گزشتہ سال جولائی کے دوران جب میں لندن پہنچا تو آتے ہی جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے قائم مقام امیر حضرت مولانا اجمل خان مدظلہ کی خدمت میں عریضہ ارسال کر دیا تھا کہ جمعیۃ میں اب کوئی متحرک کردار ادا کرنا میرے لیے مشکل ہوگا اس لیے مجھے مرکزی ناظم انتخابات کے منصب سے فوری طور پر سبکدوش سمجھا جائے، اور نومبر میں ہونے والے جماعتی انتخابات میں سیکرٹری اطلاعات یا کسی اور منصب کے لیے میرا انتخاب نہ کیا جائے، میرے لیے اسے قبول کرنا مشکل ہوگا۔ اس کے بعد مولانا محمد اجمل خان صاحب اگست کے دوران برمنگھم میں مدرسہ قاسم العلوم کی سالانہ سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے تو انہوں نے ازراہ شفقت متعدد ملاقاتوں میں مجھے اس فیصلہ پر نظرثانی کے لیے فرمایا، بعض ملاقاتوں میں حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری زید لطفہم بھی شریک تھے، لیکن دونوں حضرات کے دلی احترام کے باوجود خود کو اس فیصلہ پر نظرثانی کے لیے آمادہ نہ کر سکا اور معذرت کر دی۔ گزشتہ دنوں اخباری اطلاعات کے ذریعہ معلوم ہوا کہ جمعیۃ علماء اسلام کے انتخابات ہوگئے ہیں اور میرے ایک محترم دوست اور دیرینہ ساتھی مولانا عبد الرزاق عزیز نے سیکرٹری اطلاعات کا منصب سنبھال لیا ہے، اس پر اطمینان ہوا کہ میری گزارش قبول کر لی گئی ہے۔ چنانچہ مولانا موصوف کو مبارکباد کا خط ارسال کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ میرے متحرک اور عملی تعلق کا وہ دور مکمل ہو گیا ہے جس کا عرصہ تیس سال پر محیط ہے۔
میں نے ۱۹۶۲ء میں جمعیۃ علماء اسلام کی رکنیت اختیار کی تھی بلکہ اپنے آبائی قصبہ گکھڑ میں ممبر شب کی مہم میں شریک ہو کر متحرک جماعتی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد گوجرانوالہ شہر کے سیکرٹری اطلاعات، ضلع کے سیکرٹری اطلاعات، لاہور ڈویژن کے ناظم، اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے اپنی بساط کے مطابق کام کرتا رہا، اور ۱۹۷۵ء میں مجھے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی تجویز پر مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
اس دوران پاکستان قومی اتحاد کی دستور کمیٹی، منشور کمیٹی اور پارلیمانی بورڈ میں جمعیۃ کی نمائندگی کے علاوہ قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل کے طور پر کم و بیش دو سال کام کرنے کا موقع ملا۔ مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت میں جمعیۃ کی نمائندگی کا شرف حاصل ہوا، اسلامی جمہوری اتحاد کی منشور کمیٹی اور دستور کمیٹی میں جمعیۃ کی نمائندگی اور صوبائی نائب صدر کی حیثیت سے ذمہ داری حصہ میں آئی۔ اور متحدہ شریعت محاذ میں بھی جمعیۃ کی طرف سے سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں قبول کیں۔ اس عرصہ میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان متعدد بار شکست و ریخت کا شکار ہوئی اور مختلف دھڑے بنے لیکن میرا تعلق ہر دور میں اسی جمعیۃ کے ساتھ رہا جس کے امیر حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی دامت برکاتہم چلے آ رہے ہیں، اور اب بھی ابتدائی رکن کے طور پر اسی جمعیۃ سے وابستہ ہوں۔ درمیان میں چند روز اس کیفیت میں گزرے ہیں جمعیۃ کے دو دھڑوں میں مصالحت کے موقع پر دوسرے دھڑے کی طرف سے حضرت درخواستی مدظلہ کو بطور امیر قبول کرنے سے انکار کے باعث خود حضرت درخواستی مدظلہ کے ارشاد پر حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کو امیر منتخب کر لیا گیا، لیکن یہ صورتحال زیادہ دن قائم نہ رہ سکی اور حضرت درخواستی مدظلہ کی امارت میں جمعیۃ کی سابقہ پوزیشن بحال ہو گئی۔ اس چند روزہ مدت کے سوا جمعیۃ کے ساتھ میری وابستگی حضرت درخواستی مدظلہ العالی کی زیر امارت ہی تسلسل کے ساتھ چلی آ رہی ہے اور اللہ تعالیٰ حضرت الامیر مدظلہ کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں، ان کی زندگی تک اس تسلسل کو بہرحال قائم رکھنے کا ارادہ ہے ان شاء اللہ العزیز۔
متحرک جماعتی زندگی سے کنارہ کشی کے اسباب کیا ہیں، اور تیس سالہ متحرک جماعتی کردار کے دوران میرے مشاہدات و تجربات کے مجموعی تاثرات کیا ہیں؟ بعض دوستوں کی خواہش ہے کہ میں اس پر کچھ لکھوں۔ مجھے لکھنے سے انکار نہیں اور اس حوالہ سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے بلکہ بعض باتیں تو ایسی ہیں کہ:
لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی اس کا وقت نہیں ہے وقت آیا اور اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو یادوں اور رازوں کے اس فریزر کا دروازہ ضرور کھلے گا۔ سردست صرف یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ میرے اس فیصلہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں ملک کی موجودہ دینی سیاست کے طریق کار اور عمل سے مطمئن نہیں ہوں اور اس میں اصلاح کے بظاہر کوئی آثار بھی نہیں دیکھتا۔ موجودہ دینی سیاست کی خرابیوں اور اس پر عدم اطمینان کے چند پہلو بہت زیادہ قابل توجہ ہیں۔
- ایک یہ کہ پاکستان کی مذہبی سیاست کا بیشتر حصہ تہران، طرابلس اور ریاض کی لابیوں کا شکار ہو چکا ہے اور اسلام کے نفاذ اور غلبہ کی مخلصانہ جدوجہد ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
- دوسرا یہ کہ قیادت اور چودھراہٹ کے میدان میں نفسانفسی کی دوڑ جاری ہے اور کوئی شخص وسیع تر دینی مفادات کی خاطر اجتماعی قیادت فراہم کرنے کے لیے اپنے مزعومہ مقام سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
- تیسرا یہ کہ دینی قیادت کے ایک بڑے حصے کو سیکولر سیاست کے ہتھکنڈوں، طریق واردات اور مسلسل پیش قدمی کا سرے سے ادراک نہیں ہے، اور ستم بالائے ستم کہ اس عدم ادراک کا بھی کسی درجہ میں احساس نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں سیکولر سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں فٹ بال بنی ہوئی ہیں۔
- چوتھا کہ اسلامی نظام کی نفاذ کی صورت میں اسے چلانے اور سنبھالنے کے لیے دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور رجال کار کی فراہمی کی طرف کوئی دھیان نہیں ہے اور جدوجہد کے لیے کارکنوں کی فکری اور نظریاتی تربیت کا فقدان ہے۔
چنانچہ طویل غور و خوض کے بعد میں نے تیس سالہ تجربات کی روشنی میں اپنی تمام تر توجہات اور تگ و دو کا ہدف آخر الذکر نکتہ کو بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گوجرانوالہ میں ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے قیام کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ نئی نسل میں تعلیم و تربیت کے لحاظ سے ایسی کھیپ تیار کی جائے جو ملک میں اسلامی معاشرہ کے فروغ اور موجودہ نظام کی تبدیلی کا مؤثر ذریعہ بن سکے۔ اسی طرح اسلامائزیشن کے فکری کام، نفاذ اسلام کی جدوجہد کے لیے کارکنوں کی تربیت، اور عالم اسلام کی دینی تحریکات کے درمیان مشاورت و اشتراک کے اہتمام کے لیے لندن میں ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کی تشکیل کی گئی ہے۔ اور میں پورے شرح صدر اور اطمینان کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی کو شاہ ولی اللہ یونیورسٹی اور ورلڈ اسلامک فورم کے لیے وقف کر دینے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔
ملک بھر میں جمعیۃ علماء اسلام کے احباب کے ساتھ پہلے کی طرح کا رابطہ یقیناً اب باقی نہیں رہ سکے گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں جمعیۃ سے یا اس کے مشن سے ہٹ گیا ہوں۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ اسی محاذ جنگ پر میں نے اپنا مورچہ تبدیل کیا ہے اور اپنے لیے زیادہ مشکل اور صبر آزما مورچہ کا انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالٰی استقامت نصیب فرمائیں، آمین۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی اور ورلڈ اسلامک فورم کا نہ تو عملی اور جماعتی سیاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی مخصوص جماعت یا مکتب فکر کے ساتھ ان کی وابستگی ہے۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا میدان خالصتاً تعلیمی اور ورلڈ اسلامک فورم کا میدان صرف فکری اور نظریاتی ہے۔ البتہ ہم شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات کی روشنی میں ان تمام طبقوں، جماعتوں اور حلقوں کی یکساں طور پر خدمت کرتے رہیں گے جو مسلم معاشرہ میں اسلامی احکام و تعلیمات کی عملداری کے خواہشمند ہیں ان شاء اللہ العزیز۔ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں مخلصانہ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اس مشن اور عہد دونوں کی تکمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