’’مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا‘‘

   
۱۵ اپریل ۲۰۰۳ء

بغداد ایک بار پھر ’’سقوط‘‘ کے گھاٹ اتر گیا ہے اور امریکہ اور برطانیہ کی اتحادی فوج نے عراق کے عوام کو صدام حسین کی مبینہ طور پر جابرانہ حکومت سے آزادی دلانے کے اعلان کے ساتھ بغداد پر قبضہ کر لیا ہے۔ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اعلان کیا ہے کہ ان کی فوجیں ضرورت سے زیادہ ایک دن بھی عراق میں قیام نہیں کریں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ’’ضرورت‘‘ کا تعین خود امریکہ اور برطانیہ کے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے جس طرح اب سے گیارہ برس قبل خلیج میں امریکی اتحاد کی فوجیں کویت کو عراق کے تسلط سے نجات دلانے کے لیے آئی تھیں اور اس وقت بھی اعلان کیا گیا تھا کہ اتحادی فوجیں ضرورت سے زیادہ خلیج عرب میں نہیں رکیں گی۔ مگر کویت سے عراقی فوج کے انخلا کو ایک عشرہ سے زیادہ وقت گزر گیا ہے اور اب تو خود عراقی فوج بھی قصہ پارینہ بن گئی ہے لیکن یہ ضرورت ابھی باقی ہے۔ ایسے ہی عراق میں امریکہ اور برطانیہ کی فوجوں کی موجودگی کی ضرورت بھی اس وقت تک باقی رہے گی جب تک کہ اس خطہ کے حوالہ سے خود امریکہ اور برطانیہ کی ضروریات پوری نہیں ہو جاتیں۔ اس لیے گبھرانے کی کوئی بات نہیں، جب تک ’’ضرورت‘‘ باقی ہے عراق میں امریکی اتحاد کی فوجیں موجود رہیں گی اور تب تک عراقی عوام کی ’’آزادی‘‘ بھی قائم رہے گی۔

یہ سب کچھ خلاف توقع نہیں ہوا بلکہ جب سے اس کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی تب سے یہ کھٹکا موجود تھا کہ کسی لمحہ بھی یہ کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمارے لیے یہ خلاف توقع نہیں ہے بلکہ اس سے اگلے کئی مراحل ہیں جو بظاہر انہونے سے لگتے ہیں لیکن اس منصوبہ بندی اور پیش قدمی کا منطقی نتیجہ ہیں، اس لیے ہم ان کا بھی انتظار کر رہے ہیں۔ البتہ ہمارے لیے یہ بات خلاف توقع ہے کہ صدام حسین کی حکومت اور ان کی فوج نے مسلسل تین ہفتے تک امریکی اتحاد کی فوجوں کے مقابلہ میں مزاحمت کی اور اس قدر حوصلے سے کی کہ درمیان میں بعض مراحل پر خود اتحادی فوجوں کی کمان کو بھی سوچنا پڑا کہ کہیں ان سے غلطی تو نہیں ہوگئی؟

