اپنا اپنا ’’متحدہ محاذ‘‘ اور اپنی اپنی ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘

   
۳۱ مئی ۱۹۹۸ء

میاں محمد نواز شریف نے سابقہ دورِ اقتدار کی بات ہے کہ جب ان کی حکومت کو برطرف کر کے جناب بلخ شیر مزاری نے عبوری وزیر اعظم کا منصب سنبھالا اور نئے انتخابات کا اعلان کیا تو مختلف دینی جماعتوں کے سرکردہ حضرات لاہور میں مولانا عبد الرؤف ملک کی رہائشگاہ پر جمع ہوئے۔ ان میں مفتی غلام سرور قادری، میجر جنرل (ر) حافظ محمد حسین انصاری، حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا عبدالمالک خان، مولانا عبد الرؤف ملک اور متعدد دیگر احباب کے علاوہ راقم الحروف بھی تھا۔

ہمارا خیال تھا کہ قومی سیاست میں حصہ لینے والی دینی جماعتوں کو متحدہ محاذ بنا کر انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا جائے، اور ہمارا تجزیہ اس وقت یہ تھا کہ اگر جمعیت علماء اسلام کے دونوں دھڑے، جمعیت علماء پاکستان کے دونوں دھڑے، جماعتِ اسلامی، جمعیتِ اہلحدیث اور دیگر دینی تنظیمیں متحدہ محاذ بنا کر جداگانہ تشخص کے ساتھ انتخاب کے معرکہ میں اتریں تو بیس سے پچیس تک سیٹیں قومی اسمبلی میں انہیں مل جائیں گی۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو اسمبلی میں بیلنس پاور ان کے ہاتھ میں ہو گی اور ان کے بغیر کوئی حکومت بن سکے گی اور نہ ہی کوئی قانون پاس ہو سکے گا۔ پھر اگر اگلے انتخابات تک یہ جماعتیں متحد رہنے کا کارنامہ بھی سرانجام دے دیں تو اس سے آگے اور بہت سے مراحل بھی ان کے لیے زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوں گے۔

اس تجزیہ اور عزم کے ساتھ ہم نے ان جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ملاقاتوں کا پروگرام بنایا اور جن راہنماؤں سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں ان میں جناب قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا عبد الستار خان نیازی، مولانا سمیع الحق، مولانا اعظم طارق اور مولانا معین الدین لکھوی بطور خاص قابلِ ذکر ہیں، لیکن معاملہ کو آگے نہ بڑھتا دیکھ کر ہمیں خاموش ہو جانا پڑا۔ ہمارے تجزیے اور موقف سے کسی کو اختلاف نہ تھا لیکن اس سے آگے کی عملی ترجیحات کا کوئی ایسا نقشہ نہ بن سکا جو سب کو قبول ہوتا۔

راقم الحروف نے یہ صورتحال دیکھ کر رختِ سفر باندھا اور لندن جا پہنچا۔ ادھر انتخابی مہم زوروں پر تھی اور ادھر میں لندن میں بیٹھا تھا۔ بہت سے دوستوں کو تعجب ہوا اور ایک مجلس میں کچھ دوستوں نے پوچھ ہی لیا کہ پاکستان میں انتخابات ہو رہے ہیں اور تم یہاں بیٹھے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں اپنا حصہ جتنا میرے بس میں تھا ڈال آیا ہوں۔ ۔۔۔۔ میں نے متحدہ محاذ کے لیے کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے مختلف جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ملاقاتوں کا حال سنا دیا۔ اس پر سوال ہوا کہ قائدین کا جواب کیا تھا؟ میں نے بے ساختہ کہا کہ سب نے ہماری بات مان لی۔ یہ بات سن کر مجلس میں بیٹھے سب دوست چونکے کہ وہ کیسے؟ میں نے عرض کیا کہ سب نے اپنا اپنا متحدہ محاذ بنا لیا ہے۔ اس پر مجلس میں ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا اور مزید سوالات سے میری جان چھوٹ گئی۔

ان انتخابات پر ایک نظر ڈال لیجیے کہ قاضی حسین احمد نے الگ اسلامک فرنٹ کا پرچم بلند کر رکھا تھا، مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا فضل الرحمٰن نے اسلامی جمہوری محاذ بنا لیا تھا، مولانا سمیع الحق نے متحدہ دینی محاذ کی داغ بیل ڈال لی تھی اور کچھ دینی جماعتیں ابھی تک اسلامی جمہوری اتحاد کے سایہ عاطفت میں پناہ گزین تھیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات کے بعد دینی جماعتوں کی قومی اسمبلی میں مجموعی سیٹوں کی تعداد غیر مسلم اقلیتوں سے بھی کم تھی ۔۔۔۔ سیاست کی ریت دینی جماعتوں کی قیادت کی مٹھی سے پھسل کر رہ گئی تھی۔

بشپ جان جوزف کی مبینہ خود کشی کے بعد ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے قانون کی منسوخی کے لیے امریکی دباؤ اور بھارت کے پے در پے ایٹمی دھماکوں سے پیدا شدہ صورت حال میں مختلف رہنماؤں کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنسوں کا حال اور ان کے نتائج دیکھ کر یہ سارا قصہ ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہو گیا۔

