عالمی تہذیبی جنگ اور ہمارے محاذ

   
جامع مسجد مکرم اہل حدیث، ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ
۱۰ جولائی ۲۰۰۳ء

۱۰ جولائی ۲۰۰۳ء کو جامع مسجد مکرم اہل حدیث ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ میں جماعت الدعوۃ پاکستان کے زیر اہتمام ’’علماء کنونشن‘‘ منعقد ہوا جس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دینی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ جماعت الدعوۃ پاکستان کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید جماعت اسلامی پنجاب کے امیر حافظ محمد ادریس، مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پنجاب کے امیر مولانا محمد اعظم، مسجد مکرم کے خطیب مولانا اسعد محمود سلفی اور دیگر علمائے کرام کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے بھی خصوصی دعوت پر کنونشن سے خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوۃ! سب سے پہلے جماعت الدعوۃ پاکستان کا شکر گزار ہوں کہ اس محفل میں حاضری، آپ سے حضرات سے کچھ گزارشات پیش کرنے اور بہت سے علمائے کرام کی گفتگو سننے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر سے نوازیں اور ہم سب کو کچھ مقصد کی باتیں کہنے، سننے اور ان پر عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

یہ محفل علمائے کرام کی ہے اور موجودہ حالات میں ان کی ذمہ داریوں پر گفتگو اس کنونشن کا خصوصی موضوع ہے۔ جہاں تک علمائے کرام کے حوالہ سے موجودہ صورت حال کا تعلق ہے، مجھے ’’چومکھی لڑائی‘‘ کا محاورہ یاد آرہا ہے جس میں انسان کو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، چاروں طرف سے دشمنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سب سے بیک وقت لڑنا پڑتا ہے لیکن اس وقت دنیا میں اہل دین کو اور اسلام کی نمائندگی کرنے والوں کو جن محاذوں کا سامنا ہے اور جن جن مورچوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، اسے دیکھ کر اس محاورے کا دامن تنگ نظر آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ شاید اسے ڈبل کر کے بھی درپیش منظر کی پوری طرح عکاسی نہ کی جا سکے۔ مگر میں ان میں سے چند اہم محاذوں اور مورچوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن پر اس وقت دنیائے اسلام کے اہل دین کو محاذ آرائی درپیش ہے۔

پہلا مورچہ تو عالمی سطح کا ہے کہ عالمی قوتوں نے یہ بات طے کر رکھی ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اہل دین کو اقتدار اور قوت میں آنے سے ہر قیمت پر روکنا ہے اور یہ باقاعدہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔ آپ حضرات کے علم میں ہوگا کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی خلافت عثمانیہ بھی جرمنی کے ساتھ تھی اور جرمنی کی شکست کی وجہ سے وہ بھی شکست سے دوچار ہو گئی تھی۔ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے ایک طرف ترکوں کو ’’ترک نیشنل ازم‘‘ کے نام پر عربوں کے خلاف ابھارا گیا تھا اور دوسری طرف عربوں کو ان کی برتری کا احساس دلا کر ’’عرب قومیت‘‘ کا پرچم ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ میں خلافت عثمانیہ کے گورنر شریف حسین کو عرب خلافت کا لالچ دے کر ترکی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا تھا جس کی بغاوت کے بعد عرب علاقے ترکی کی دسترس سے نکل گئے تھے۔ فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔ عراق اور اردن پر شریف مکہ کے ایک ایک بیٹے کو بادشاہ بنا کر حجاز پر آل سعود کا قبضہ کرا دیا گیا تھا۔ اس دوران جنگ عظیم میں شکست کے بعد جب قسطنطنیہ یعنی استنبول پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو ترکوں کو ترکی کی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اتحادیوں کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ترکی کے قوم پرست لیڈروں کو اس شرط پر ترکی کا حکمران تسلیم کیا گیا کہ وہ:

  • ترکی کی حدود تک محدود رہیں گے۔
  • خلافت کو ختم کر دیں گے۔
  • ملک میں نافذ اسلامی قوانین منسوخ کر دیں گے۔
  • اور اس بات کی ضمانت دیں گے کہ آئندہ کبھی اسلامی قوانین نافذ نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی خلافت بحال کی جائے گی۔

