گزشتہ دنوں خلافت اسلامیہ کے احیا کے جذبہ کے ساتھ دو حلقوں کی طرف سے جدوجہد کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایک طرف تنظیم اسلامی پاکستان کے سربراہ محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد نے ’’تحریک خلافت‘‘ بپا کرنے کا عزم کا اعلان کیا ہے اور دوسری طرف مولانا مفتی غلام مسرور نورانی قادری کی سربراہی میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے خلافت کی بحالی کے لیے علماء اور عوام کو منظم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
جہاں تک خلافت اسلامیہ کے احیا اور بحالی کا تعلق ہے یہ ایک انتہائی مبارک اور مقدس جذبہ ہے اور اسلام کے لیے مذکورہ بالا دونوں بزرگوں اور ان کے رفقاء کے خلوص میں بھی کوئی کلام نہیں ہے۔ لیکن کسی قسم کی فکری و علمی تیاری کے بغیر یکدم ’’خلافت‘‘ کے نام پر عوام کو مجتمع ہونے کی دعوت دینا ہمارے خیال میں قبل از وقت ہے جس کے فوائد و منافع سرِدست محل نظر ہیں۔ خلافت کے حوالے سے عوام بلکہ علماء اور سیاسی دانشوروں کی ذہن سازی کے بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں، اور انسانی اجتماعیت کے جدید تقاضوں کے پس منظر میں دو چار بہت سخت مقامات ابھی موجود ہیں جنہیں کامیابی سے عبور کیے بغیر محض ’’احیائے خلافت‘‘ کے دعوے اور پرخلوص جذبات کے سہارے ان مراحل کے خلا کو پر نہیں کیا جا سکتا۔
خود ہمارا نقطہ نظر یہی ہے کہ ہمیں اپنا سیاسی نظام کے لیے درآمدی اصطلاحات کا سہارا اب ترک کر دینا چاہیے اور پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے سیاسی نظاموں کو خالص اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی فکر کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے پہلے فکری اور عملی کام کی ضرورت ہے اور جدید سیاسی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ’’خلافت‘‘ کے ایک واضح ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہے۔ اس کے بغیر خلافت کے مقدس نام پر کسی نئی تحریک کا نتیجہ بھی شاید نفاذِ اسلام کی اس جدوجہد سے مختلف نہ ہو، جسے ہم کوئی واضح ہدف، ترجیحات اور ترتیب طے کیے بغیر تینتالیس سال سے محض جذبات اور عقیدت کے سہارے جاری رکھے ہوئے ہیں۔