اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کمانڈوز کی وسیع پیمانے پر نقل و حرکت کی خبریں اخبارات میں آرہی ہیں۔ سعودی عرب کے متمول تاجر خاندان ’’بن لادن فیملی‘‘ کے اس چشم و چراغ کو امریکہ نے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے رکھا ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہے۔ جبکہ یہ سعودی تاجر امارت اسلامی افغانستان میں قیام پذیر ہے اور والیٔ افغانستان ملا محمد ربانی نے ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کر دیا ہے کہ اسامہ ہمارے مہمان ہیں اور ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ اسامہ بن لادن پر امریکہ کا الزام ہے کہ وہ عرب ممالک میں دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہے ہیں، ان کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں، صومالیہ میں ان امریکیوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں جن کے قتل کے بعد امریکہ کو صومالیہ سے اپنی فوجیں واپس بلانا پڑی تھیں، اور ریاض میں وہ دھماکے انہوں نے کرائے ہیں جن میں متعدد امریکی جاں بحق ہوگئے تھے۔ اور اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اسامہ بن لادن نے امریکیوں کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری کر دیا ہے کہ جہاں بھی کوئی امریکی قابو چڑھے اسے قتل کر دیا جائے۔ اس کے بعد دنیا بھر بالخصوص پاکستان میں امریکہ کے سفارتی عملہ اور مراکز کی حفاظت کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں اور سفارتکاروں کی سرگرمیاں اور نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے۔
اسامہ بن لادن ان میں سے کسی بات سے انکاری نہیں ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کے خلاف حالت جنگ میں ہیں، اور حالت جنگ میں دشمن کو نقصان پہنچانے اور کمزور کرنے کی کوئی بھی کاروائی ان کا حق ہے۔ اس لیے وہ ان میں سے کسی بات پر ندامت اور معذرت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ اپنے وسائل اور طاقت کی حد تک امریکہ کے خلاف ہر اس اقدام کے لیے پرعزم ہیں جو امریکہ کے لیے کسی بھی درجہ میں نقصان دہ ہو۔
راقم الحروف نے کچھ عرصہ قبل افغانستان میں اسامہ بن لادن سے ملاقات کی تھی جس کی تفصیل ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والے مضمون میں ذکر ہو چکی ہے اور اسامہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے بعض اعلانات اور بیانات کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسامہ کے درمیان اس کشمکش کے حوالہ سے ان معروضی حالات کا مختصر جائزہ لے لیا جائے جنہوں نے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے بعد ملک کے امیر ترین خاندان کے نازونعم میں پلنے والے ’’تجارتی شہزادے‘‘ کو کندھے پر کلاشنکوف لٹکانے، کیمپوں کی زندگی بسر کرنے، اور امریکہ جیسی سپرپاور کے خلاف کمانڈو کارروائیوں پر مجبور کر دیا ہے۔ اور یہ اس لحاظ سے اسامہ کا ایک جائز حق بھی ہے کہ میڈیا اور لابنگ کے تمام وسائل اس کے مخالف کیمپ میں ہیں اور اس کی کردارکشی کی یکطرفہ مہم مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ اسامہ بن لادن کو اس ’’میڈیاوار‘‘ میں ایک بھی ایسا مورچہ میسر نہیں ہے جسے وہ اپنے دفاع کے لیے آزادی کے ساتھ استعمال کر سکے۔
امریکہ کے خلاف اسامہ بن لادن کی اس جدوجہد کو موقف کے اعتبار سے ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا حصہ عالم اسلام کے وسیع تناظر میں ہے، دوسرا حصہ خلیج عرب کے علاقائی دائرے سے متعلق ہے، اور تیسرا حصہ سعودی عرب کی داخلی صورتحال کے حوالہ سے ہے۔