ان دونوں حوالوں سے اس وقت قوم جس شدید بحرانی کیفیت سے دو چار ہے اس کا تقاضا تھا کہ تمام سیاسی و قومی رہنما اپنے اپنے شخصی تحفظات اور ترجیحات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سر جوڑ کر بیٹھتے اور قوم کو اس نازک مرحلہ میں اجتماعی قیامت مہیا کرتے، مگر عملاً ایسا نہ سکا۔ مولانا سمیع الحق نے الگ اے پی سی بلا لی، قاضی حسین احمد صاحب نے آل پارٹیز کانفرنس کے نام سے الگ محفل سجائی، ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے مستقل اے پی سی کا ۔۔۔۔ ان کانفرنسوں کا جو فائدہ ان لیڈروں کے ذہن میں تھے وہ یقیناً انہیں مل چکا ہو گا کہ اخبارات میں بڑی بڑی تصویریں شائع ہو گئیں، شہ سرخیوں کے ساتھ خبریں لگ گئیں اور قومی سیاست میں نمبر بن گئے مگر عام شہریوں پر جو بیتی اس کا تھوڑا سا مرثیہ اپنے شہر کے حوالہ سے پڑھنا چاہوں گا۔

راقم الحروف نے گوجرانوالہ شہر کے مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام کا اجلاس شہر کی مرکزی جامع مسجد میں طلب کیا، جو بہت کامیاب اور بھرپور تھا۔ دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے علاوہ تاجر تنظیموں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ ایک عرصہ کے بعد ان حضرات کو جمع دیکھ کر بعض دوست بہت خوش ہو رہے تھے۔ اجلاس میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے قانون اور ایٹمی دھماکے کے حق میں شہر میں ایک دن کی مکمل ہڑتال کی جائے گی اور مشترکہ جلسہ عام بھی منعقد کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ’’کل جماعتی تحفظ ناموس رسالتؐ کمیٹی‘‘ قائم ہو گئی اور ہڑتال اور جلسہ کی تاریخ طے کرنے کے لیے سترہ مئی کو کمیٹی کا اجلاس طے پا گیا، مگر اس کمیٹی کا اجلاس ہونے سے پہلے مولانا سمیع الحق کی اے پی سی کی طرف سے تئیس مئی کی ملک گیر ہڑتال اور مولانا عبد الستار خان نیازی کی طرف سے تیس مئی کی ہڑتال کا اعلان اخبارات میں آ گیا، جس کے نتیجے میں اتحاد و اتفاق کی وہ فضا جو شہری سطح پر پوری طرح قائم ہو چکی تھی اس میں دراڑیں پڑ گئیں اور کمیٹی کوئی کام نہ کر سکی، جبکہ تاجر حضرات نے جو اس سے پہلے بھی ہڑتال سے پوری طرح متفق تھے صاف کہہ دیا کہ ہم آپ حضرات کے کہنے پر ایک دن کی مکمل ہڑتال کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن آپس میں اتفاق کر کے ایک تاریخ دیجیے۔

خیال تھا کہ قاضی حسین احمد صاحب کی اے پی سی اس کا کوئی حل نکال لے گی لیکن وہاں سے بھی کوئی واضح بات سامنے نہ آئی، جس کی وجہ سے تذبذب اور بے یقینی کا ماحول قائم رہا اور تئیس مئی کو ایک مظاہرے کے سوا شہر میں کوئی سرگرمی سامنے نہ آ سکی۔ وہ مظاہرہ بھی تنظیم الاخوان نے محنت کر کے منظم کر لیا اور مختلف مکاتب فکر کے چند سرکردہ علماء کرام نے ۔۔۔۔ سمیت اس میں شرکت کر کے اپنے آپ کو تسلی دی کہ ہم نے کچھ نہ کچھ حصہ ڈال لیا ہے، ورنہ دینی جماعتوں کے کسی مشترکہ پلیٹ فارم کی بات ہوتی تو شاید یہ بھی نہ ہو پاتا۔

سوال یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے مرکزی قائدین آخر حالات کی نزاکت اور قوم کی ضروریات کا اندازہ کرنے میں ۔۔۔۔ اور ہر مرحلہ پر انہیں قوم ۔۔۔۔ ہم آہنگی کی بجائے اپنی انا اور چودھراہٹ کو ۔۔۔۔ کیوں پریشان کرنے لگتا ہے؟ قوم جانکنی کے عالم میں ہے، اس کی خودمختاری اور آزادی داؤ پر لگ چکی ہے اور معاشی بدحالی اس کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، اس حال میں بھی ہمارے دینی رہنما اور مذہبی قائدین ”اپنا اپنا متحدہ محاذ اور اپنی اپنی اے پی سی“ کی پالیسی پر قائم ہیں اور شخصی ترجیحات کے خول سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ان سے اس کے سوا اور کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ ؏

ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
   
2016ء سے
Flag Counter