مصطفی کمال اتاترک اور دیگر ترک قوم پرست لیڈروں نے ان شرائط کو قبول کر کے ترکی کا اقتدار سنبھالا اور ان شرائط پر عمل بھی کیا۔ آج بھی یہی صورت حال درپیش ہے اور مغربی ممالک اپنی ان شرائط پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تیاپانچہ اسی جرم میں کیا گیا ہے کہ انہوں نے اسلامی قوانین نافذ کر دیے تھے اور خلافت کے قیام کی طرف پیش رفت کر رہے تھے، اس لیے ہمارا سب سے بڑا محاذ یہ عالمی گٹھ جوڑ ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام میں اصل رکاوٹ ہے۔ اس محاذ سے عالم اسلام کی رائے عامہ کو آگاہ کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو بیدار کرنا اور اس گٹھ جوڑ کے خلاف منظم کرنا علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام انہوں نے ہی کرنا ہے۔ اور کوئی یہ کام نہیں کرے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی سے کوئی توقع رکھنی چاہیے۔

ہمارا دوسرا محاذ داخلی ہے اور ہمارے حکمران طبقے اور مغرب کی تہذیب وترقی سے مرعوب حلقے ہم سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اسلام کی کوئی ایسی نئی تعبیر وتشریح کی جائے جس میں اسلام کا پرچم بھی ہاتھ میں رہے، مغرب بھی ہم سے ناراض نہ ہو اور ہماری عیاشی، مفادات اور موجودہ زندگی کے طور طریقوں پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔ سود کی حرمت کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے بغیر ہماری تجارت نہیں چل سکتی، شراب کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں، ناچ گانے اور عریانی وفحاشی کی مخالفت کریں تو کلچر اور تہذیب کا سوال سامنے آ جاتا ہے اور نماز روزے کی پابندی کی طرف توجہ دلائیں تو زندگی کی مصروفیات کا بہانہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اب ایسا اسلام جس میں نماز کی پابندی ضروری نہ ہو، سود کو نہ چھیڑا جائے، شراب پر کوئی پابندی نہ ہو، اور ناچ گانے کے فروغ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو، ہماری سابق تاریخ میں تو اس کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اب اسے ’’روشن خیال اسلام‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے اور مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام کی سابقہ تعبیرات کو ترک کر کے اس ’’روشن خیالی اور ترقی پسندی‘‘ کو اپنا لیا جائے۔

میں اس کے جواب میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس قسم کے اسلام کا مطالبہ طائف والوں نے کیا تھا جس کا ذکر مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت النبی‘‘ میں قبیلہ ثقیف کے قبول اسلام کے تذکرہ میں کیا ہے کہ بنو ثقیف کا وفد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ آیا اور گزارش کی کہ ہم طائف والے اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری چند شرائط ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم شراب نہیں چھوڑ سکیں گے اس لیے کہ ہمارے ہاں انگور کثرت سے پیدا ہوتا ہے اور ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدار اسی پر ہے اس لیے شراب بنانا اور بیچنا ہماری معاشی مجبوری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم سود سے بھی دست بردار نہیں ہوں گے اس لیے کہ دوسری اقوام اور قبائل کے ساتھ ہماری تجارت سود کی بنیاد پر ہوتی ہے اور سود کو ختم کر دینے سے ہماری تجارت ٹھپ ہو کر رہ جائے گی۔ تیسری بات یہ کہ زنا کو چھوڑنا ہمارے لیے مشکل ہوگا اس لیے کہ ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے اور زنا کے بغیر ہمارے جوانوں کا گزارہ نہیں ہوتا اور چوتھی بات یہ ہے کہ ہم پانچ وقت نماز کی پابندی بھی نہیں کر سکیں گے۔ ہماری ان شرائط کو منظور کر کے آپ ہمیں مسلمان بنانا چاہیں تو ہم سارے طائف والے کلمہ پڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ سیرت النبی میں مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چاروں شرائط مسترد کر دیں اور بالآخر اہل طائف نے غیر مشروط طور پر اسی طرح مکمل اسلام قبول کیا جس طرح باقی اقوام نے کیا تھا۔ لیکن آج بھی ہمارے سامنے پھر ’’مشروط اسلام‘‘ کا مطالبہ کھڑا کر دیا گیا ہے اور شرطیں بھی کم وبیش وہی ہیں جو طائف والوں کی تھیں اس لیے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عام مسلمانوں کو اس صورت حال سے آگاہ کریں اور انہیں یہ بات دلائل سے اور سیرت نبوی کی روشنی میں سمجھائیں کہ اسلام وہی ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا تھا اور امت چودہ سو سال سے اس پر عمل کرتی آ رہی ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی قبول نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اسلام کے حصے بخرے کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام جب بھی نافذ ہوگا یا جسے بھی اسلام قبول کرنا ہوگا، پورے کا پورا قبول کرنا ہوگا اور اسلام کے کیے ایک صریح حکم کا انکار بھی پورے اسلام کا انکار متصور ہوگا۔

