شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی یاد میں ۳۰ اکتوبر کو خانیوال میں سیمینار منعقد ہو رہا ہے جس میں مولانا فضل الرحمان مہمان خصوصی ہوں گے اور مختلف ارباب فکر و دانش حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت مفتی صاحبؒ کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اس سیمینار کا اہتمام جناب اکرام القادری اور ان کے رفقاء کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے دور میں جمعیۃ علماء اسلام کے آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے سالہا سال تک مدیر رہے ہیں۔ اکرام القادری صاحب نے مجھ سے بھی فرمایا بلکہ اصرار کیا کہ میں اس سیمینار میں ضرور شریک ہوں مگر اسے میری کمزوری سمجھ لیں یا مجبوری کہ پاکستان کی حدود میں ہوں تو حتی الوسع گوجرانوالہ سے جمعہ کی غیر حاضری نہیں کرتا اور اسباق کے ناغے سے بچنے کی بھی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں اس لیے حاضری سے معذرت کر لی جس پر قادری صاحب ناراض ہیں، چنانچہ اس ’’قلمی حاضری‘‘ کے ذریعے ان کی ناراضگی کو کم کرنے اور اپنے دو بزرگوں کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اکرام القادری صاحب نے جب مجھے خانیوال آنے کی دعوت دی تو فرمایا کہ یہ سیمینار دو شخصیتوں کے حوالے سے منعقد کیا جا رہا ہے، ایک شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور دوسرے حضرت مولانا مفتی محمودؒ، آج کے عمومی حالات ہم سے تقاضا کر رہے ہیں کہ ہم اپنی مشکلات و مسائل اور معروضی حالات کا حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے ان دو بزرگوں کی جدوجہد اور تعلیمات کا مطالعہ کریں اور موجودہ دلدل سے نکلنے کے لیے ان سے راہنمائی حاصل کریں۔
شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم ہیں اور دیوبند کے مسلک و مشرب اور ذوق و مزاج کے تعارف کے لیے آئیڈیل اور علامت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ ’’دیوبندیت‘‘ کیا ہے تو میں اسے مشورہ دیتا ہوں کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی زندگی، جدوجہد اور تعلیمات کا بغور مطالعہ کر لو، اسی کا نام دیوبندیت ہے۔ یہی وہ ماڈل ہے جو دیوبند کی مسجد چھتہ میں انار کے درخت کے سائے میں مدرسہ عربیہ کے نام سے درسگاہ کے آغاز کرنے والے چند قدسی صفات بزرگوں کے پیش نظر تھا اور تاریخ کے باشعور طالب علم کے طور پر مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ اگر کسی شخصیت کو دیوبند کی علامت اور تعارف کے لیے پیش کرنا پڑے تو ہمارے پاس اس کے لیے شیخ الہندؒ سے بہتر کوئی شخصیت نہیں ہے۔
شیخ الہندؒ کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کے بارے میں گزارشات پیش کی جا سکتی ہیں اور پیش کی جانی چاہئیں لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں ان کی زندگی، جدوجہد اور تگ و تاز کے اس آخری مرحلے کو بطور خاص سامنے لانے کی ضرورت ہے جس میں انہوں نے برطانوی استعمار سے جنوبی ایشیا کو آزادی دلانے کی تحریک کا رخ مسلح جدوجہد سے موڑ کر پر امن جدوجہد کی طرف کر دیا تھا۔ اور اس کے بعد دیوبندی فکر کی جماعتوں نے آزادی کے حصول اور پھر آزادی کے مقاصد کی تکمیل کے لیے عدم تشدد کو بنیاد بنا کر اپنی تحریک کو آگے بڑھایا اور اس میں کامیابی کے ساتھ پیشرفت بھی کی۔
برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی حکومت کے تسلط کے بعد ایک عرصے تک آزادی کی جنگیں مسلح طور پر لڑی گئیں۔ سراج الدولہ، سلطان ٹیپو، حافظ رحمت خان، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، ۱۸۵۷ء کے مجاہدین، حاجی شریعت اللہ، تیتومیر، سردار احمد خان کھرل، پیر صبغت اللہ راشدی شہید (پیر پگارا) رحمہم اللہ تعالٰی اور دیگر بہت سے مجاہدین ہیں جنہوں نے ہتھیار اٹھائے، جذبۂ جہاد کے ساتھ برطانوی استعمار کا مقابلہ کیا اور بے پناہ قربانیاں دیں۔ اسی سلسلے کی آخری کڑی حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال تھی جس میں جرمنی، افغانستان، جاپان اور ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے تعاون سے دہلی کی انگریز حکومت کے خلاف مسلح بغاوت اور انقلاب کا پروگرام طے پا چکا تھا مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور مالٹا جزیرے میں کم و بیش چار سال کی نظربندی کے بعد حضرت شیخ الہندؒ وطن واپس پہنچے تو وہ علماء دیوبند کے حلقوں میں عدم تشدد کے فلسفے پر مبنی پراَمن اور سیاسی جدوجہد کے نقیب کے طور پر سامنے آئے اور انہوں نے آزادی کی جدوجہد کا رخ عسکریت سے پر امن تحریک کی طرف موڑ دیا۔
