مدنی زندگی کا ابتدائی دور نہیں، بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا آخری دور ہے۔ جس کی مکمل اور منظم شکل ’’خلافتِ راشدہ‘‘ کی صورت میں احادیث اور تاریخ کے ذخیرے میں پوری طرح محفوظ اور موجود ہے، اور وہی اس کے بعد قیامت تک کے ادوار میں کسی اسلامی ریاست کی تشکیل کی واحد حتمی بنیاد ہے، جس سے ہٹ کر قائم ہونے والی کوئی بھی ریاست ایک مکمل اور مثالی اسلامی ریاست کہلانے کی حقدار نہیں ہو سکتی۔