عراق پر گزشتہ دس سال سے اقتصادی پابندیاں تھیں اور ہمارے خیال میں صرف اس لیے تھیں کہ اسے معاشی لحاظ سے اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ کسی حملے کا بوجھ برداشت نہ کر سکے۔ عراق پر کیمیکل اسلحہ تیار کرنے اور آج کی ضرورت کے جدید ہتھیار بنانے پر پابندی تھی اور اس حوالہ سے اس قدر دباؤ تھا کہ اسے وہ ہتھیار خود اپنے ہاتھوں تباہ کرنا پڑے جو ممنوعہ رینج کی زد میں آتے تھے لیکن حملہ آور فوجوں کے خوفناک ہتھیاروں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ عراق کی قیادت کو سیاسی محاذ پر بھی دنیا بھر کے دباؤ کا سامنا تھا لیکن اس سب کچھ کے باوجود جبکہ امریکہ اور برطانیہ نے جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے خوفناک ہتھیاروں سے مسلح افواج کے ساتھ عراق پر ہلہ بول دیا تو صدام حسین اور ان کی فوج مسلسل تین ہفتے تک ان مسلح افواج کے سامنے کھڑے رہے اور جب تک ان کا بس چلا انہوں نے اتحادی فوجوں کا مقابلہ کیا۔ ہمیں صدام حسین اور ان کی فوج کی شکست پر افسوس ہے، ہم اس غم میں ان کے ساتھ ہیں لیکن ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ انہوں نے میدان میں شکست قبول کی ہے مگر فکری اور ذہنی دستبرداری کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ عملی میدان کی شکست قوموں کی زندگی میں مستقل نہیں ہوتی اور کبھی نہ کبھی دوبارہ کامیابی میں بدل ہی جایا کرتی ہے لیکن ذہنی اور فکری شکست قوموں کے لیے موت کا پروانہ ہوتی ہے، اس کے بعد قومیں تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوجایا کرتی ہیں جہاں سے دوبارہ اٹھنے کا اس دنیا میں کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔

ہمارے بعض دانشور دوستوں کا خیال ہے کہ صدام حسین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، انہیں اپنے عوام کو مروانے کے بجائے حملہ آوروں کا مطالبہ اور الٹی میٹم تسلیم کرتے ہوئے اقتدار سے دستبردار ہو جانا چاہیے تھا، اس طرح ان کی جان بھی بچ جاتی اور ان بہت سے عراقیوں کی جان بھی بچ جاتی جو اس جنگ میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ہیں بلکہ ان بہت سے سفید فام ’’مقدس لوگوں‘‘ کی جانیں بھی ضائع نہ ہوتیں جنہیں اپنے حکمرانوں کی ہوس ملک گیری کی خاطر جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ مگر جب ’’دانش‘‘ کسی دماغ میں اس قدر ’’اوورلوڈ‘‘ ہوجائے کہ ضمیر، غیرت اور احساسات و جذبات کی جگہ اسی کی بھرتی ہو تو پھر اسی قسم کے مشورے اس قسم کے دماغوں سے برآمد ہوا کرتے ہیں۔ یہ مشورے نئے نہیں، اس سے قبل ملا محمد عمر اور اسامہ بن لادن کو بھی یہی مشورہ دیا گیا تھا، میسور کے شیر دل حکمران سلطان ٹیپو شہیدؒ نے اسی قسم کے مشورہ کے جواب میں کہا تھا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ بلکہ اگر تھوڑا سا اور پیچھے کی طرف جائیں تو حضرت امام حسینؓ کو بھی یہی مشورہ دیا گیا تھا کہ حالات کے بہاؤ کے خلاف اڑنے اور خوامخواہ بچوں کی جانیں ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے، حملہ آوروں کی شرط منظور کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں بچا لیجئے۔ ہمارے لیے تو ان خدامست لوگوں کی صداقت اور حقانیت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ انصاف کے لیے لڑ رہے تھے اس لیے ان کے فیصلے ظاہری مصلحتوں کے خلاف ہونے کے باوجود درست تھے لیکن جن دوستوں کا ان باتوں پر یقین نہیں تھا انہیں تاریخ کے فیصلے پر نظر ڈال لینی چاہیے کہ تاریخ نے کس کے فیصلے کی تصدیق کی ہے اور کس کو غلط ٹھہرایا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں سلطان ٹیپو شہیدؒ کو ہی دیکھ لیجئے کہ وہ اگر لڑنے اور مرنے کے بجائے حیدرآباد دکن کی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی بالادستی تسلیم کر لیتے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مطالبات مان کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانیں بچا لیتے تو نہ صرف ان کی ریاست قائم رہتی بلکہ ان کے داخلی اختیارات بھی موجودہ دور کے بہت سے مسلم حکمرانوں سے کہیں زیادہ محفوظ ہوتے اور وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر سایہ ہمارے دور کے بہت سے عرب حکمرانوں سے زیادہ طاقتور حکمران کے طور پر باقی رہتے۔ لیکن پھر حریت فکر اور تحریک آزادی کا کہیں دور دور تک نشان نہ ملتا، نہ بالاکوٹ کا معرکہ ہوتا، نہ ۱۸۵۷ء کا میدان حریت گرم ہوتا، نہ تحریک خلافت چلتی اور نہ ہی تحریک آزادی کا کسی دل میں جوش اٹھتا۔