میں جنوبی ایشیا میں ولی اللّٰہی مکتب فکر کے حوالے سے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کو عسکریت اور تشدد کی تحریکوں کا آخری اور عدم تشدد اور پرامن تحریکوں کا پہلا علمبردار سمجھتا ہوں۔ اور پھر مفکر انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری، رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہم اللہ تعالٰی اور ان کے رفقاء کی جدوجہد کا رخ وہی رہا جو شیخ الہندؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں دیا تھا۔ میں پورے شرح صدر اور دیانتداری کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ ہمارے آج کے حالات بھی اسی بات کے متقاضی ہیں کہ ہم حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی اور جدوجہد کے اس پہلو کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کریں اور دینی جدوجہد کو کسی ایک متعین رخ پر لانے کے لیے اس سے راہنمائی حاصل کریں۔
مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ بھی شیخ الہندؒ کی اسی تحریک اور فکر سے تعلق رکھنے والے دانشور، پیروکار اور مدبر راہنما تھے۔ شیخ الہندؒ کے سامنے آزادی کا حصول تھا جبکہ مولانا مفتی محمودؒ کے پیش نظر آزادی کے مقاصد کا حصول تھا اور وہ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ جب تک پاکستان میں صحیح معنوں میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ عمل میں نہیں آجاتا، ہماری آزادی مکمل نہیں ہوگی۔ پاکستان میں شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مجاہد اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہم اللہ تعالٰی اور ان جیسے بزرگوں نے جو آواز لگائی تھی کہ پاکستان کی آزادی کی تکمیل نفاذ اسلام میں ہے اور اس کا تحفظ بھی نفاذ اسلام کے ذریعے ہی ہوگا۔ آج اس آوازۂ حق کی صدائے بازگشت ہم اپنے اردگرد شب و روز سن رہے ہیں اور اس کے اثرات عملاً دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ سے مسلسل گریز کی وجہ سے ہم قومی سطح پر نہ صرف یہ کہ آزادی کے مقاصد کی طرف کوئی پیشرفت نہیں کر پا رہے بلکہ سرے سے ہماری آزادی اور قومی خودمختاری خطرے میں پڑ گئی ہے، اور آزادی و خودمختاری کی بحالی کے لیے ایک نئی قومی تحریک وقت کی سب سے بڑی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
اسلام اور پاکستان کے لیے مولانا مفتی محمودؒ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے مگر ان میں سے موجودہ حالات کے تناظر میں صرف ایک کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ملک کے موجودہ دستور کو اسلامی بنیادیں فراہم کرنے اور دستور میں اسلامی دفعات شامل کرانے میں جن شخصیات کا کردار فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے ان میں مولانا مفتی محمودؒ کی جدوجہد، تدبر اور جرأت و حوصلہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور دینی جماعتوں نے انہی کی قیادت میں دستور پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کا نظریاتی دستور بنانے کی منزل حاصل کی تھی۔ مگر آج اسی دستور کی اسلامی حیثیت اور اسلامی دفعات متوقع ترمیمات کی زد میں ہیں، دستور پاکستان پر خود پارلیمنٹ کی قائم کردہ کمیٹی نظرثانی کر رہی ہے اور اس کی تجاویز اور سفارشات کچھ عرصہ میں پارلیمنٹ کے سامنے آنے والی ہیں۔ اب تک کی خبروں اور رپورٹوں کے مطابق قرارداد مقاصد کے ساتھ ساتھ تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت سے متعلق دفعات کو تبدیل کر دینے کی سفارشات اور ترامیم سامنے آچکی ہیں۔ اور یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم دستور کی اسلامی دفعات کے مطابق ملک میں قانون سازی کی طرف پیشرفت کی بجائے خود ان دستوری دفعات کے تحفظ کے لیے پیش قدمی کی بجائے دفاع کی پوزیشن پر کھڑے ہیں۔
خانیوال میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی یاد میں منعقد ہونے والا یہ سیمینار اگر ان دو بزرگوں کی جدوجہد کے ان دو اہم ترین پہلوؤں کے حوالے سے قوم کو کوئی واضح پیغام اور دینی حلقوں کو کوئی ٹھوس لائحہ عمل دے سکے تو یہ ان دونوں بزرگوں کو صحیح خراج عقیدت ہوگا اور ان کی روحیں بھی یقیناً بہت خوش ہوں گی، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