متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ دنوں کراچی میں لال مسجد اسلام آباد کے اس اعلان کے خلاف ریلی نکالی ہے جس میں شرعی عدالت کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے اور اس طرح الطاف بھائی نے شرعی احکام کی بالادستی اور نفاذ کے خلاف باقاعدہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ جہاں تک لال مسجد اسلام آباد کی قائم کردہ شرعی عدالت کا تعلق ہے، اس کے خدوخال ابھی تک واضح نہیں ہوئے اور نہ ہی اس کے طریقہ کار اور اس کے حدود عمل کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا سردست قبل از وقت ہوگا، اس لیے کہ یہ بات اس شرعی عدالت کے قواعد و ضوابط اور حدود کار سے واضح ہوگی کہ:
- وہ ملک کے عدالتی نظام کے خلاف ایک متوازی عدالت ہے جو خروج اور بغاوت کے دائرے کی چیز ہے،
- یا کوئی پنچایتی طرز کا عدالتی سسٹم ہے جس کی دستور پاکستان بلکہ دنیا کے کسی بھی دستور میں گنجائش موجود ہوتی ہے۔
اگر یہ متوازی نظام ہے اور مروجہ عدالتی سسٹم کو چیلنج کرتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ہم اس سے قبل واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ جامعہ حفصہ اسلام آباد کی طالبات اور لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ کے مطالبات کی حمایت اور ان کے ساتھ دلی ہمدردی کے باوجود ہم ان کے اس طرز عمل کو شرعاً، اخلاقاً اور قانوناً درست نہیں سمجھتے، جسے حکومت کے ساتھ تصادم، قانون کو ہاتھ میں لینے اور جبر سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور جس نے ملک بھر کے دینی حلقوں کو بھی اضطراب سے دوچار کر دیا ہے۔ لیکن اس پس منظر سے ہٹ کر دیکھا جائے تو شرعی عدالت کا قیام اصولی طور پر نہ تو دستور کے خلاف ہے اور نہ ہی کوئی ایسا جرم ہے جس کے خلاف ملک میں ریلیاں نکالنے کی نوبت آ جائے اور شرعی قوانین کی عملداری کے خلاف پروپیگنڈے کا بازار گرم کر دیا جائے۔
الطاف بھائی ’’مہاجر‘‘ کہلانے پر فخر کرتے ہیں اور مہاجر قومیت کے نام سے سیاست کر رہے ہیں، اس لیے انہیں یہ بات معلوم ہوگی کہ شرعی عدالتیں ہندوستان میں اس وقت قائم ہوئی تھیں جب لندن اس خطے پر حکمرانی کر رہا تھا، جہاں بیٹھ کر الطاف بھائی پاکستان میں حکمرانی قائم کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں بلکہ کسی حد تک کر بھی رہے ہیں۔ پنچایتی طرز کی پرائیویٹ شرعی عدالتوں کا سلسلہ صوبہ بہار سے شروع ہوا تھا جہاں امارت شرعیہ کے عنوان سے مسلمانوں کے خاندانی تنازعات کو قرآن و سنت کی روشنی میں نمٹانے کے عمل کا آغاز ہوا تھا اور بزرگ عالم دین قاضی سجاد احمد صاحب کو امیر شریعت منتخب کر کے ایک باقاعدہ عدالتی سسٹم تشکیل دیا گیا تھا جو اب تک کام کر رہا ہے۔ اس کے بعد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی اور حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ان شرعی عدالتوں کی سربراہی کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق اب ہمارے فاضل دوست مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی سے تو ہماری نیاز مندی بھی تھی، ان سے لندن میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں، وہ ورلڈ اسلامک فورم کی دعوت پر لندن تشریف لائے اور ہمارے مختلف پروگراموں میں شریک ہوئے۔ ان کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی کا علمی و فقہی کام آج پورے جنوبی ایشیا کے علمی و دینی حلقوں کا قابل قدر اثاثہ ہے اور قاضی و جج کی حیثیت سے ان کے تجربات اور فیصلے اس شعبے کے افراد کے لیے سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔
صوبہ بہار سے ہٹ کر بھارت کے بہت سے شہروں میں اس طرز کی پرائیویٹ شرعی عدالتوں کا نظام موجود ہے جو پنچایت کے طریقے سے کام کر رہا ہے۔ نہ تو فرنگی اقتدار کے دور میں ان سے تعرض کیا گیا تھا اور نہ ہی بھارت کا موجودہ سیکولر دستور ان شرعی عدالتوں کے وجود اور کام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بلکہ ہماری معلومات کے مطابق ایک مرحلے میں جمعیت علماء ہند نے ملک گیر سطح پر اس طرح کی شرعی عدالتوں کا فیصلہ کر کے علماء ہند کے ایک بڑے اجتماع میں جنوبی ایشیا کے ممتاز محدث مولانا حبیب الرحمن اعظمی کو کل ہند سطح پر امیر شریعت منتخب کیا تھا۔ ان کے بعد مولانا اسعد مدنی اس منصب پر فائز رہے، اب حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ اس حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور ان کی نگرانی میں بھارت کے بیسیوں شہروں میں علماء کرام کی شرعی عدالتیں مسلمانوں کے خاندانی معاملات اور تنازعات کے فیصلے کر رہی ہیں۔
اس لیے اگر الطاف بھائی کو پاکستان کے علماء اور قانون دانوں پر اعتماد نہیں ہے تو بھارت کے ہندو قانون دانوں سے اس قسم کی شرعی عدالتوں کی دستوری حیثیت کے بارے میں دریافت کر لیں، انہیں ان کی ضرورت و افادیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ اور اگر انہیں اس کے لیے مغرب ہی کے کسی کے حوالے کی ضرورت ہے تو وہ بھی حاضر ہے اور وہ بھی مغرب کے کسی عام ملک کا نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی مہم کی قیادت کرنے والے امریکہ بہادر کا، کہ اس طرح کی شرعی عدالتیں خود امریکہ میں بھی موجود ہیں اور کام کر رہی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں ۱۹۸۷ء میں پہلی بار امریکہ گیا تو مجھے بتایا گیا کہ امریکی دستور میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر کسی مذہبی کمیونٹی کے افراد اپنے خاندانی اور مالیاتی تنازعات کے لیے اپنے مذہبی احکام کے مطابق فیصلہ کرنے کے لیے پرائیویٹ عدالتی نظام قائم کرنا چاہیں تو وہ سپریم کورٹ آف امریکہ سے منظوری لے کر ایسا کر سکتے ہیں۔ اور امریکہ کے یہودیوں نے عملاً ایسا کر رکھا ہے، ان کی الگ پرائیویٹ عدالتیں ہیں جو نہ صرف خاندانی تنازعات بلکہ مالیاتی معاملات میں فیصلے کرتی ہیں، اور ان کے فیصلوں کا سپریم کورٹ آف امریکہ میں احترام کیا جاتا ہے۔ میں نے بہت سے مسلم علماء سے اس وقت گزارش کی بلکہ شکاگو کے مسلم کمیونٹی سنٹر میں اس پر ایک باقاعدہ لیکچر بھی دیا کہ اگر امریکہ کا دستور اس بات کی گنجائش دیتا ہے تو اس سے مسلمانوں کو بھی فائدہ اٹھانا چاہیے اور دستوری مراحل پورے کر کے اپنی عدالتیں ضرور قائم کرنی چاہئیں۔ اس کے بعد بھی متعدد مراحل میں دوستوں کو اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتا رہا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس حوالے سے بعض شہروں میں پیشرفت ہوئی ہے۔ شکاگو اور اٹلانٹا سمیت متعدد مقامات پر شرعی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ گزشتہ سال میں امریکہ گیا تو نیویارک میں ایک شرعی عدالت کو خود دیکھنے کا موقع ملا جو اگرچہ اس وقت منظوری کے مراحل میں تھی لیکن بعض علماء کرام مسلمانوں کے خاندانی تنازعات کی سماعت کر کے فیصلے دے رہے تھے۔
الطاف بھائی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ خود پاکستان میں اس سے قبل پرائیویٹ شرعی عدالتوں کے قیام کی کوشش ہو چکی ہے جو کامیاب نہیں ہو سکی تھی، اور کامیاب ہونے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کے دستوری جواز کو کسی نے چیلنج کیا تھا، بلکہ انتظامی کمزوریوں اور دیگر وجوہ کی بنا پر وہ مہم آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ یہ بھٹو مرحوم کی حکومت کے دور عروج کی بات ہے۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علماء اسلام کا کل پاکستان علماء کنونشن مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ہوا جس میں ملک بھر سے پانچ ہزار کے لگ بھگ جید علماء کرام نے شرکت کی۔ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کی بھرپور نمائندگی تھی۔ یہ اتنا بھرپور اور کامیاب کنونشن تھا کہ اس کے نتیجے میں پنجاب کی پی پی گورنمنٹ نے جامع مسجد نور اور اس کے ساتھ مدرسہ نصرۃ العلوم کو انتقاماً اوقاف کی تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا جس کے خلاف مزاحمت کی تحریک میں سینکڑوں علماء کرام اور دینی کارکنوں نے مسلسل چار ماہ تک گرفتاریاں پیش کیں۔ خود میں بھی ساڑھے تین ماہ کے لگ بھگ جیل میں رہا اور بالآخر بھٹو حکومت کو وہ نوٹیفیکیشن واپس لینا پڑا تھا۔ اس کنونشن میں جو حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا اور حضرت مولانا عبید اللہ انور اس کے صدر استقبالیہ تھے، قائد جمعیت حضرت مولانا مفتی محمود نے جمعیت علماء اسلام کی طرف سے ملک بھر میں ہر سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے وفاقی سطح پر حضرت مولانا مفتی محمود کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بورڈ قائم کیا تھا جس میں حضرت مولانا عبد الکریم قریشی آف بیرشریف لاڑکانہ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم آف گوجرانوالہ شامل تھے۔ پنجاب میں حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ آف ملتان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ جبکہ ہمارے گوجرانوالہ کے موجودہ ایم این اے حضرت مولانا قاضی حمید اللہ بھی اس وقت قاضی بنے تھے، کیونکہ انہیں ضلع گوجرانوالہ کے لیے قاضی مقرر کیا گیا تھا، ان کے نام کے ساتھ قاضی کا اضافہ اسی حوالے سے ہوا، اس سے قبل وہ قاضی نہیں کہلاتے تھے۔
ان عدالتوں کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط طے کیے گئے تھے، طریقہ کار وضع کیا گیا، بعض جگہ عدالتوں نے کام بھی کیا اور کچھ فیصلے بھی کیے۔ ان عدالتوں کے قواعد و ضوابط کو جمعیت علماء اسلام پاکستان کے دستور کا حصہ بنایا گیا اور ان کی ترتیب و تدوین میں حضرت مولانا سید حامد میاں، حضرت مولانا مفتی عبد الواحد، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم آف پلندری جیسے بزرگ علماء کرام نے حصہ لیا۔ ان عدالتوں کے قیام کی انتظامی ذمہ داریوں میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔ لیکن اس کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ تحریک مسجد نور نے کم و بیش نصف سال مصروف رکھا، پھر ملکی سطح پر پاکستان قومی اتحاد تشکیل پایا جس کا سربراہ مولانا مفتی محمود کو چن لیا گیا۔ الیکشن مہم اور پھر نظام مصطفیٰ کی تحریک، اس کے بعد مارشل لاء اور پھر حضرت مولانا مفتی محمود کی وفات کے واقعات اس تسلسل کے ساتھ پیش آئے کہ پرائیویٹ شرعی عدالتوں کا یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ جب کہ میرے نزدیک یہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کی موجودہ قیادت کے ذمہ حضرت مولانا مفتی محمود کے قرض کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر مولانا فضل الرحمن اور ان کے رفقاء حضرت مولانا مفتی صاحب کے اس ورثے کی طرف توجہ دے سکیں تو یہ ان کی بہت بڑی قومی خدمت ہو گی۔
اس لیے لال مسجد اسلام آباد کی طرف سے شرعی عدالت کے قیام کے اعلان کو ہم اصولاً غلط نہیں سمجھتے، بشرطیکہ وہ دستور کے دائرے میں ہو اور اسے متوازی عدالتی سسٹم کی حیثیت نہ دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہم محترم الطاف حسین سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ شرعی عدالتوں کے قیام کے اعلان پر اس قدر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ ملک و قوم دونوں کی ضرورت ہے اگر دستور و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اسے چلایا جائے تو اس سے عام آدمی کو تین فائدے حاصل ہو گے:
- ایک یہ کہ فوری اور سستا انصاف مہیا ہو گا،
- دوسرا یہ کہ شرعی احکام کے مطابق فیصلہ ہونے پر روحانی سکون میسر ہو گا،
- اور تیسرے نمبر پر خیر و برکات کا بھی حصول ہو گا۔
دستور کی بالادستی اور جمہوری عمل کے احترام میں ہم الطاف بھائی کے ساتھ ہیں، لیکن اس کے آڑ میں شرعی احکام کی عملداری کی مخالفت اور سیکولر ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