تاریخ بتلاتی ہے کہ اس خطہ میں آزادی کی جتنی تحریکیں اٹھی ہیں اور جن کے نتیجے میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش آزاد مملکتوں کی صورت میں دنیا کے نقشے میں موجود ہیں یہ سب ان دو مسلم حکمرانوں کے خون کا صدقہ ہے جنہوں نے اپنے اقتدار اور جانوں کا تحفظ کرنے کے بجائے ملی غیرت و حمیت کے تقاضوں کو ترجیح دی اور برطانوی استعمار کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔ ایک بنگال کے سراج الدولہ شہیدؒ اور دوسرے میسور کے سلطان ٹیپو شہیدؒ جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنی حکومتوں کا تیاپانچہ کرا لیا مگر آنے والی نسلوں کے دلوں میں اپنے مقدس خون کے ساتھ حریت فکر اور آزادی کے جذبات کے چراغ روشن کر دیے۔ ہم آج اگر کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان کہلاتے ہیں اور کسی حد تک آزادی سے بھی بہرہ ور ہیں تو یہ نتیجہ ہے سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو کے ان جرأتمندانہ فیصلوں کا جنہیں آج کے اوورلوڈ دانشوروں کی عینک سے دیکھا جائے تو وہ بھی اسی طرح کی حماقت دکھائی دیں گے جس طرح کی حماقت کا ارتکاب ہمارے ان دانشوروں کے بقول ملا عمر، اسامہ بن لادن اور اب صدام حسین نے کیا ہے۔ ہمارے ان دانشوروں کو کون سمجھائے کہ ذہنی شکست اور چیز ہوتی ہے اور جسمانی شکست اس سے بالکل مختلف چیز ہوتی ہے۔ جن کے نزدیک جسم ہی سب کچھ ہو اور اسی کا تحفظ اور آسائش ہی زندگی کی معراج قرار پا جائے ان کے لیے واقعی اس فرق کو سمجھنا ممکن نہیں ہے لیکن جو لوگ ذہن، عقیدہ، فکر اور احساس جذبہ سے بھی کسی درجہ میں آشنا ہیں وہ اس فرق کے ادراک سے بہرہ ور ہیں اور اسی وجہ سے ان کے ذہنوں میں سراج الدولہ شہید و سلطان ٹیپو شہید اور میر جعفر و میر صادق کے درمیان فرق کے دائرے بھی ابھی تک قائم ہیں۔

ہمیں صدر صدام حسین کی ذات سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی اس کے عقیدہ و فکر سے کوئی مناسبت ہے۔ وہ ایک سیکولر عرب نیشنلسٹ پارٹی کا لیڈر ہے، ہمارے نزدیک اس کا دور حکمرانی بھی مختلف حوالوں سے ناقابل ستائش ہے کہ اس کے داخلی مظالم ہمارے علم میں ہیں لیکن ان تحفظات کے باوجود اگر یہ بات درست ہے کہ اس نے ہتھیار ڈال کر ذہنی شکست اور فکری پسپائی قبول کرنے کی بجائے جسمانی شکست پر اکتفاکیا ہے اور فکر و عقیدہ کی کشمکش کا دروازہ کھلا رکھا ہے تو یہ کردار لائق تحسین ہے۔ اور اب جبکہ چاروں طرف سے لعنت و ملامت او رطعن و تشنیع کی توپوں کا رخ اس کی طرف مڑ گیا ہے، ہم اس کی اس جرأت رندانہ کو ان الفاظ کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ:

شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
   
2016ء سے
Flag Counter