ہمارا تیسرا محاذ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا محاذ ہے جس نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایک طرف اسلامی احکام وعقائد اور قوانین کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے اور اسلامی قوانین پر اعتراضات ہوتے ہیں، دوسری طرف دینی قوتوں اور اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم جاری ہے اور انہیں دہشت گرد اور بنیاد پرست قرار دے کر ان کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور تیسری طرف بے حیائی، ناچ گانا، عریانی اور سفلی خواہشات کو ابھار کر نئی نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی اس یلغار کا سامنا بھی اہل دین نے ہی کرنا ہے اور یہ بھی علماء کرام اور دینی مراکز کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات اور مختلف اسلامی احکام وروایات کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا آج کی زبان اور اسلوب میں جواب دینا اور لوگوں کو مطمئن کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم کا مقابلہ کرنا اور عام مسلمانوں بالخصوص نئی نسل کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے آراستہ کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے اثرات سے بچانے کی کوشش کرنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔

حضرات محترم! آج کے ماحول میں ہمیں کون کون سے چیلنج درپیش ہیں اور کن کن محاذوں کا سامنا ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی ضرورت اور گنجائش ہے لیکن سردست ان چند امور پر اکتفا کرتے ہوئے آخر میں علمائے کرام اور دینی کارکنوں سے تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں:

  • دینی جدوجہد سے لاتعلق نہ رہیں کیونکہ اس دور میں اس ماحول میں دین کی جدوجہد سے کلیۃً لا تعلق رہنے میں مجھے ایمان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ جس شعبے میں آپ آسانی سے کام کر سکتے ہیں، وہاں کام کریں لیکن کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ عملی جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں تو بڑی سعادت کی بات ہے ورنہ زبان وقلم کے جہاد میں شریک ہوں، مال خرچ کر سکتے ہیں تو مال خرچ کریں، میڈیا کے محاذ پر کام کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس میں حصہ لیں، لابنگ کر سکتے ہیں تو یہ بھی ایک اہم شعبہ ہے، ذہن سازی اور فکری تربیت میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو اس میں حصہ ڈالیں۔ جو آپ کر سکتے ہیں، وہی کریں لیکن دینی جدوجہد میں خاموش تماشائی نہ بنیں، لا تعلق نہ رہیں اور کنارہ کشی کسی صورت میں اختیار نہ کریں کیونکہ یہ ایمان کے بھی خلاف ہے اور دینی غیرت کے بھی منافی ہے۔
  • جو شخص دین کے جس شعبے میں اور دینی جدوجہد کے جس محاذ پر کام کر رہا ہے، اسے کام کرنے دیں، اس کی مخالفت نہ کریں، حوصلہ شکنی نہ کریں اور اس کے کام کی نفی نہ کریں۔ کمزوریاں برداشت کریں اور اچھائیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اسی سے قوت پیدا ہوگی اور باہمی اعتماد پیدا ہوگا۔
  • میری تیسری اور آخری گزارش ہے کہ علمائے کرام اور دینی حلقے جہاں جہاں کام کر رہے ہیں، آپس میں رابطہ اور مشاورت کا ماحول بنائیں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں، باہمی میل جول بڑھائیں اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں۔ میں ایک کارکن کے طور پر اپنے تجربے کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ جتنا کام ہم اپنی اپنی جگہ کر رہے ہیں، وہ بھی کم نہیں ہے۔ اگر ہم باہمی مشاورت اور تقسیم کار کے ساتھ اسی کام کو صحیح طریقے سے منظم اور مربوط کر لیں تو ہمارے موجودہ کام کی افادیت میں دس گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

میں ایک بار پھر محترم پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب اور جماعت الدعوۃ پاکستان کے دیگر ذمہ دار حضرات کا شکر گزار ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں دینی جدوجہد میں اپنا کردار صحیح طریقہ سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter