دینی مدارس کا مقدمہ

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۷ دسمبر ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج اخبارات میں آپ نے خبر پڑھی ہو گی کہ حالیہ آئینی ترامیم کے دوران دینی مدارس کے بارے میں ایک قانونی بل قومی اسمبلی اور سینٹ نے منظور کیا تھا، اس کا ملک بھر کے دینی حلقوں نے تمام مکاتب فکر نے خیر مقدم کیا لیکن صدر محترم آصف علی زرداری نے وہ بل اعتراض لگا کر واپس کر دیا ہے اور اس پر ملک میں ایک تحریک کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔

مسئلہ کیا ہے؟ آئینی ترامیم میں کیا ہوا؟ بل واپس کیوں ہوا ہے؟ ہم احتجاج کیوں کریں گے؟ یہ دو تین باتیں بڑے سادہ سے لہجے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ دینی مدارس کے بارے میں ایک عرصے سے حکومتوں کی خواہش رہی ہے کہ یہ آزادی کے ساتھ کام کیوں کر رہے ہیں؟ یہ کسی سرکاری محکمے کے تحت کیوں نہیں آتے؟ پاکستان بننے کے بعد سے ہی یہ مسئلہ چل رہا ہے۔

جبکہ ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ یہ مدارس آزاد فضا میں وجود میں آئے تھے، آزاد کام کر رہے ہیں اور آزاد رہیں گے تو کام کر سکیں گے۔ جب ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزوں نے یہاں قبضہ کیا تو اس وقت کے نظامِ تعلیم میں سے قرآن پاک، حدیث و سنت، عربی و فارسی زبانیں، شرعی قوانین نکال دیے تھے اور اس کی جگہ انگریزی زبان اور انگریزی قانون لائے تھے۔ تب قرآن و سنت، فقہِ اسلامی، عربی اور فارسی علوم اور مضامین کی تعلیم اور کے تحفظ کے لیے یہ مدارس آزادانہ طور پر قائم ہوئے تھے کہ یہ کام حکومت نہیں کرے گی تو ہم کریں گے۔ چنانچہ آزادانہ طور پر دیوبند میں پہلا مدرسہ بنا، پھر آہستہ آہستہ پورے ملک میں، اس نہج پر کہ ہم سرکاری نظم کے بغیر آزادانہ طور پر قرآن و سنت، فقہ و شریعت، اور عربی و فارسی پڑھائیں گے۔ ۱۹۲۶ء سے تو آپ کا یہ مدرسہ انوار العلوم بھی اسی طرز پر کام کر رہا ہے۔ آج برصغیر کا ماحول اس حوالہ سے دنیا میں ممتاز ہے کہ یہاں دینی تعلیم باقی ہے۔ درسِ نظامی کی تعلیم اس طرز پر صرف جنوبی ایشیا میں ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش میں اس وقت مجموعی طور پر مدارس کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جو عوام کے چندہ سے چل رہے ہیں۔ اگر آپ ان مدارس میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں شمار کریں تو آپ کے آخری درجے کے ملازم کے برابر بھی نہیں بنتی، لیکن یہ کام آزادی کے ساتھ کر رہے ہیں کہ ہم نے قرآن پاک پڑھانا ہے، حدیث پڑھانی ہے، فقہ پڑھانی ہے، شریعت پڑھانی ہے۔ جو مضامین انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد نظامِ تعلیم سے نکال دیے تھے ہم نے وہ پڑھانے ہیں۔ الحمدللہ اب تک پڑھا رہے ہیں اور ان شاء اللہ پڑھاتے رہیں گے۔

یہ مدارس سرکاری مداخلت اور امداد قبول نہیں کرتے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان مدارس کے نظام کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے دیوبند کے جو اصول قائم کیے تھے، ان میں یہ مستقل اصول ہے کہ کسی سرکار کسی ریاست کی امداد نہیں لینی، صرف عوام کے چندوں پر نظام چلانا ہے۔ نہ امداد قبول کرنی ہے اور نہ مداخلت، ڈیڑھ سو سال ہو گئے ہیں ہم اس پر قائم ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ایک عرصے سے دو آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں:

ایک تو یہ ہے کہ مدارس سرکاری تحویل میں کیوں نہیں آتے؟ اور دوسری بات کہ مشترکہ تعلیم کیوں نہیں دیتے؟ میں دونوں سوالوں کا جائزہ لوں گا کہ محکمہ داخلہ اور محکمہ تعلیم ان دینی مدارس کو آخر کیوں کنٹرول کریں؟ جب ہم ان سے کچھ مانگتے نہیں ہیں، بلکہ وہ دیتے ہیں اور ہم نہیں لیتے، تو ہم ان کی مداخلت کیوں قبول کریں؟

صدر محمد ایوب خان مرحوم کے زمانے میں حکومت نے کچھ مدارس اپنے کنٹرول میں لیے تھے، وہ یاد دلانا چاہوں گا۔ جامعہ عباسیہ بہاولپور ریاست کا سب سے بڑا مدرسہ تھا، محکمہ تعلیم نے اپنے کنٹرول میں لے لیا کہ ہم ایک ماڈرن یونیورسٹی بنائیں گے اور دونوں تعلیمیں اکٹھی دیں گے۔ بہاولپور یونیورسٹی کا پرانا نام جامعہ عباسیہ ہے۔ مگر ہوا یہ کہ وہاں قرآن و سنت کی جو تعلیم دی جاتی تھی وہ رفتہ رفتہ ختم ہو گئی ہے اور اب اس کے نصاب میں اور پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ درسِ نظامی کا کوئی کورس بھی اب نہیں پڑھایا جاتا۔ وہاں وہی تعلیم ہے جو ملتان یونیورسٹی میں ہے، جو کراچی یونیورسٹی میں ہے، جو جامشورو یونیورسٹی میں ہے۔

یہ تو محکمہ تعلیم نے ہمارے ساتھ کیا، محکمہ اوقاف نے بھی ایوب خان مرحوم کے دور میں کچھ مدارس اپنی تحویل میں لیے تھے، یہ کہہ کہ ہم نظام بہتر کریں گے۔ دو مدرسے مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں۔ لاہور نیلا گنبد میں جامعہ رحیمیہ کے نام سے مدرسہ تھا جو محکمہ اوقاف نے تحویل میں لیا، آج آپ جا کر دیکھیں وہ مدرسہ کہاں ہے؟ اوکاڑہ گول چوک میں جامعہ عثمانیہ بہت بڑا مدرسہ تھا جو محکمہ اوقاف نے تحویل میں لیا کہ ہم اس کا نظام چلائیں گے۔ وہ مدرسہ کہاں ہے؟ بہت سے مدارس محکمہ تعلیم نے لیے تھے، آج اول تو وہ مدرسے موجود ہی نہیں ہیں، اگر کوئی ہے تو وہاں دینی تعلیم نہیں ہے۔

یہ تجربہ ہم دہرانے کے لیے قطعاً‌ تیار نہیں ہیں کہ دینی مدارس کو اپنی تحویل میں لے کر رفتہ رفتہ بہاولپور یونیورسٹی بنا دیا جائے یا صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ اس لیے ہم مدرسے کی آزادی کی بات کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کے تعاون سے آزادی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہمیں کئی حکومتوں کی طرف سے کئی بار پیشکش ہو چکی ہے، لیکن ہمارے بڑوں نے ہمیں ہدایت دے رکھی ہے کہ نہ سرکار کی مدد لینی ہے اور نہ مداخلت قبول کرنی ہے۔

ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ مدارس میں دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں اس لیے ان کی الگ رجسٹریشن اور چیکنگ کی ضرورت ہے۔ میرا سیدھا سا سوال ہے کہ جن جن کو دہشت گرد کہتے ہو، بتاؤ ان میں مدرسوں کے پڑھے ہوئے اور یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے کتنے ہیں؟ اور کیا کراچی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس میں دہشت گردی نہیں ہے؟ اور کیا یونیورسٹیوں کے طالب علم افغانستان وغیرہ کے جہادوں میں شریک نہیں ہوئے؟ سارا نزلہ مدارس پر کیوں گرا رہے ہو؟ یہ ’’دہشت گردی‘‘ اگر پڑھائی ہم نے ہے تو جنہوں نے سکھائی ہے وہ ذمہ داری کیوں نہیں قبول کر رہے؟ ان طلباء کو، یونیورسٹیوں کے ہوں یا مدرسوں کے، افغانستان کے جہاد کے دوران ٹریننگ کس نے دی تھی؟ جنہوں نے ٹریننگ دے کر استعمال کیا ہے وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے ٹریننگ مدرسے میں تو نہیں لی، کیمپوں میں لی تھی۔ وہ اپنی ذمہ داری سے آنکھیں بند کر کے سارا ملبہ مدرسوں پہ ڈال رہے ہیں۔ ہم یہ بات قبول نہیں کرتے، یونیورسٹیوں اور کالجوں طلباء بھی تھے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی تھے۔ ہم مدارس میں دین پڑھا رہے ہیں، آزادی رہے گی تو دین رہے گا ورنہ سارا ملک بہاولپور یونیورسٹی بن جائے گا، اس کے لیے ہم تیار نہیں ہیں.

دینی مدارس کے پانچ وفاق چلے آرہے ہیں، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ، رجسٹریشن سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا، لیکن رجسٹریشن کا جو قانون باقی اداروں کے لیے ہے وہی مدارس کے لیے بھی ہو، اکاؤنٹ سسٹم اور چیکنگ کا جو نظام باقیوں کے لیے ہے، ہمارے لیے بھی ہو۔ آپ خود کہتے ہیں کہ امتیازی قانون نہیں ہونا چاہیے تو مدرسے کے لیے امتیازی قانون کیوں؟ اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی جس پر ان چھبیسویں آئینی ترمیم کے دوران یہ طے ہوا کہ مدارس کی رجسٹریشن عام قانون کے تحت ہوگی، تھی اور اکاؤنٹ سسٹم کی چیکنگ بھی جیسے باقیوں کی ہوتی ہے ان کی بھی ہوگی۔ یہ بات طے ہو گئی تھی جو قومی اسمبلی اور سینٹ نے منظور کر لی لیکن صدر مملکت کے پاس جا کر واپس ہو گئی، جو ہمارے خیال میں بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہے۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں نہ رجسٹریشن سے انکار ہے، نہ اکاؤنٹ کی چیکنگ سے انکار ہے، ہمیں امتیازی قانون سے انکار ہے، یہ ہمارے لیے بیرونی مداخلت کا راستہ ہے۔ ہم رجسٹریشن کے لیے تیار ہیں لیکن کسی محکمے کی تحویل میں جانے کو تیار نہیں ہیں۔ تحویل میں جانے کا مطلب جامعہ عباسیہ کو بہاولپور یونیورسٹی میں بدلنا ہے اور جامعہ رحیمیہ اور جامعہ عثمانیہ کو ختم کرنا ہے۔ یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اصل فیصلہ تو دینی مدارس کے وفاق کریں گے، ہم ان شاء اللہ ان کا ساتھ دیں گے اور دینی مدارس کی آزادی اور تعلیمی نظام کو قائم رکھنے میں جو قربانی بھی ہمارے بس میں ہوئی دیں گے ان شاء اللہ العزیز۔

2016ء سے
Flag Counter