اسامہ بن لادن نے اپنی ’’امنگوں بھری جوانی‘‘ کا ایک بڑا حصہ جہاد افغانستان کی نذر کیا ہے اور عیش و آرام کے اسباب و وسائل سے بھرے بلند و بالا محلات کو چھوڑ کر افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں پتھروں اور گولیوں کے درمیان عمر عزیز کا ’’سرکش اور منہ زور‘‘ حصہ گزار دیا ہے۔ سالہا سال تک جہاد میں حصہ لیا، خود جنگ لڑی، اور ہزاروں نوجوانوں کو جنگ میں حصہ لینے کے لیے تیار کیا۔ جان بھی خرچ کی اور مال خرچ کرنے میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ یہ وہ دور تھا جب امریکہ اپنی ضرورت و مفادات کے لیے ’’جہاد افغانستان‘‘ کی پشت پناہی کر رہا تھا اور سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے افغان مجاہدین کی بھرپور حمایت و امداد کر رہا تھا۔ اس دور میں دنیا کے ہر خطے سے مسلم نوجوانوں نے افغانستان پہنچ کر جہاد میں حصہ لیا اور جہاد کی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور اسلام کے غلبہ و نفاذ کے جذبہ سے اپنے دلوں اور دماغوں کی شمعیں روشن کرلیں۔
سوویت یونین کی فوجیں افغانستان سے واپس ہوئیں تو امریکہ کا خیال تھا کہ مختلف ملکوں سے افغانستان میں آنے والے مسلمان نوجوان بھی اپنے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں گے اور ’’کرائے کے سپاہیوں‘‘ کی طرح باقی عمر فتح کی سرشاری اور اخبارات میں اپنے کارناموں کی خبریں اور تصویریں چھپوانے میں گزاریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ ان نوجوانوں نے ایک نیا مشن اپنے سینوں میں پال لیا کہ اپنے اپنے ملکوں میں کفر و استحصال کے نظاموں کے خاتمہ اور اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے لیے اسی جذبہ کے ساتھ کام کریں گے جس جذبے کے ساتھ افغانستان کی سرزمین پر روسی استعمار کا مقابلہ کیا تھا۔ یہ صورتحال امریکہ کے نئے ’’عالمی سیٹ اپ‘‘ کے یکسر منافی اور مسلم ممالک کی مغرب پرست حکومتوں کے لیے قطعی غیر متوقع اور پریشان کن تھی۔ اس سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی طے کی گئی کہ جو لوگ روسی افواج کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا کر ’’مجاہدین‘‘ اور ’’حریت پسند‘‘ کہلاتے تھے انہیں ’’دہشت گرد‘‘ کا خطاب دے دیا گیا۔ مسلم ممالک کی حکومتوں نے ان نوجوانوں کو سنبھالنے کے لیے جیل خانے تیار کر لیے، ان کی واپسی کا انتظار کرنے کی بجائے ان کی گرفتاری کے مطالبے ہونے لگے، اور پھانسی کے پھندوں کی قوت برداشت جانچی جانے لگی۔
اس فضا میں جب جہاد افغانستان میں حصہ لینے والے مختلف ممالک کے مسلم نوجوانوں کے لیے کوئی پناہ گاہ باقی نہ رہی تو اسامہ بن لادن نے ان کی پناہ گاہ بننے کا فیصلہ کیا۔ سوڈان میں ڈیرہ لگا لیا اور سوڈانی حکومت کو معاشی خود کفالت کی مہم میں معاونت و مشاورت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مجاہد مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کا کام سنبھال لیا۔ دنیا کے ہر مسلم مجاہد کو سپورٹ کرنا اور اس سے رابطہ رکھنا تو اسامہ بن لادن کے بس کی بات نہیں تھی، لیکن وہ اپنی عزیمت و استقلال اور جرأت و حوصلہ کے باعث جذبۂ جہاد سے سرشار ہر مسلم نوجوان کا ’’نفسیاتی سہارا‘‘ ضرور بن گیا۔ اور عالم اسلام کے وسیع تناظر میں یہی وہ خطرناک قوت تھی جو امریکہ کے لیے اضطراب کا باعث بن گئی۔ سوڈان کی زمین اسامہ بن لادن پر تنگ کر دی گئی اور اسے اس ملک کو خیرباد کہنا پڑا۔ وہاں سے نکلنے کے بعد اب اسامہ بن لادن کا کیمپ افغانستان میں ہے جہاں وہ مہمان کی حیثیت سے مقیم ہے اور اس کی سرگرمیوں کا کوئی ایسا ’’نیٹ ورک‘‘ نہیں ہے جو بین الاقوامی ایجنسیوں کی باریک بین نگاہوں سے اوجھل رہ سکے۔ البتہ پوری دنیا کے مسلم مجاہدین کے دلوں میں اس کی محبت و عقیدت دن بدن بڑھ رہی ہے اور اسی وجہ سے امریکیوں کے قتل کے لیے اس کا حالیہ فتویٰ ’’ایٹم بم‘‘ سے بھی خطرناک سمجھا جا رہا ہے۔
خلیج کے حوالہ سے اسامہ بن لادن کی جنگ امریکہ کے ساتھ یہ ہے کہ امریکہ فوجی قوت کے بل بوتے پر اس خطہ میں اپنا تسلط دن بدن مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ اس نے اسرائیل کے مکمل تحفظ کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کو منتشر اور بے بس بنائے رکھنے کے لیے اپنے تمام وسائل وقف کر رکھے ہیں۔ وہ تیل کے چشموں پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے اور عرب عوام کو ووٹ، آزادیٔ رائے، اور شہری حقوق سے مکمل طور پر محروم کر دینے والی آمریتوں کا پشت پناہ بنا ہوا ہے۔ اسامہ بن لادن کا مطالبہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری خلیج سے اپنی فوجیں واپس بلالیں، عربوں کے تیل اور دولت کا ظالمانہ استحصال بند کریں، اور عرب ممالک اور اقوام متحدہ کی خودمختاری بحال کردیں، تاکہ عرب عوام پوری آزادی اور خودمختاری کے ساتھ کسی قسم کے دباؤ اور مداخلت کے بغیر اپنے فیصلے خود کر سکیں۔
سعودی عرب کی داخلی صورتحال میں اسامہ بن لادن کو یہ شکایت ہے کہ وہاں اسلام کی مکمل عملداری نہیں ہے۔ شاہی نظام ہے جو اسلام کے مزاج کے خلاف ہے، قومی خزانہ شاہی خاندان کے اللوں تللوں میں برباد ہو رہا ہے، سودی معیشت نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے، سعودی عرب کے عوام کو شریعت اسلامی کے مطابق شہری حقوق حاصل نہیں ہیں، ملک کو امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا ہے، اور سعودی عرب کی موجودہ پوزیشن کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ میں من مانی کاروائیاں کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کر رہے۔
یہ ہے حالات و واقعات کا وہ تسلسل جس نے ’’بن لادن فیملی‘‘ کے اس ’’تجارتی شہزادے‘‘ کے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑا کر اسے امریکہ جیسی سپرپاور کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ وہ امریکیوں کو جہاں ملیں قتل کرنے پر آگیا ہے اور امریکہ اس کی گرفتاری کے لیے بے قرار ہے۔ اس کشمکش کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایمل کانسی کی طرح اسامہ کی گرفتاری کے لیے بھی مقامی اور علاقائی ذرائع کو استعمال کرنے میں امریکہ کامیاب ہو جائے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکی استعمار کے تسلط سے خلیج عرب کی آزادی کی جنگ میں اسامہ بن لادن ایک نئے ’’گوریلا لیڈر‘‘ کے طور پر تاریخ کے مستقل باب کا عنوان بن جائے۔ اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی لیکن اس مرحلہ پر ہم اپنی گزارشات کا اختتام بعض حلقوں کے اس نازک اور چبھتے ہوئے سوال کا جائزہ لیتے ہوئے کرنا چاہیں گے کہ اسامہ بن لادن آخر ہتھیار کی زبان میں کیوں بات کرتا ہے؟ اور کیا حکومتوں اور نظاموں کے خلاف ہتھیار اٹھانا اور قتل کی دھمکیاں دینا دہشت گردی نہیں ہے؟
سوال بجا ہے لیکن ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیے کہ امریکہ بھی تو خلیج میں ہتھیار کی زبان استعمال کر رہا ہے۔ اس نے اسرائیل کا خنجر عسکری قوت کے بل بوتے پر ہی عربوں کے سینے میں گھونپ رکھا ہے، وہ عربوں کے تیل اور دولت پر مسلح فوجوں کی طاقت کے زور پر ہی قابض ہے، اس نے عرب عوام کی شہری آزادیوں اور شرعی حقوق کا راستہ بندوق کی نالی سے ہی روک رکھا ہے، اور عرب ممالک کی خودمختاری اس کی فوجی چھاؤنیوں کے تہہ خانوں میں ہی جکڑی پڑی ہے۔ اس لیے اگر کسی عرب نے ہتھیار کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا لیا ہے تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑی کہ آزادی کی جنگیں اسی طرح لڑی جاتی ہیں۔ پھر ہم تو سید احمد شہیدؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ ، جنرل بخت خانؒ ، مولانا محمد قاسمؒ ، سردار محمد خان کھرل شہیدؒ ، حافظ ضامن شہیدؒ ، فقیر ایپیؒ ، اور حاجی صاحب ترنگ زئیؒ کے خطہ کے لوگ ہیں۔ ہمیں جنگ آزادی اور ہتھیار کا تعلق سمجھنے کے لیے کہیں اور جانے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم تو ان مراحل سے کئی بار گزر چکے ہیں۔ اور جنوبی ایشیا میں امریکہ کی موجودہ پالیسیاں مستقبل قریب میں ہمارے انہی مراحل سے ایک بار پھر گزرنے کی نشاندہی کر رہی ہیں۔